مقالہ جات

شام کے بعد ’’داعش‘‘ کا اگلا مرکز’’پاکستان ‘‘

ایک عرب نیوز چینل کا کہنا ہے کہ شام میں داعش کی شکست کے بعد اس کا اگلا مرکز پاکستان ہوسکتا ہے اور اس چینل اس سلسلےمیں چھ ایسی وجوہات بیان کیں جس کے حساب سے داعش مکمل طور پر پاکستان کا رخ کرسکتی ہے۔

مسلح گروہوں کے بارے میں سماجی نظریات یا اندازوں(Social theory)کا کہنا ہے کہ ان گروہوں سے نجات کا آسان راستہ ان کے لئے ایک ’’متبادل سرزمین ‘‘فراہم کرنا ہے ،بات صرف ایک تھیوری یا نظریے کی حد تک نہیں بلکہ اس تھیوری کی عملی شکل کو ہم ’’افغانستان سے عراق ولیبیا اور پھر بعد شام میں منتقل ہوتے دہشتگردوں میںدیکھ سکتے ہیں ‘‘

اس وقت جب شام و عراق میں شدت پسند مسلسل شکست و ہزیمت کے شکار ہیں تو ایسے میں ان ’’دہشتگردوں کا اگلا پڑاو‘‘ کہاں ہوسکتا ہے ؟ وہ کونسی سے جگہ ہوسکتی ہے جہاں یہ دہشتگرد اپنی’’ نام نہاد الامارۃ الاسلامیہ‘‘کی تشکیل دے سکتے ہوں‘‘؟

اس سلسلے میں مشرق وسطی امور پر عمیق و گہری نظر رکھنے والے،معروف تجزیہ نگار و اسکالر ڈاکٹر شفقت شیرازی نے چند اہم نکات کی جانب سے اشارہ کیا ہے جنہیں خلاصے اور کچھ تبدیلیوںکے ساتھ پیش کیا جارہا ہے ۔

دہشتگردوں کے لئے زخیز و مناسب زمین اس وقت تیل سے مالال لیبیا اور اسی طرح اپنی اصلی و قدیمی آماجگاہ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے ہوسکتے ہیں ۔

موجودہ نواز شریف حکومت کی اس سلسلے میں پالیسی کے جو خدوخال نظر آرہے ہیں وہ بھی ان گروہوں کو جگہ بنانے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں ۔

الف:فوج کی قیادت میں تبدیلی کے بعد حاصل ہونے والااطمنان اور موجودہ عسکری قیادت کے ساتھ اچھے روابط ،قبائلی علاقوں میں دہشتگردوں کیخلاف جاری آپریشن کو سست روی کا شکار کرسکتے ہیں اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ بنیادی طور پر نواز حکومت اس آپریشن کی حامی نہیں تھی ۔

ب:شریف حکومت کی جانب میڈیا کیخلاف اٹھائے جانے والے اقدامات اور میڈیا کے ایک بڑے حصے کو مخصوص ڈائریکشن میں چلانے کی مسلسل کوشش جس کی ایک مثال مشرق وسطی کے حالات کے بارے میں وہاں کے مخصوص پروپگنڈہ میڈیا ہاوسز کی لائن کو فالو کرنا ہے ۔

ج:عدلیہ اب تک متعدد اہم کیسز میں کسی بھی قسم کا خاطر خواہ ایکشن نواز حکومت کیخلاف لے نہیں پائی ،خواہ انتخابات میں دھاندلی کا ایشوز ہو، سانحہ ماڈل ٹاون ہو ،یا پناماکیس یا دیگر کرپشن کے کیسز ۔

د:کالعدم جماعتوں کی سرپرستی کا الزام ہر گذرتا دن اپنے ثبوت فراہم کررہا ہے ،لال مسجد سے لیکر وزارت داخلہ کی ملاقاتوں تک اور پھر ضمنی انتخابات میں سرگردہ دہشتگردوں کو جتوانے کے بعد ’’امن کے ایواڑ‘‘دینے تک ۔۔

دوسری جانب پنجاب میں نیشنل ایکشن پلان اور ضرب عضب سے مسلسل انکار اور روکاوٹ بننا جبکہ تمام تر سرکاری و غیر سرکاری نیز عالمی رپورٹس پنجاب کو دہشتگرد وں کی جنت کہا جارہا ہے ۔

ر:دہشتگردی کیخلاف آواز اٹھانے والی قوتوں کو دبانے کی کوشش کرنا خواہ وہ سیاسی ،قوت ہو یا مذہبی ،سماجی ہو یا انسانی بنیادوں پر ،یہاں تک کہ میڈیا اور اینکرز کو بھی بہانوں سے عتاب کا شکار کرنا جو دہشتگردوں کیخلاف زیادہ زبان کھولتے ہوں ۔

اس صورتحال میں ایک تازہ ترین اہم مسئلہ قبائلی علاقوں میں مسلکی بنیادوں پر آبادیوں کو تنگ کرنے کا جو سلسلہ کچھ دیر کے لئےجو رک گیا تھا وہ پھر سے نظر آرہا ہے اور قبائلی علاقے کی واحد پرامن ایجنسی کرم کے کچھ ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ سے طالبان دہشتگردوں کے حملوں کا دفاع خود کرتے آئے ہیں اور ان کے پاس موجود اسلحہ وہاں کی قبائلی روایات اور قانون کے مطابق ہے جو ان کے لئے دفاعی حثیت رکھتا ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ چار سال اس علاقے کو طالبان نے محاصرے میں رکھا اور لیکن افغانستان کی سرحد کے ساتھ واقعہ اس اہم علاقے پر قبضہ نہ کرسکے جس کی اہم وجہ اس علاقے کے لوگوں کا خود اپنا دفاع کرنا ہے اور اس دفاع میں وہ سینکڑوں قیمتی جانیں دے چکے ہیں ۔

طالبان اس علاقے کواس کی خاص جغرافیائی پوزیشن کے سبب افغانستان میں کاروائیوں کا بیس کیمپ بنانا چاہتے ہیں ۔

کیا اس قسم کی صورتحال میں کہا جاسکتا ہے کہ شام لیبیا عراق سے فرار کرنے والے مسلح شدت پسندوں کا رخ پھر سے اپنی پرانی آماجگاہ کی جانب نہیں ہوسکتا ہے ؟

متعلقہ مضامین

Back to top button