مقالہ جات

معاشرتی سطح پر انسانی اعمال کے اثرات!

کون سے انسانوں کا نامہ اعمال مرنے کے بعد بھی کھلا رھتا ھے!
سید صادق رضا تقوی
#ادب_رضا
?.ھم مرنے کے بعد بھی انسانی اعمال کے اچھے اور برے اثرات لکھتے جاتے ہیں:?
♦ سورہ یاسین، آیت ۱۲: ۔ ۔ ۔ ۔ ونکتب ما قدّموا و آثارھم ۔ ۔ ۔ ♦
?ھم (ان مرنے والے انسانوں کے )ان اعمال کو جو انہوں نے آگے (قیامت کیلئے) بھیجے اور اور ان (اعمال ) کے ( اچھے اور برے اثرات) کو مسلسل لکھ رھے ہیں!
? یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ انسان کے زیادہ تر اعمال کا دروازہ اس کے مرنے کے بعد بند ہو جاتا ھے سوائے تین چیزوں کے جسے روایت میں نیک اولاد، صدقہ جاریہ یا مفید علم کی ترویج کے نام سے بیان کیا گیا ھے! اس کے بعد اللہ فرما رھا ھے کہ ھم ان مرنے والوں کے اچھے یا برے اعمال و فعال کے اچھے یا برے آثار کو بھی لکھ رھے ہیں، یعنی اعمال کے اچھے اور برے اثرات مرنے کے بعد بھی لکھے جاتے ہیں!
? اگر کوئی انسان کسی کی ہدایت و رھنمائی کا سبب بنا تو ھدایت پانے والا انسان جب تک وہ نیک عمل انجام دیتا رھے گا مرنے والے کے حساب میں اضافہ ھوتا رھے گا اور اگر خدانخواستہ اگر کوئی انسان کسی کی گمراہی کا سبب بن جائے اور گمراہ کرنے والا گناہ اور برے کام کرے تو مرنے والے کے حساب میں برائیوں کا ہی اضافہ ہو گا!!
یہ بھی ممن ھے کہ مرنے والا خود گناہ یا برا اور قبیح کام انجام نہ دے بلکہ اپنے بیانات، کتابوں اور رجحانات ومیلانات سے دوسروں کی گمراہی کا باعث بن جائے!
اجتماعی فرائض انجام دینے والے اور معاشرتی سطح پر خدمت کرنے والے افراد کو یقیناً آگاہ و متوجہ رھنا چاھئے کہ یہ جو ھمارے یہاں مشہور ھے کہ جو بھی مرجائے اس کا اچھے الفاظ سے تذکرہ کرو تو یہ بات صرف اہل ایمان اور مومنین کیلئے ھے اور وہ بھی اس مومن کیلئے جو انفرادی حیثیت میں زندگی گزار کر مر جائے اور وہ معاشرے کے لوگون پر اجتماعی سطح پر اثر انداز نہ ہو مگر وہ شخص جو بدعتیں، برائیاں، گناہ، گمراہی و ضلالت انجام دیتا رھا، خود بھی گمراہ بنا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتا رھا تو اس کا حساب کتاب دوسرا اور دوسری ہی نوعیت کا ھے!
ایسا انسان جو معاشرے پر اجتماعی انداز سے اثر گزار ہوتا ھے اس کا حساب کتاب بالکل جداگانہ نوعیت کا ھے!
? آیت اللہ علامه شهید مرتضی مطهری بیان کرتے ھیں:
«در میان ما معروف است، می‌گوییم: #اذکروا_موتاکم_بالخیر ،… اسم این حرف را باید بگذاریم فلسفه‌ای معاویه‌ای که هر که رفت،‌ بگوییم #پرونده‌اش_بسته_شد. چرا بسته شد؟! اتفاقا باید پرونده آنها باز باشد، یعنی افرادی که در سرنوشت آینده مؤثرند، باید جامعه پرونده آنها را باز نگهدارد.»
♦حوالہ: [کتاب فلسفه تاریخ، ج1، ص205]? یہ جو ھمارے یہاں مشہور ہو گیا ھے کہ : #اذکروا_موتاکم_بالخیر ،… کہ اپنے مرنے والوں کو اچھے ناموں سے یاد کرو اور ان کا اچھا تذکرہ کیا کرو، تو ھمیں اس کا نام فلسفہ معاویہ ابن ابی سفیان رکھنا چاھئے کہ جو بھی مر جائے تو ھم اس کے بارے میں یہ کہیں کہ اس کا تو نامہ اعمال کا دروازہ اس کی موت سے بند ھو گیا ھے (اب اسے برا کہنے سے کیا مے گا اور تمہیں کیا فائدہ ہو گا؟!!)
ایسے افراد اور ایسی بات کہنے والوں کے جواب میں ھمیں یہ کہنا چاھئے :
کیوں جناب! اس مرنے والے کا نامہ اعمال کا دروازہ کیوں بند ہوگا؟! بلکہ حقیقت تو یہ ھے کہ (اجمتاعی سطح پر مؤثر) ایسے افراد کا نامہ اعمال کا دروازہ تو کھلا رھنا چاھئے۔ اس لئے کہ وہ افراد جو معاشرے میں بسنے والے انسانوں کے مستقبل، سرنوشت اور تقدیر ساز نظریات کیلئے اپنے بیانات اور رجحانات و میلانات سے سے اچھی یا بری صورت میں مؤثر اور مثبت یا منفی اثر گزار واقع ہوتے ہیں تو ان کے معاشرے کو چاھئے کہ وہ ان کے نامہ اعمال کی کتاب کو کھولے رکھے ! ۔ ۔ انتھیٰ کلامہ
? آیت الله العظمی حاج آقا مجتبی تهرانی فرماتے ہیں:
? «من دنبال مطلبی بودم و فکر می­ کنم این قضیه (اذکروا موتاکم بالخیر) برای بعد از #معاویه است، وقتی که او مُرد، یک سری مسائل رو شد، یک سری رو بود، روتر شد. کارهایی که کرده بود، جنایاتی که کرده بود، رو شد و ظاهراً بعد از این مسائل بود که این مطلب مطرح شد: «اذکروا موتاکم بالخیر» من این را از #کلک‌های_بنی‌امیه میدانم. حالا که مرده است خوبی ­هایش را بگو، بدی ­هایش را نگو. می­ خواهم بگویم چه طور اینها برنامه ریزی شده در جامعه پیش می ­رفتند.
حوالہ:[درس اخلاق آیت‌الله مجتبی تهرانی 6 بهمن 90]? میں کسی چیز کے بارے میں تحقیق کر رھا تھا کہ میں نے یہ بات دیکھی: #اذکروا_موتاکم_بالخیر،
تو میں نے یہ ریکھا کہ یہ تو امیر شام کی موت کے بعد کا واقعہ ھے۔ اس لئے کہ وہ اپنی زندگی میں بہت سے کاموں کو انجام دے رھا تھا اور مربے کے بعد اسے بہت سے اور کاموں اور حالات کا سامنا کرنا پڑا اور جو کچھ کام اس نے زندگی میں انجام دیئے تھے وہ کھل کر سامنے آگئے تو (درباری ملاؤں اور دینار و اشرفیوں کے نتیجے میں چلنے والی فتویٰ ساز فیکٹریوں کے توسط سے ) یہ کہا کہ «اذکروا موتاکم بالخیر» (اپنے مرنے والوں کا اچھے ناموں سے یاد کیا کرو!)۔ ۔ !!
میں اس بات کو #فریب_هائے_بنی‌امیه جانتا اور قرار دیتا ہوں کہ جس کے تحت یہ کہا جاتا ھے کہ ارے اب تو بیچارہ اس دنیا سے چلا گیا، مر گیا، اب تو اس کی برائیوں کو بیان نہ کرو بلکہ اس کی اچھائیوں کا تذکرہ کیا کرو! انتھیٰ کلامہ
? قارئین محترم! یاد رکھیں یہ تمام باتیں ان لوگوں کیلئے ہیں جو اجتماعی اور معاشرتی سطح پر کام کرنے والے ہیں اور جن کا واسطہ لوگوں، ان کے اذھان و قلوب اور افکار و نظریات سے ہوتا ہے، ایسے لوگ اپنی نیت و فکر، نظریات و بیایات، رجحان و میلان اور عمل سے معاشرے پر اثر انداز پوتے ہیں!!
اللہ ھم کوحُسن عاقت عطا فرمائے، آمین بحق محمد و آلہ المعصومین (ع)

متعلقہ مضامین

Back to top button