مقالہ جات

چند ملکی وہابی عسکری اتحاد کی حقیقت

پہلانکتہ:جس وقت سعودی کرون پرنس یا وزیر دفاع بن سلمان اسلامی عسکری اتحاد کی بات کررہا تھا اس وقت سعودی عرب شدید تنہائی کے احساس میں ڈوبا ہوا تھاکیونکہ 

الف:ایک طرف ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ایٹمی مذاکرات کامیاب ہوئے تھے ،اور جو ق در جوق یورپی ممالک ایران کے ساتھ میگا پروجیکٹس کے معاہدے کررہے تھے ،عالمی میڈیا اس کو ایران کی ایک بڑی فتح اور کامیاب سفارتکاری کے ساتھ ساتھ ،پوری قوت کے ساتھ عالمی میدان میں ایران کی واپسی جیسے عناوین سے تعبیر کررہے تھے تو دوسری جانب اسی دوران عالمی میڈیا سمیت بعض یورپی ممالک اور امریکی حلقوں کی جانب سے سعودی عرب پر دہشتگردی کے فروغ کو لیکر کڑی تنقید ہورہی تھی ۔جبکہ امریکہ میں نائن الیون کے حادثے میں سعودی عرب کے ملوث ہونے کی خفیہ تحقیقاتی فائل کو عام کرنے سمیت متاثرین کے لئے معاوضے جیسے بل کے بارے میں باتوں نے زور پکڑا ہواتھا ،جبکہ امریکی آنے والے انتخابا ت کے حوالے سے بھی سعودی عرب کے لئے ایک تشویش موجود تھی خاص کر کہ ایران کے ساتھ ڈیل میں ہیلری کلنٹن کی پارٹی ہی شامل تھی جس پر سعودی عرب نے بھی تکیہ کیا ہواتھا ۔

ب:مشرق و مغرب کے سفارتی حلقوں سمیت میڈیا میں سعودی عرب شدید نفسیاتی دباو کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ بدترین تنہائی کے احساس میں ڈوب چکا تھا کیونکہ یمن اور شام کے مسئلے میں نہ ہی مصر اور نہ پاکستان اپنی فوج کرایے پر دینے کے لئے تیار تھے ،اس نفسیاتی دباو سے نکلنے کے لئے اس قسم کا اعلان اور پھر بعد میں چند ملکی عسکری مشقیں جیسے اقدامات ضروری تھے ۔

ج:سعودی عرب پر حاکم قبیلہ سعود میں آیندہ کے بادشاہ کو لیکر موجود سرد جنگ کہ جس میں بن سلمان خود تیار کررہا ہے اور ہرموقع پر اپنی مقبولیت اور شہرت کی کوشش کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ،پر یمن و شام جنگ کا دباو براہ راست موجود ہے کیونکہ وہ سلطنت کا وزیر دفاع بھی ہے تو ڈپٹی ولی عہد بھی ۔

دوسرا نکتہ:بن سلمان نے شروع میں کہا کہ چند ملکی وہابی اسلامی عسکری اتحاد دہشتگردی کیخلاف جنگ اور اسلامی ملکوں کی جانب بڑھنے والے خطرات کیخلاف تشکیل پارہا ہے لیکن جب اس اتحاد میں شامل ملکوں کی فہرست سامنے آئی تو یہ ایک ’’مخصوص مسلکی اتحاد ‘‘کے طور پر سامنا آیا اور دلچسب بات یہ ہے کہ اس اتحاد میں وہ ممالک شامل ہی نہیں جو اس وقت مشرق وسطی میں دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ہراول کردار نبھارہے ہیں اور رسمی طور پر عالمی برادری کسی نہ کسی طور ان میں سے بعض ملکوں کے ساتھ تعاون کررہی ہے یا کم ازکم ظاہری طور پر حمایت کررہی ہے جیسے عراق کی دہشتگرد ی کیخلاف جنگ ۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس وقت تمام دہشتگرد عراق وشام میں بیٹھے ہیں اور یہ دو ملک اس اتحاد کا حصہ ہی نہیں ہیں جبکہ ایران ان دونوں ملکوں کی دہشتگردی کیخلاف جنگ میں تعاون کررہا ہے ۔

تیسرا نکتہ:بغور اگر اس اتحاد میں شامل ممالک کے نام دیکھیں جائیں تو ان میں سے ہرملک اپنے ہمسائیہ دوسرے ملک کو اپنے اندرونی مسائل کا ذمہ دار ٹھراتا ہے جیسے افریقی چھوٹے چھوٹے ممالک ،افغانستان اور پاکستان ،مصر اور افریقی ہمسائیہ ممالک ۔۔۔ایسے میں کیا ممکن ہے کہ اس اتحاد کے سائے میں ایک ملک اپنے مفادات کیخلاف اقدامات اٹھائے ؟جس پر اس نے دہائیوں سرمایہ کاری کی ہو اور بھاری قیمت ادا کی ہو؟

چوتھا نکتہ :سعودی عرب بعض مقاومتی و مزاحمتی تحریکوں کو بھی دہشتگردوں کے ساتھ ملاکر دہشتگرد قراردینے کی کوشش میں ہے، جس کے پچھے مسلکی وسیاسی مسائل موجود ہیں ،جیسے مصری اخوان المسلمین اور اس کی شاخیں ،لبنان کی اسرائیل مخالف قوت حزب اللہ۔

جبکہ بعض دیگر ممالک ان اور وہاں کی عوام ان جماعتوں کے بارے میں سعودی رائے سے اختلاف رکھتے ہیں جیسے اخوان کے بارے میں قطر اور ترکی ،حزب اللہ کے بارے میں اکثر اسلامی ممالک اور وہاں عوام کا کم ازکم بڑا حلقہ خاص کر فلسطین کی تحریک مزاحمت اسرائیل کے مقابل واحد مزاحمتی تحریک سمجھتے ہیں جس نے عربوں اور مسلمانوں کو اسرائیل ایجنڈوں سے بچایا ہوا ہے ، دوسری جانب حزب اللہ لبنانی سماج و سیاست کا مرکز و محور ہونے کے ساتھ ایسی سیاسی قوت ہے جس کے بغیر حکومت تک تشکیل نہیں پاسکتی ۔

بات صرف سعودی عرب کی نہیں اس اتحاد میں شامل کوئی نہ کوئی ملک کسی نہ کسی مخالف قومی یا مذہبی یا سیاسی قوت کو دہشتگرد سمجھتا ہے تو کیا دیگرد ممالک بھی اس کی حمایت کرپاینگے ؟جیسے ترکی کردوں کو دہشتگرد قراردیتے ہوئے جنگ کررہا ہےجبکہ عالمی سطح پر کرد تحریک کی حمایت کرنے والوں کی کمی نہیں ،بحرین 
تین سے زائد سیاسی مخالف پارٹیوں کو دہشتگرد سمجھ کر کالعدم قراردے چکا ہے ۔۔۔۔

پانچواں نکتہ :اگر بن سلمان کے مفروضے کو مان لیا جائے تو دوسرا اہم سوال یہ ہوگا کہ عراق و شام مشرق وسطی میں دہشتگردوں کی موجودگی کے اہم ممالک ہیں اور ان دونوں ملکوں کی اس فرضی اتحاد میں عدم موجودگی کے بغیر دہشتگردی کیخلاف جنگ کیسے ممکن ہوگی ،خاص کر کہ ان دونوں ملکوں میں بین الاقوامی افواج سمیت روس اور ایران ہراول کردار کے طورپر موجود ہیں ۔

ان تمام نکات کے علاوہ ایسے درجنوں سوالات مزید ہیں جس کا کوئی منطقی پہلو نظر نہیں آتا 

سعودی عرب میں بادشاہ عبداللہ کے مرنے کے بعد غیر منطقی اقدامات کی کمی نظر نہیں آتی لہذا ہوسکتا ہے کہ وہ ایک ایسی غلطی کر بیٹھیں جس کے نتائج سعودی عرب کو وقت سے پہلے اپنی منطقی انجام کے نزدیک کردے اور مقدس سرزمین پر حاکم قبیلہ سعودکی حاکمیت کا خاتمہ ہو ۔

اس بات کو خارج از زمکان قرارنہیں دیا جاسکتا کہ آنے والے وقتوں میں چند ملکی اسلامی عسکری اتحاد کی تھیوری میں تبدیلیوں کے ساتھ پیش کرکے اسے عملی شکل دینے کی کوشش کی جائے ۔

لیکن اگر موجود تھیوری کو عملی شکل دینی کی غیر طبعی کوشش کی گئی تو اس کے نتائج ہمارے تصور سے بھی بھیانک نکل آینگے اور دنیا ایک بڑی جنگ سے دوچار ہوگی جس کا آغاز اس بار مغرب کے بجائے مشرق اور مشرق وسطی سے ہوگا یہ جنگ اپنے آغاز میں ہی مکمل مذہبی و مسلکی رنگ میں ہوگی جو وقت کے ساتھ ساتھ خیر اور شر کی جنگ میں بدل جائے گی جہاں تمام اچھائی کی متلاشی قوتیں ایک طرف جبکہ برائی و تباہی کے دیوانے دوسری جانب ہونگے اور شائد یہ وہی ملحمہ کبری بن جائے جس نے اپنا آغاز مشرق وسطی سے کرنا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button