مقالہ جات

سعودی عرب امریکی نوکر کیسے بنا؟

سویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ پر مشرقی یورپ پر نظر رکھنے کا بوجھ ختم ہوا۔ جس کے بعد امریکہ اپنی تمام دلچسپی مشرق و سطیٰ پر مرکوزکرنے لگا ۔مگر امریکہ کو اس کے لئے نیٹو کے لیے ایک نیادشمن متعین کرنے کی ضرورت تھی تاکہ نیٹو کام جاری رکھ سکےاور اس کے ساتھ امریکہ کا تسلط اور ہتھیاروں کے کارخانوں کا کام بھی۔
پھر امریکہ نے 9/11کےحملوں کومشرق وسطیٰ میں بڑے پیمانے پر داخل ہونے کے لیے بہانہ بنایا اور القاعدہ ، طالبان اور صدام حسین سے جنگ لڑنے کا اعلان کیا، اس موڑ پر سعودی عرب نے خود کو امریکہ کے آگے بطور اہم اتحادی پیش کیا تاکہ علاقے میں امریکی اور اپنے مفادات کو بھی حاصل کرسکے۔
عراق میں صدام حکومت کا خاتمہ اور اکثریتی شیعوں کو عراقی حکومت میں صدام حکومت میں منصفانہ طور پر شامل ہونے کے بعد سعودی عرب کو فکر لاحق ہوئی اور المالکی کی حکومت قائم ہونے کے بعد سعودی عرب کو وہم ہوا کہ علاقے میں شیعہ طاقتوں کے آنے سے ایران مضبوط ہوگا ،جس سے نبرد آزماہونے کے لیے سعودی عرب نے عراق کے امن و امان کو نشانہ بنایا۔ آل سعود کا یہ بھی خیال تھا کہ اسرائیل کو محفوظ رکھنے سے مغربی ممالک انہیں اپنی حکومت جاری رکھنے دینگے ۔یہ صورت حال شمالی افریقہ اور مشرق وسطی میں چلنے والی تبدیلی کی (عرب سپرنگ)آنے تک جاری رہی تب آل سعود مزید حرکت میں آیا اور شام میں بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کیلئے ترکی اور قطر کے ساتھ اتحاد کر لیا اوربشارالاسد کے اقتدار کا خاتمہ امریکہ اور اسرائیل کو خوشش کرنے کیلئے کیا جارہا تھا۔
برطانوی صحافی رابرن فیسکل کا کہنا ہے کہ دہشت گرد تنظیم داعش کو بنانے میں سعودی عرب نے اہم کردار ادا کیا، سعودی عرب نے داعش کو اربوں ڈالر دیے اور ابھی دے رہا ہے۔
اقتصادی طور پر سعودی عرب نے امریکی اقتصاد کو امریکی ہتھیار خریدنےکی حد تک مدد کی اور سہارا دیا۔ آپ سب کو یاد ہوگا کہ سعودی عرب نےاومابا کے اقتدار میں آنے کے قریب ایک سال بعد امریکی تاریخ کی ہتھیاروں کی سب سے بڑی ’’ڈیل‘‘کی جس کی کل قیمت 60ارب ڈالر تھی۔ آل سعود نے یہ سب کچھ اسلئے کیا تاکہ وہ امریکی کو اپنی اہمیت باور کراسکے۔
نئے مشرق وسطی کا منصوبہ امریکہ کے لیے کافی اہمیت کا حامل ہے ،اور سعودی عرب یہ جانتے ہوئے کہ اس منصوبے میں سعودی عرب کی تقسیم بھی ہوگی پھر بھی آل سعود خود کو امریکی نظروں میں اچھا پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ثابت کرنیکی کوشش کررہے ہیں کہ علاقے میں سعودی عرب جیسا کوئی اور اتحادی موجود نہیں۔ اس غرض کے لیے سعودی عرب نے اسرائیل کیساتھ اپنے تعلقات سے پردہ اٹھایا اور مصر ،تیران اور صنافیرہ نامی جزائر حاصل کرنے کی بھاگ دوڑشروع کی ،تاکہ یہ جزائر اسرائیل کوپیش کیے جائیں ۔علاوہ ازیں آل سعود نے خود کو امریکی نظر میں اچھا ثابت کرنے کے لیے خلیجی ریاستوں پرزور دیا کہ وہ اپنے اپنے ممالک میں اسرائیل سفارت خانوں کا افتتاح کریں۔
سعودی عرب نے امریکی دلچسپی کو حاصل کرنے کے لیے تیل کے ذخائر سے بھی اُمید وابستہ کی ہوئی ہے۔ آل سعود نے علاقے میں اپنی حکومت اور گدی کو بچانے کے لیے مشرق وسطیٰ کو امریکی خواہشات کے مطابق آگ میں جھونک دیا۔ یہ سارا کچھ ایسے ہی نہیں ہوا ،سعودی عرب کو یہ سب کچھ کرنے کیلئے امریکہ کا ایسا نوکر بننا پڑا جو ہر وقت امریکی مفادات کو پورا کرنے کے لیے بےچین رہتا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button