مقالہ جات

شام کےخلاف ایک بار پھر منظم سوشل میڈیا کمپین کے ساتھ مخصوص سوچ کا میڈیا سرگرم

شیعت نیوز مانیٹرنگ ڈیسک؛ شام کے شہر حلب کے بارے میں ایک بار پھر منظم سوشل میڈیا کمپین کے ساتھ مخصوص سوچ کا میڈیا سرگرم ہے ظاہر ہے کہ ماضی کی طرح اس بار بھی ایسی ایسی چیزیں پوسٹ کیں جارہی ہیں کہ جس دیکھ کر خود حلب والے بھی پریشان ہوں اور کہیں کہ کیا کوئی اور حلب بھی ہے جہاں یہ سب کچھ ہوا ہے ؟
ایک عرب فلسطینی صحافی عطوان عبدالباری اس کمپین کو دیکھ کر پوچھتا ہے ’’میرا سوال یہ ہے کہ آپ کس کو مخاطب کررہے ہیں کہ حلب کو بچاو ؟کیا آپ سعودی عرب سے کہہ رہے ہیں ؟کہ جس کے بادشاہ نے کل 14دسمبر کو اپنی مجلس شوری سے سالانہ خطاب کیا اور حلب کا ذکر تک نہیں کیا ؟کیاآپ الجزائر ،تیونس ،مراکش اور یمن سے مخاطب ہیں ؟
وہ مزید کہتا ہے کہ ’’اگر حلب کسی قسم کا کوئی مسئلہ ہے تو اس کے پچھے کھڑے کھلاڑی تو خود سعودی عرب ،قطر ،ترکی اور امریکہ ہیں جنہوں نے اربوں ڈالر خرچ کئے ،جو حلب سے صرف 25کلومیٹر دور بیٹھے ہیں ‘‘
اگر تمہارا خیال ہے کہ یہ کوئی فرقہ وارانہ مسئلہ ہے یا فارسی اثر رسوخ کا مسئلہ ہے تو پھر ترکی اپنی افواج کو یمن کیوں نہیں بھیجتا اور صرف شام پر اس کی توجہ کیوں؟
حلب کاچار سال سے مختلف گروہوں کے قبضے میں تھا جو وہاں ہر قسم کا ظلم و تشدد انجام دیتے تھے ۔
کیا یہی ممالک دہشتگردی کیخلاف جنگ میں شریک ہونے کے دعودار نہیں ؟
کیا شام میں داعش و دیگرد دہشتگردوں کیخلاف جنگ کے نام سے سعودی عرب ،امارات نے ترکی میں اپنے طیارے نہیں رکھے ؟
کیا داعش کیخلاف جنگ کے نام پر ترکی اپنی افواج کے ساتھ شامی سرحد کے اندر گھس نہیں آیا ہے ؟
تو حلب میں کیا ہورہا ہے ؟حلب میں دہشتگردوں کیخلاف آپریشن ہورہا ہے اور اس آپریشن کے اصولی طور پر سب حامی ہیں لیکن ہر ملک چاہتا ہے کہ اس کے حمایت یافتہ جنگجو بچ جائیں ،ان کیخلاف کچھ نہ کہا جائے ۔
اگر حلب جل رہا ہے تو اس کے جلانے والے بھی وہی ممالک ہیں جنہوں نے بشار الاسد کو ہٹانے کی خاطر وہاں پوری دنیا سے مسلح افراد اکھٹے کئے ہیں اور آج انہی کیخلاف جنگ میں بھی ساتھ دینے کی بات کررہے ہیں
ترکی انہی گروہ کیخلاف جنگ کے نام سے شام میں اپنی افواج زبردستی اتارتا ہے کیوں اسے خطرہ ہے شام سے بھاگ کر ان پالتوں نام نہاد مجاہدین ترکی میں پناہ نہ لیں ۔
یہ کوئی مذہبی جنگ نہیں اور نہ ہی کسی قسم قومی جنگ ہے اگر مذہبی جنگ ہوتی تو موصل آپریشن میں عراقی فوج کی سفارتی ،تسلیحاتی اور سیاسی مدد نہیں جاتی ،عراقی افواج کو خلیجی ملکوں نے لاکھوں ڈالر امداد دی ہے تاکہ داعش کیخلاف جنگ موثر ہوسکے ۔
سوشل میڈیا پر گالم گلوچ اور چہیخ و پکار سے مسئلہ حل نہیں ہوگا جنہوں نے مسئلہ بنایا ہے انہیں حل کرنا ہوگا
اللہ خوف کھائیں حلب کے نام پر جھوٹ پھیلانا بند کردیں ،اہل حلب خوشیاں منارہے ہیں لیکن کچھ لوگ شام سے باہر بیٹھے سوشل میڈیا میں ان کا قتل اور عصمت دری کرارہے ہیں

متعلقہ مضامین

Back to top button