مقالہ جات

گلگت بلتستان میں یوم حسین (ع) پر پابندی کا پس منظر، پیش منظر، واقعات اور خدشات

تحریر: میثم بلتی

گلگت بلتستان کی صورتحال گذشتہ ایک ہفتے سے مخدوش اور غیر یقینی بنی ہوئی ہے۔ شاہراہ قراقرم پر ہزاروں کی تعداد میں طلباء دھرنا دیئے ہوئے صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں، دوسری طرف حکومتی ایوانوں میں بھی ہلچل ہے۔ مسلم لیگ نون کی حکومت اپنی ناقص پالیسوں کے سبب عوام میں اپنی حیثیت مکمل طور پر کھو چکی ہے اور یوم حسین ؑ پر پابندی عائد، درجنوں طلباء کو یوم حسین منانے کے جرم میں گرفتار اور 400 کے قریب طلباء کیخلاف یوم حسین ؑ منانے کے جرم میں انسداد دہشتگردی کی دفعات کے ساتھ مقدمات بنائے گئے ہیں۔ دوسری طرف صوبائی حکومت کے اشارے پر کچھ افراد اس دھرنے کو شرپسندی کہہ رہے ہیں اور حکومت سے سنگین لہجے میں مطالبہ کر رہے ہیں کہ شاہراہ قراقرم پر دھرنا دینے والے ملک کے دشمن ہیں، ان کیساتھ سختی سے نمٹا جائے۔ بعض حکومتی عناصر کی بھی کوشش ہے کہ اسے مسلکی مسئلہ بنایا جائے، لیکن اہلسنت عوام اب مزید شیعہ عوام کے ساتھ لڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں، تاہم بعض انجمنیں حفیظ کی حکومت کو مسلکی رنگ دیکر اسکی مدد کے لئے کمر بستہ ہوگئی ہیں۔ یوں یوم حسین کو فرقہ وارانہ مسئلہ بنا کر نہ صرف پابندی عائد کرنے کی کوشش ہو رہی ہے بلکہ صوبائی حکومت فرقہ واریت کو ہوا دے کر اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ یوم حسین ؑ کے مسئلے پر پیش آنے والے واقعات پر نگاہ کریں تو واضح ہوگا کہ حکومت خطے میں کیا چاہتی ہے۔

قراقرم یونیورسٹی کے طلباء اور یوم حسینؑ:
گذشتہ سال گلگت بلتستان کی اکلوتی یونیورسٹی کے طلباء نے شدید دباو کے باوجود پرامن طور پر یوم حسین ؑ کو منعقد کیا اور اس تقریب میں تمام مکاتب فکر کے علماء نے شرکت کی۔ بعض مقررین نے اگرچہ متنازع گفتگو کرنے کی کوشش کی، لیکن سامعین نے نہایت صبر و تحمل کے ساتھ اس تقریب کو مکدر ہونے نہیں دیا۔ تقریب ختم ہونے کے فوری بعد ہی منصوبے کے ساتھ نقاب پوش افراد اہلسنت سے تعلق رکھنے والے پروفیسر کے کمرے کے داخل ہوئے اور انہیں زد و کوب کرکے رفو چکر ہوگئے۔ اگرچہ استاد پر ہاتھ اٹھانا بہت بڑا مسئلہ ہے، لیکن اسے میڈیا اور حکومتی سطح پر کچھ زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ حکومت نے اس پر کارروائی کرتے ہوئے یوم حسین ؑ منعقد کرنے والوں کو گرفتار کیا اور دہشتگردی کی دفعات کے ساتھ مقدمہ بنایا۔ دوسری طرف کچھ عناصر سرگرم ہوگئے اور یونیورسٹی کے تمام شعبوں کے ٹاپر شیعہ طلباء کی فہرست انتظامیہ کے ذریعے سامنے لائی گئی اور زد و کوب والے واقعے کی آڑ میں ان سب پر بھی ایف آئی آر کاٹی گئی۔ اسکے بعد گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، کیس چلتا رہا۔ اس سال قراقرم یونیورسٹی میں یوم حسین ؑ کی تقریب سے قبل ہی صوبائی حکومت کے سربراہ حافظ حفیظ الرحمان نے خطے کے تمام تعلیمی اداروں میں مذہبی تقریبات پر پابندی عائد کرکے ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔ دوسری طرف یونیورسٹی کے طلباء نے یوم حسین کے انعقاد کی تیاری شروع کر دی تو انکے خلاف کریک ڈاون شروع کر دیا اور متعدد کو گرفتار کر لیا گیا۔ جن طلباء کو گرفتار کرنے میں حکومت کامیاب نہیں ہوئی، انکے والدین کو سلاخوں کے پیچھے دھکیلنا شروع کر دیا۔ دوسری طرف گلگت بلتستان کے نامور عالم دین نے مذہبی تقریبات پر پابندی کو روح پاکستان کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس دن کو منانے کا اعلان کر دیا۔ ابھی قراقرم یونیورسٹی میں یوم حسین منانے کی نوبت ہی نہیں آئی تھی کہ دنیور کے طلباء بازی لے گئے اور دنیور گلگت کے ایک نجی کالج میں یوم حسین ؑ کو منعقد کر لیا۔

دنیور میں یوم حسین ؑ کے انعقاد اور یزیدیت مردہ باد کا نعرہ لگانے والوں پر انسداد دہشتگردی کی دفعہ عائد:
گلگت دنیور میں طلباء نے یوم حسین ؑ کو نہایت عقیدت و احترام کیساتھ منایا اور پرامن طور پر اختتام پذیر ہوئے۔ یوم حسین ؑ میں اسلامی تحریک گلگت بلتستان کے رہنماء شیخ مرزا علی نے خطاب کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں امام عالی مقام کی شخصیت پر گفتگو کی اور انکی گفتگو کے دوران حسینیت زندہ باد اور یزیدیت مردہ باد کے نعرے بھی لگے۔ پروگرام کی تیاریوں اور انعقاد تک پولیس کی بھاری نفری خاموشی سے بیٹھی رہی اور جیسے ہی پروگرام اختتام پذیر ہوا، انہوں نے سرکار کے حکم پر عمل کرتے ہوئے پہلا کام یہ کیا کہ شیخ مرزا علی پر اے ٹی اے لگایا۔ سرکار کی مدعیت میں کاٹی گئی ایف آر کے متن کے مطابق ’’شیخ مرزا علی امام جمعہ دنیور نے یوم حسین کی مناسبت سے چند منٹ تقریر کی، جس کے بعد وہاں پر موجود طلباء حسینیت زندہ باد اور یزیدیت مردہ باد کا نعرہ لگا کر منتشر ہوگئے، اس سے علاقے کے امن کو خطرات لاحق ہونے کے علاوہ دیگر مسالک کے مذہبی عقائد بھی مجروح ہوئے، یہ فعل خلاف قانون اور قابل مواخذہ ہے، لہذا ہدایت کی جاتی ہے کہ مذکورہ ملزمان کیخلاف باضابطہ کارروائی کی جائے۔‘‘ اس ایف آئی آر میں دہشتگردی سمیت دیگر سنگین دفعات لگائی گئیں۔ اس کے فوراً بعد حکومتی کل پرزے میں حرکت میں آگئے اور گرفتاریوں کے لئے چھاپے شروع کر دیئے، 14 کے قریب طلباء کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا اور ساتھ ہی 400 کے قریب طلباء پر اے ٹی اے لگائی دی گئی۔ ان کارروائیوں کے خلاف طلباء کا دھرنا سات روز سے جاری ہے۔ دھرنے میں تمام مذہبی جماعتیں شامل ہیں۔ گلگت کے طلباء نے دھرنے کا آغاز کیا تو آغا راحت سمیت شیعہ علماء کونسل، ایم ڈبلیو ایم اور دیگر مذہبی جماعتوں نے اس کی تائید کر دی۔

مسلم لیگ نون کی صوبائی حکومت کا یوم حسین پر پابندی کا اٹل اور اصولی فیصلہ:
ان مسائل پر مسلم لیگ نون کی صوبائی حکومت کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی کا ایک اہم اجلاس ہوا، جس میں واقعے پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے بعد ڈاکٹر اقبال، اقبال حسن اور دیگر رہنماوں نے کہا کہ یوم حسین ؑ پر پابندی حکومت کا اصولی فیصلہ ہے، اس عظیم شخصیت کی آڑ میں نہ گلگت بلتستان کے امن کو خراب کرنے دیں گے اور نہ ہی فرقہ واریت کو پنپنے دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان کے تعلیمی اداروں میں صرف یوم حسین ؑ پر نہیں بلکہ تمام مذہبی تقریبات پر پابندی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امام حسین ؑ صبر اور امن کا درس دیتے ہیں، انکی شخصیت سب کے لئے قابل احترام ہے، مگر کچھ عناصر اسی مقدس شخصیت کی آڑ میں فساد پھیلانا اور بالخصوص اکنامک کوریڈور کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔ اس موقع پر صوبائی وزیر ڈاکٹر اقبال نے کہا کہ پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، مجلس وحدت اور اسلامی تحریک فساد کی جڑ ہیں۔ جب تک سیاسی مینڈکوں اور مذہبی پنڈتوں سے عوام کو آزاد نہیں کیا جائے گا، خطے میں ترقی نہیں ہوسکتی۔ اس پریس کانفرنس کے بعد خطے کا ماحول پہلے سے زیادہ مکدر ہوگیا۔

وزیراعلٰی گلگت بلتستان، لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا:
وزیراعلٰی گلگت بلتستان نے بھی اپنے تند و نیز بیابات کا رخ دھرنے کے طرف کر دیا اور بتایا کہ گلگت بلتستان میں مذہبی تقریبات پر جی بی حکومت نے نہیں بلکہ نیکٹا نے پابندی عائد کی ہے۔ نیکٹا نے صرف جی بی میں نہیں پورے پاکستان میں پابندی لگائی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پورے ملک کے کسی تعلیمی ادارے میں یوم حسین ؑ نہیں منایا جاتا، اگر کسی کے پاس ثبوت ہے تو لے آئے، ہم بھی پابندی ہٹانے کے لئے تیار ہیں۔ دوسری طرف پارلیمانی وفد نے آغا راحت سے مذاکرات کے لئے ملاقات کی، لیکن کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے۔ پارلیمانی وفد سے ملاقات کے دوران آغا راحت نے موقع غنیمت جانتے ہوئے صوبائی حکومت کا چیلنج قبول کر لیا اور کہا کہ گلگت بلتستان میں ہم نے ہمیشہ امن کے لئے کوششیں کی ہیں، لیکن حکومت نہیں چاہتی کہ امن قائم ہو۔ یوم حسین (ع) پر پابندی عائد کرتے ہوئے وزیراعلٰی نے کہا تھا کہ پورے ملک میں نیکٹا نے تعلیمی اداروں میں مذہبی تقریبات پر پابندی عائد کی ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ملک کے کسی بھی تعلیمی ادارے میں مذہبی تقریبات پر پابندی عائد نہیں۔ وزیراعلٰی نے چیلنج کیا تھا کہ پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی میں یوم الحسین (ع) کی اجازت ہے تو ثبوت لے آئیں، ہم جی بی میں بھی اجازت دیں گے۔ انہوں نے ایک ثبوت مانگا ہے اور ہم تین تین ثبوت لے آئے ہیں، اب انہیں چاہیے کہ گلگت بلتستان کے تعلیمی اداروں میں عائد پابندی ختم کرنے کا اعلان کریں، لیکن آپ اپنے دام میں صیاد آنے کے بعد حافظ صاحب نے اپنے گذشتہ کلمات پر کبھی غور نہیں کیا۔

عوامی ایکشن کمیٹی کی ثالثی اور پھر ثالثی سے دستبرداری:
جب خطے میں کشیدگی پھیلنے کا امکان پیدا ہونے لگا اور فرقہ واریت کو شہہ ملنے لگی تو حکومت اور اہل تشیع کے مسئلے کے درمیان تیسرا فریق بھی آگیا۔ عوامی ایکشن کمیٹی ثالثی کرنے کے عزم کے ساتھ میدان میں اتری۔ انہوں نے حکومت اور امامیہ سپریم کونسل کے رہنماوں سے ملاقاتیں کی۔ امامیہ سپریم کونسل نے مطالبہ کیا کہ مذہبی تقریبات پر پابندی ہٹانے کا نوٹیفکیشن جاری، گرفتار طلباء کو رہا کرنے اور سینکڑوں طلباء پر عائد مقدمات واپس لینے تک ہر صورت احتجاج جاری رہے گا۔ ایکشن کمیٹی نے حکومت سے مذاکرات کے بعد ایک فارمولا پیش کیا، جس میں واضح کیا گیا کہ اس سال یوم حسینؑ یونیورسٹی سے باہر منایا جائے گا جبکہ آئندہ سے یونیورسٹی کے اندر ہوگا، تاہم یوم حسین ؑ کے ساتھ یوم فاروق بھی ہوگا۔ طلباء رہا ہونگے اور دہشتگردی کی دفعات واپس لے لی جائیں گے۔ اس فارمولے میں اچانک سے یوم فاروق کا سامنے آنا عجیب منطق تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ حکومت اپنے ساتھ ساتھ کسی اور کی بھی وکالت کر رہی ہے۔ امامیہ سپریم کونسل کا موقف تھا کہ یوم فاروق یا یوم صدیق کا مطالبہ کرنے والے حکومت سے کریں اور ہمیں اس پر کسی قسم کا اعتراض نہیں ہے۔ یوم حسین ؑ سے مربوط مسئلے میں بھی یوم فاروق کو لے آنا، مسلکی تعصبات کو ہوا دینے کی کوشش کی ہے۔ اگر عالم اسلام کی شخصیات کے دن منانے ہیں تو حکومت سے مطالبہ کرو۔ اس نکتے پر ایکشن کمیٹی اور امامیہ سپریم کونسل کی راہیں بھی الگ ہوگئیں اور ایکشن کمیٹی نے ثالثی سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا۔

تنظیم اہلسنت والجماعت شمالی علاقہ جات و کوہستان کا عجیب عمل:
ان حالات میں تنظیم اہلسنت والجماعت شمالی علاقہ جات و کوہستان میدان میں آگئی اور حکومت سے بھی زیادہ دو ہاتھ آگئے جاتے ہوئے دھرنا دینے والوں کو شرپسند، ملک دشمن، غیر ملکی ایجنڈے پر کام کرنے والے جیسے القابات سے نواز دیا گیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ریاستی اداروں کی رٹ کو بحال کرنے کی خاطر دھرنا دینے والوں کیساتھ سختی سے نمٹا جائے۔ تنظیم اہلسنت والجماعت شمالی علاقہ جات و کوہستان کے امیر قاضی نثار نے جمعہ کے بعد ایک قرارداد پیش کی، جس میں تعلیمی اداروں میں مذہبی تقریبات پر پابندی کو سراہا۔ ان کی جانب سے پیش کردہ قرارداد کو فرقہ واریت کو بڑھاوا ملنے کے امکان کے باعث اسکا متن پیش نہیں کیا جا سکتا تاہم اس کے کچھ مندرجات یوں ہے: ’’آج کا اجتماع پیپلز پارٹی کے مرکزی اراکین کے امامیہ سپریم کونسل میں شامل ہو کر فرقہ واریت کو پروان چڑھانے پر نہایت افسوس کرتا ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ اقتصادی راہداری میں رکاوٹ بننے اور بار بار بدامنی کاشت کرکے ملک دشمنی اور علاقے کو بدامنی سے دوچار کرنے والوں کو نشان عبرت بنائے اور پیپلز پارٹی کے سنی کارکنوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنی قیادت کی روش تبدیل کریں۔‘‘ انکی جانب سے پیش کردہ قرارداد میں جہاں توپ کا رخ شیعہ مذہبی جماعتوں کی جانب رہا، وہاں عوامی ایکشن کمیٹی بھی نہیں بچ سکی۔ اسکے حوالے سے قرارداد میں کہا گیا کہ ’’عوامی ایکشن کمیٹی کی ایک بڑی تعداد محرم الحرام میں نہ صرف اپنا اعتماد کھو چکی ہے بلکہ قانون شکنی اور فرقہ واریت میں ملوث رہی ہے، اس لئے تنظیم اہلسنت والجماعت شمالی علاقہ جات و کوہستان نے ان سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہے۔‘‘ ایسے میں قاضی نثار کو چاہیے تھا کہ حکومتی پچ پر کھیلنے کی بجائے خاموشی اختیار کرتے اور نفرتیں پیدا ہونے کا مواقع نہ دیں۔

صوبائی حکومت کو ہٹ دھرمی چھوڑ کر جمہوری حکومت ہونے کا ثبوت دینا چاہیئے:
گلگت بلتستان کی موجودہ حکومت میں وزراء کی حیثیت کیا ہے، اس کا اندازہ انکے اختیار سے کیا جا سکتا ہے۔ حکومت نے حسب سابق نہایت خوبصورتی کیساتھ اس بحران سے نکلنے کے لئے حفیظ کے پشت پناہ گروہ کو میدان میں لاکر فریقین کا مسئلہ بنانے کی کوشش کی ہے، جبکہ یہ بات واضح ہے کہ عوام نے دھرنا کسی فرقے کے خلاف دیا ہے اور نہ کسی جماعت کے، بلکہ صرف اور صرف حکومت کے خلاف دیا ہوا ہے۔ اس دھرنے کا رخ موڑنے اور اسے غیر موثر کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں، تاہم عوام کی استقامت اور علامہ راحت حسین الحسینی، آغا علی رضوی، شیخ مرزا علی سمیت تمام مذہبی جماعتوں کی تائید کے سامنے ہر طرح کی سازشیں دم توڑ رہی ہیں۔ حکومت کسی قیمت پر یوم حسین ؑ منوانے کے موڈ میں نہیں لگتی، بلکہ اس دھرنے کو کسی فساد یا جھگڑے پر منتج کرنا چاہ رہی ہے، جس کے لئے عوام کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ حکومتی اراکین بھی جس سطح پر اتر چکے ہیں، وہ بھی بہت سارے سوالوں کو جنم دینے لگا ہے۔ پیپلزپارٹی نے ماضی میں لیگی وزراء پر طالبان و داعش سے مربوط ہونے کا الزام لگایا تھا، اس الزام کو تقویت ڈپٹی اسپیکر جی بی اسمبلی کی اجلاس میں ہونی والی باتوں سے مل رہی ہے، جو کہ افسوسناک ہے۔ دوسری طرف ڈاکٹر اقبال نے دھرنے کے خلاف بیان دیا تو انکے گھر کے سامنے ہی جوانوں نے وزیر تعمیرات کو زد و کوب کرنے کی کوشش کی اور وہ منہ چھپا کر بھاگ گئے۔ یہ صورت نظر آرہی ہے کہ یوم حسین ؑ پر پابندی عائد رہی تو صوبائی وزراء اور لیگی رہنماوں کو حکمرانی کے بقیہ تین سال عوام سے منہ چھپا کر پھرنا پڑے گا۔ چنانچہ ایسے میں ضروری ہے کہ عوامی خواہشات کے مطابق مسئلے کو حل کیا جائے۔ حکومت اس مسئلے کو الجھانے کے لئے جس طرح کے طریقے اپنا رہی ہے، وہ بعد میں حکومت کیلئے خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔

اہلسنت عوام اور شیعہ جماعتیں:
اس مسئلے پر بہت کوشش کے باوجود اہلسنت عوام نہایت باشعور ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اسے فرقہ وارانہ رنگ نہیں دینے دے رہے۔ اہلسنت عوام کو یوم حسین ؑ کے خلاف میدان میں لانے کی ہزار کوششیں ہو رہی ہیں، لیکن ایک مخصوص ٹولے کے علاوہ اہلسنت کی اکثریت امام حسین ؑ کے دن کو منانے میں نہ صرف قباحت محسوس نہیں کرتی بلکہ ان سے عقیدت و محبت بھی رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ محرم الحرام میں اہلسنت عوام کی جانب سے عاشورا کے موقع پر سبیلیں بھی لگائی گئی، جو بعض طاقتوں سے ہضم نہیں ہو رہا۔ دوسری طرف تنظیم اہلسنت والجماعت کے موقف کو بھی اہلسنت کے متدین عوام کی طرف سے سراہا نہیں جا رہا۔ اہلسنت عوام کی رائے ہے کہ یوم حسین ؑ کے انعقاد کا حق دینا چاہیے، تاہم یوم فاروق کے انعقاد کا مطالبہ حکومت سے ہونا چاہیے۔ دوسری طرف سابقہ انتخابات کے بعد پہلی بار تمام شیعہ جماعتیں متحد ہوچکی ہیں اور اس ایشو پر باہم متحد ہیں۔ اگرچہ ہر طرف سے سخت سازشیں جاری ہیں کہ کسی طرح یہ اتحاد ٹوٹ جائے، لیکن تاحال ان کی تمام سازشیں دم توڑ رہی ہیں۔ ہر طرح کے پروپیگنڈوں کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ یہ اتحاد آخری وقت اور دھرنے کو نتیجہ خیز بنانے تک جاری رہنا چاہیے۔ ساتھ ہی اس واقعے کی آڑ میں فرقہ واریت پھیلانے سے گریز کرنا ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button