مقالہ جات

حافظ سعید اور نیا بیانیہ

تحریر : مظہر عباس (سینئر تجزیہ کار)
یہ 2013ء کے عام انتخابات سے کچھ پہلے کی بات ہے جب جمعیت علماء اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے ایک اجلاس میں دفاع پاکستان کونسل کو انتخابی اتحاد میں بدل دینے کی تجویز دی جسے جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمدسعید کے تحفظات کی وجہ سے عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد اور نیشنل ایکشن پلان کی روشنی میں اب سیاسی اور فوجی قیادت جہادی تنظیموں کو قومی انتخابی سیاسی دھارے میں لانے کے لئے نئے بیانیہ پر کام کررہی ہیں۔ مولانا سمیع الحق نے دریں اثنا اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ ایک مرحلے پر انہوں نے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن سے قبل طالبان کو بھی باور کرانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے جب تک شمالی وزیرستان سے فوج نہیں ہٹائی جاتی، ان کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ ذرائع کا کہنا ہےکہ مولانا سمیع الحق دوبارہ متحرک نہیں ہیں، تاہم اس بارشاید سیاسی و فوجی قیادت کی حمایت انہیں حاصل ہوجائے۔ کیونکہ حکام فاٹا میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کے حوالے سے کام کررہے ہیں اسی طرح تمام کالعدم تنظیموں کے ساتھ صفر برداشت کی پالیسی بھی اختیار کی گئی ہے جس میں فرقہ وارانہ اور دہشت گرد نیٹ ورکس دونوں ہی شامل ہیں جن پر کوئی پابندی نہیں، انہیں قومی دھارے میں شامل ہونے کا موقع دیا جائے گا۔ اس سہ رخی حکمت عملی میں اول پاکستان میں تمام مقامی اور بین الاقوامی نیٹ ورکس کا خاتمہ، دوسرے جہادی تنظیموں کو انتخابی سیاست میں آنے پر مائل کرنا اور تیسرے فاٹا، بلوچستان اور کراچی کے لئے بڑی اقتصادی اصلاحات کو روبہ عمل لانا شامل ہیں۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے اپنے ایک انٹرویو میں اس مسئلہ کواپنے مخصوص انداز میں حل کیا جب ان سے پوچھا گیا جماعت اسلامی افغانستان پر امریکی حملے کے خلاف اتنی سرگرم کیوں نہیں، جتنی وہ سوویت یونین کے خلاف متحرک رہی۔ قاضی حسین احمد کا جواب تھا ’’گزشتہ جنگ میں جہاد افغانستان ریاست کی پالیسی تھی لیکن نائن الیون کے بعد یہ پالیسی برقرار نہیں رہی‘‘ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل مرحوم نے بھی اتفاق کیا تھا کہ اعلان جہاد ریاست کی ذمہ داری ہے۔ مسلح افواج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے اپنی حالیہ پریس بریفنگ میں یہ اشارہ دیا تھا کہ کسی بیانیہ سازی یا اس میں تبدیلی لانے کے لئے وقت درکار ہوتاہے انہوں نے کہا تبدیلی ہی کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پوری قوم ہی اپنی جنگ سمجھ رہی ہے۔ لیکن حافظ سعید جیسے لوگوں کے لئے شاید یہ اتنا آسان نہ ہو۔ 2013ءکے عام انتخابات میں حافظ سعید نے دینی سیاسی جماعتوںکی یہ درخواست مسترد کردی تھی کہ وہ جماعت الدعوۃ کے حامیوں کوان کے حق میں ووٹ ڈالنے کی اجازت دے دیں۔تحریک نفاذ شریعت محمدی کے مولانا صوفی محمد کے برخلاف جنہوں نے 1973ء کے آئین ہی کو مسترد کردیا تھا، حافظ سعید کے خیال میں اگر وہ انتخابی سیاست میں پڑے تو خود ان کی پارٹی تقسیم ہوجائے گی۔ جماعت الدعوۃ پارلیمانی طرز حکومت کی مخالف ہے۔دوسرے غیر سیاسی ہونے کی وجہ سے انہیں جو حمایت حاصل ہے انتخابی سیاست میں کودنے سے وہ بھی جاتی رہے گی۔ رابطہ کرنے پر جماعت الدعوۃ کے ایک سینئر رہنما نے دینی سیاسی جما عتو ں کی جانب سے انتخابی حمایت کے لئے رابطے کئے جانے کی تصدیق کی۔ جب ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے کہا ’’حافظ محمد سعید کے بارے میں فیصلہ تمام اداروں نے قومی مفاد کوپیش نظر رکھتے ہوئے مل کر کیا ‘‘ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ ہم نئے بیانیہ کی ترتیب یا تشکیل کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔نائن الیون کےبعد کے منظر نامہ میں پالیسیوںا ور بیانیہ میں تبدیلی آئی ہے لیکن سب سے مشکل کام جس نے حکومت اور ریاست کو الجھا کر رکھ دیا ہے وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس عفریت پر قابو پانے کے حوالے سے ہے جماعت الدعوۃ ہی واحد نہیں جو قومی سیاسی دھارے میں آنے سے انکاری ہے اس کے ہم خیال ایسے 6؍ سے 8؍ گروپ مزید موجود ہیں۔ تاہم جماعت اسلامی جو 1960ء کی دہائی تک ایسی ہی سوچ رکھتی تھی، بالآخر اس نے قومی انتخابی سیاسی دھارے میں آنے کا فیصلہ کیا۔ پارلیمانی سیاست کی حمایت کی اور یہ باور کرلیاکہ تبدیلی انتخابات کے ذریعہ لائی جاسکتی ہے۔دوسری جانب جمعیت علماء اسلام ہمیشہ سے انتخابی سیاست پر یقین رکھتی رہی ہے، بلکہ 1970ء کی دہائی میں اس نے نیشنل عوامی پارٹی، 1990ء کی دہائی میں پیپلزپارٹی اور اب مسلم لیگ (ن) کے ساتھ تعلقات کار رکھے۔ افغانستان میں سوویت جنگ کے بعدمختلف ممالک کے 50؍ ہزار سے زائد مجاہدین واپس آئے اور اپنے ممالک جانا چاہا تو ان ممالک نے انہیں قبول کرنے سے انکار کردیا۔ ایک طرف جہاں 50؍ لاکھ افغان پناہ گزینوں نے پاکستان کا رخ کیا وہیں جس سب سے بڑے مخمصے کاسامنا کرنا پڑا، وہ ان ’’مجاہدین‘‘ کا مستقبل تھا جو برسوں بعد بین الاقوامی جہادی تنظیموں کا حصہ بن گئے۔ لشکر طیبہ پر پابندی لگنے کے بعد حافظ سعید نے اس سے تعلق توڑ لیا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جماعت الدعوۃ جہاد کشمیر کی دعویدار سب سے بڑی تنظیم بن گئی۔ پاکستان نے حافظ سعید اور جماعت الدعوۃ کے خلاف فیصلہ بڑے مشکل ماحول میں کیا لہٰذا ایک طرف بین الاقوامی چیلنجوںاور اقتصادی حقائق اور دسری جانب آپریشن ضرب عضب تو انتہا پسندی کے خلاف نئے بیانیہ میں بڑے پیمانے پر اصلاحات دیکھ سکتے ہیں جس میں نیشنل ایکشن پلان بھی شامل ہے۔ کشمیر پر پاکستان کی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی۔ حریت پسندوں کی سیاسی اور اخلاقی حمایت جاری رکھی جائے گی۔ درحقیقت آئندہ چند مہینوںمیں تنازع کے حل اور بھارتی مظالم روکنے کے لئے زیادہ متحرک سفارتی اقدامات ہونے والے ہیں۔ حافظ سعید کو میں 25؍ سال سے جانتا ہوں۔ جہاد کشمیر پر ان کا موقف بڑا واضح ہے لیکن بین الاقوامی دہشت گرد نیٹ ورکس پر ان کے تحفظات ہیں، داعش کے ابھرنے کے بعد جماعت الدعوۃ کو مشکل صورتحال کا سامنا ہے، وہ پاکستان میں اس کا اثر و نفوذ روکنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ فوجی جوانوں سمیت 60؍ ہزار پاکستانیوں کی قربانیوں کے بعد پاکستان کو بین الاقوامی حمایت درکار ہے۔ کیونکہ دو نوں جنگوںمیں امریکا کی پیدا کردہ گند صاف کردی اب یہ وقت ہے کہ وہ پاکستان کا یہ قرض چکائے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button