مقالہ جات

ملکی سلامتی ۔۔۔ ایران کیخلاف دشمن تراشی

تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

مجموعی طور پر ہم انتہائی جذباتی لوگ ہیں، اتنے جذباتی کہ ہماری ہاں شادی بیاہ کی رسومات اور فوتگی کے مراسم مہینوں تک جاری رہتے ہیں، اسی طرح عید کی چاند رات کی تیاری اوّل رمضان سے ہی شروع ہوجاتی ہے، بعض اوقات چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کو کافر کہہ دیا جاتا ہے اور بسا اوقات پرانی دشمنیوں کو آن واحد میں  ترک کر دیا جاتا ہے۔ دین، مذہب، سیاست، ملک، قوم سب کے ساتھ ہمارا جذباتی لگاو ہے۔ جذبات جتنے مقدس ہوتے ہیں، ان کے ساتھ کھیلنا اتنا ہی خطرناک ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سرکاری اداروں پر بھی اکثر جذباتی افراد کا کنٹرول رہتا ہے۔ افغانستان میں روس کے خلاف امریکہ سے اتحاد کرنا ہماری مجبوری ہی سہی، لیکن لوگوں کو جہاد کے نام پر اندھا دھند اسلحے سے لیس کرنا ایک جذباتی فیصلہ تھا۔ جہاد کشمیر کے لئے راستہ ہموار کرنا ایک نظریاتی مسئلہ ہے، لیکن آرمی میں ایک مخصوص فرقے کے مولویوں کو بھرتی کرکے آرمی کے جوانوں کو ایک مخصوص مسلک کی تعلیم دینا قطعاً ایک جذباتی فیصلہ تھا۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں حکومت کس کی ہونی چاہیے، یہ ایک سیاسی اختلاف تھا لیکن مشرقی پاکستان کو طاقت سے دبایا جائے یہ کھلم کھلا ایک جذباتی فیصلہ تھا۔ اس وقت کوئٹہ سے تفتان روٹ پر آرمی کا کنٹرول ایک دانش مندانہ مطالبہ ہے، لیکن اس کنٹرول کی آڑ میں سرکاری کارندوں کا لوگوں کو ایران کے خلاف اکسانا، زائرین کو ایران کے خلاف لیکچر دینا، شیعہ کانفرنس کے نام پر بھتہ وصول کرنا، ایف سی کے لبادے میں رشوت بٹورنا اور پھر اس سارے پیسے کو ایران کے خلاف داعش تک پہنچانا، یہ قطعاً ایک جذباتی اور احمقانہ فیصلہ ہے۔

آج سب جانتے ہیں کہ زائرین کو تنگ کیوں کیا جا رہا ہے؟ شیعہ کانفرنس بلوچستان کی حقیقت کیا ہے؟ ایف سی کیا کچھ کر رہی ہے؟ بلوچستان ہاوس میں لوگوں کو کیوں روکا جاتا ہے؟ کانوائے کا ڈھونگ کیوں رچایا جاتا ہے؟ داعش کو بلوچستان میں کیسے مضبوط کیا جا رہا ہے؟ بلوچستان میں  جہاں پہلے ہی ہندوستان اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیاں فعال ہیں، وہاں پر ایران بارڈر کے ساتھ  داعشی نظریات کے دینی مدرسوں کا نیٹ ورک کس کی ایما پر بچھایا جا ریا ہے؟ اصل مسئلہ زائرین کو زدوکوب کرنے اور رشوت خوری کا نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ ملکی سلامتی کا ہے۔ چند مذہبی جنونی افراد سرکاری پوسٹوں پر بیٹھ کر اس کوشش میں لگے ہیں کہ وہ ایک طرف تو شیعہ کانفرنس اور ایف سی کے ذریعے زائرین کو لوٹیں اور دوسری طرف بلوچستان میں ایران کے خلاف داعش کا نیٹ ورک مضبوط کریں۔ چنانچہ ان دنوں سرکاری اہلکار تبلیغی مولویوں کی طرح ایران کے خلاف ہرزہ سرائی میں مشغول نظر آتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی ہمارے سرکاری اداروں نے جتنے جذباتی فیصلے کئے، ان کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے، اب یہ ایک نیا فیصلہ ہے، جس پر کام ہو رہا ہے۔ ہماری ملکی سلامتی کے اہم اداروں خصوصاً فوج کو چاہیے کہ وہ اس فیصلے کا از سرِ نو جائزہ لے۔ آرمی کو اس وقت جذباتی کردار ادا کرنے کے بجائے ملکی سلامتی کی خاطر انتہائی معقول قدم اُٹھانا چاہیے۔

ملکی سلامتی کے ضامن اداروں کو چاہیے کہ فوری طور پر سرکاری وردیوں میں ملبوس ایسے جنونی افراد کے خلاف کاروائی کریں، جو زائرین کو ایران کے خلاف لیکچر دیتے ہیں۔ اسی طرح شیعہ کانفرنس جیسے زائرین دشمن اداروں کو کالعدم قرار دیا جائے اور ایف سی کو فوری طور پر لگام دی جائے۔ یہ سب وہ حقائق ہیں جو اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ ابھی گذشتہ دنوں کوئٹہ اور تفتان کے مسئلے پر ایران میں مقیم پاکستانیوں نے ایک میٹنگ کی، جس میں لوگوں نے تجزیہ و تحلیل کے ساتھ ان حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ اتفاق سے اس نشست میں ایک پاکستانی ہونے کے ناطے میں بھی موجود تھا۔ حاضرین نے پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات سے سب کو آگاہ کیا۔ لوگوں نے واضح طور پر کہا کہ زائرین کو فقط اس لئے گھنٹوں لائنوں میں کھڑا کیا جاتا ہے، ٹکٹوں اور کانوائے کے مسائل میں رسوا کیا جاتا ہے، تاکہ اصل مسئلے کی طرف کسی کی توجہ ہی نہ جائے۔ یہ تفتان اور کوئٹہ کے متاثرین کے تجزیہ جات تھے۔ ہم نے جو سنا وہ بیان کر دیا، اب یہ سرکاری اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ فوری طور پر تحقیق کریں، شواہد اکٹھے کریں اور ان جنونیوں کو  سزا دلوائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اصل مسئلے پر توجہ دے، چونکہ ان نازک حالات میں، دشمن تراشی اور وہ بھی ایران کے ساتھ کسی طور بھی ہمارے حق میں نہیں۔ بصورت دیگر یہ تو ہم سب جانتے ہی ہیں کہ دین، مذہب، سیاست، ملک، قوم سب کے ساتھ ہمارا جذباتی لگاو ہے۔ جذبات جتنے مقدس ہوتے ہیں، ان کے ساتھ کھیلنا اتنا ہی خطرناک ہوتا ہے۔ جو سرکاری اہلکار اس خطرناک کھیل میں ملوث ہیں، وہ را اور موساد کے ایجنٹ تو ہوسکتے ہیں، محب وطن پاکستانی نہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button