مقالہ جات

علامہ حلّی کا تاریخی مناظرہ

علامہ حلی کے ہاتھوں ، بادشاہ "خدا بندہ” کے شیعہ ہونے کا خوبصورت قصہ

ترجمہ: سید عباس حسینی

علامہ حلی کی زندگی کی اہم خصوصیت، ان کے ہاتھوں بادشاہ "محمد خان خدا بندہ” کا شیعہ ہونا ہے کہ جس کی وجہ سے اور بھی بہت سارے لوگ شیعہ ہوئے اور شیعہ کتابیں پھیل گئیں۔ اور جس کے بعد ایران میں مذہب جعفری کو ملک کے رسمی مذہب کے طور اعلان کیا گیا ۔

تفصیل کچھ یوں ہے کہ 709 قمری کو ایلخانیان سلسلے کے گیارہویں بادشاہ "خدا بندہ "نے شیعہ مذہب اختیار کر لیااور شیعہ مذہب کو پھیلانے میں اہم خدمات انجام دیں اور جب تبریز گیا اور وہاں کے تخت پر بیٹھا تو اسے "بخشے گئے بادشاہ "کا لقب دیا گیا۔ انہی کے حکم سے ملک میں نئے سکے رائج کرنے کا حکم دیا گیا جن کے ایک طرف پیامبر اکرم ﷺ اور ائمہ معصومین کے نام نقش کئے گئے اور دوسری طرف اس کا اپنا نام۔

خدا بندہ اصل میں سنّی تھا، لیکن کچھ وجوہات نے اس کے دل کو شیعیت کی طرف مائل ہونے پر مجبور کیا۔ علماء کی بڑی بڑی مجلسیں ترتیب دینا اسے پسند تھا، انہی مجالس میں سے ایک میں علامہ حلی بھی پہنچے اور شافعی عالم دین شیخ نظام دین کو مناظرہ میں شکست دی۔ بادشاہ علامہ حلی کی دلائل سن کر مبہوت ہوا اور زبان ان کےگن گانے لگی اور کہا: "علامہ حلی کی دلیلیں بالکل واضح ہیں۔ لیکن ہمارے علماء جس راستے پر چلے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے فی الحال اس کی مخالفت کرنا اختلاف اور جھگڑے کا باعث ہے۔ اس لیے ضروری ہے ان باتوں پر پردہ پڑا رہے اور لوگ آپس میں مت جھگڑیں۔”

اس کے بعد بھی مناظروں کا سلسلہ چلتا رہا اور علامہ حلی کی دلیلوں کو سن کر اور علمی مرتبے کو دیکھ کر بادشاہ متاثر ہوتا رہا۔ آخر کار بادشاہ کی طرف سے اپنی بیوی کو تین بار طلاق دینے کا مسئلہ پیش آیا۔ ایک دن بادشاہ کو غصہ آیا اور ایک ہی مجلس میں تین بار اپنی بیوی کو تجھے طلاق ہے کا صیغہ دہرایا۔ بعد میں بادشاہ کو اپنے اس کام پر شرمندگی ہوئی۔ اسلام کے بڑے بڑے علماء کو بلایا گیا اور ان سے اس مسئلے کا حل پوچھا۔ سب علماء کا ایک ہی جواب تھا: "اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ آپ اپنی بیوی کو طلاق دیں، اور پھر وہ کسی مرد کے ساتھ شادی (حلالہ) کر لیں، پھر وہ اگر طلاق دیتا ہے تو آپ دوبارہ اس عورت کے ساتھ شادی کر سکتے ہیں۔” بادشاہ نے پوچھا: "ہر مسئلے میں کچھ نہ کچھ اختلاف اور گنجائش ہوتی ہے۔ اس مسئلے میں ایسا کچھ نہیں ہے؟” سب علماء نے مل کر کہا: "نہیں۔ اس کے علاوہ کوئی راہ حل نہیں۔” وہاں بیٹھا ایک وزیر بولا: "میں ایک عالم دین کو جانتا ہوں جو عراق کے حلًہ شہر میں رہتے ہیں اور ان کے مطابق اس طرح کی طلاق باطل ہے۔” (اس کی مراد علًامہ حلی تھے)۔ خدا بندہ نے علامہ حلی کو خط لکھ کر اپنے پاس بلا لیا۔ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے علامہ حلی نے حلہ سے سلطانیہ (زنجان کے قریب کا ایک علاقہ) کی طرف رخت سفر باندھ لیا۔ بادشاہ کے حکم سے ایک بہت بڑی مجلس کا اہتمام کیا گیا اور تمام مذاہب کے علماء کو دعوت دی گئی جن میں اہل سنت کے چاروں فقہوں کے بڑے علماء شامل تھے۔

علًامہ حلًی کا اس مجلس میں آنے کا انداز سب سے مختلف اور عجیب تھا۔ جوتے اتار کر ہاتھ میں لیے، تمام اہل مجلس کو سلام کیا اور پھر جا کے بادشاہ کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئے۔ دوسرے مذاہب کے علماء نے فورا اعتراض کیا: "بادشاہ حضور! کیا ہم نے نہیں کہا تھارافضیوں کے علماء میں عقل کی کمی ہوتی ہے۔” بادشاہ نے کہا: ” اس نے یہ جو حرکت کی ہے اس کی وجہ خود اس سے پوچھو۔” علمائے اہل سنت نے علامہ حلی سے تین سوال کیے:

۱۔ کیوں اس مجلس میں آتے ہوئے بادشاہ کے سامنے نہیں جھکے؟ اور بادشاہ کو سجدہ نہیں کیا؟

۲۔ کیوں آدابِ مجلس کی رعایت نہ کی اور بادشاہ کے ساتھ جا کے بیٹھ گئے؟

۳۔ کیوں اپنے جوتے اتار کر ہاتھ میں لیے آگئے؟

علامہ حلی نے جواب دیا: پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ پیامبر اکرم ﷺ حکومت میں سب سے بلند مرتبہ رکھتے تھے، جبکہ لوگ (صحابہ) ان کو صرف سلام کرتے تھے، سجدہ نہیں کرتے تھے۔ قرآن کریم کا بھی یہی حکم ہے: (… فَاِذا دَخَلْتُمْ بُیُوتا فَسَلِّمُوا عَلَی اَنْفُسِکُمْ تَحِیَّةً مِنْ عِنْدِاللّهِ مبارَکَةً طَیِّبَةً…)ترجمہ: پس جب گھروں میں داخل ہوں تو اپنے اوپر سلام کرو، اور خدا کی طرف سے بھی پر برکت اور پاکیزہ سلام ہو۔ اور تمام علمائے اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ غیر خدا کے لیے سجدہ جائز نہیں۔

دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ چونکہ اس مجلس میں سوائے بادشاہ کے ساتھ والی کرسی کے کوئی اور نشست خالی نہ تھی، اس لیے میں وہاں جا کے بیٹھ گیا۔

اور جہاں تک تعلق ہے تیسرے سوال کا کہ کیوں اپنےجوتے ہاتھ میں لیے آیا اور یہ کام کوئی عاقل انسان نہیں کرتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے ڈر تھا کہ باہر بیٹھے حنبلی مذہب کے لوگ میرے جوتے نہ چرا لیں۔ چونکہ پیغمبر اکرمﷺ کے زمانے میں ابو حنیفہ نے آپ ﷺکی جوتے چرا لیے تھے۔ حنفی فقہ کے علماء بول پڑے: بے جا تہمت مت لگائیں۔ پیغمبر اکرمﷺ کے زمانے میں امام ابوحنیفہ پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ علًامہ حلی نے کہا: میں بھول گیا تھا وہ شافعی تھے جنہوں نے آپﷺ کے جوتے چرا لیے تھے۔ شافعی مذہب کے علماء نے فریاد بلند کی: تہمت مت لگائیں۔ امام شافعی تو امام ابو حنیفہ کے روز وفات پیدا ہوئے تھے۔ علًامہ حلًی نے کہا: غلطی ہوگئی۔ وہ مالک تھے جنہوں نے چوری کی تھی۔ مالکی مذہب کے علماء فورا بول پڑے: چپ رہیں۔ امام مالک اور پیامبر اکرمﷺ کے درمیان سو سال سے زیادہ کا فاصلہ ہے۔ علًامہ حلی نے کہا: پھر تو یہ چوری کا کام احمد بن حنبل کا ہوگا۔ حنبلی علماء بول پڑے کہ امام احمد بن حنبل تو ان سب کے بعد کے ہیں۔

اسی وقت علامہ حلی نے بادشاہ کی طرف رخ کیا اور کہا: آپ نے دیکھ لیا کہ یہ سارے علماء اعتراف کر چکے کے اہل سنت کے چاروں اماموں میں سے کوئی ایک بھی پیامبر اکرمﷺ کے زمانے میں نہیں تھے۔ پس کیا بدعت ہے جو یہ لوگ لے کر آئے ہیں؟ اپنے مجتہدین میں سے چار لوگوں کو چن لیا ہے اور ان کے فتوی پر عمل کرتے ہیں۔ ان کے بعد کوئی بھی عالم دین چاہے جتنا بھی قابل ہو، متقی ہو، پرہیزگار ہو، اس کےفتوی پر عمل نہیں کیا جاتا۔ بادشاہ خدا بندہ نے اہل سنت کے علماء کی طرف رخ کر کے کہا: سچ ہے کیا کہ اہل سنت کے اماموں میں سے کوئی بھی پیغمبر اکرمﷺ کے زمانے میں نہیں تھا؟ علماء نے جواب دیا: جی ہاں۔ ایسا ہی ہے۔ یہاں علامہ حلی بول پڑے: صرف شیعہ مذہب ہے جس نے اپنا مذہب امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ سے لیا ہے۔ وہ علیؑ جو رسول خدا کی جان تھے، چچا زاد تھے، بھائی تھے اور ان کے وصی تھے۔ شاہ خدا نے کہا: ان باتوں کو فی الحا ل رہنے دو، میں نے تمہیں ایک اہم کام کے لیے بلایا ہے۔ کیا ایک ہی مجلس میں دی گئی تین طلاقیں درست ہیں؟ علامہ نے کہا: آپ کی دی ہوئی طلاق باطل ہے۔ چونکہ طلاق کی شرائط پوری نہیں ہیں۔ طلاق کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ دو عادل مرد طلاق کے عربی صیغے کو سن لیں۔ کیا آپ کی طلاق کو دو عادل لوگوں نے سنا ہے؟ بادشاہ نے کہا : نہیں۔ علامہ نے کہا: پس یہ طلاق حاصل نہیں ہوئی اور آپ کی بیوی اب بھی آپ پر حلال ہے۔ (اگر طلاق حاصل ہوتی بھی تو ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں ، ایک طلاق کے حکم میں ہیں۔)

اس کے بعد بھی علامہ نے اہل سنت علماء کے ساتھ کئی مناظرے کئے اور ان کے تمام اشکالات کے جوابات دئیے۔ شاہ خدا بندہ نے اسی مجلس میں شیعیت قبول کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد علامہ حلی کا شمار بادشاہ کے مقربین میں سے ہونے لگا اور انہوں نے حکومتی امکانات سے اسلام اور تشیع کو مضبوط کرنے کے لیے استفادہ کیا۔

حسن اتفاق یہ کہ شاہ خدا بندہ اور علامہ حلًی دونوں ایک ہی سال میں ، یعنی 726 ہجری میں اس دنیا سے انتقال کر گئے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button