پاکستان

گولن کے اسکولوں کی بندش: جماعت اسلامی دو ڈھڑوں میں تقسیم ہوگئی

رپورٹ : شیعیت نیوز
شیعیت نیوز: ترکی میں فوج کے ایک گروپ کی جانب سے ناکام ہونے والی بغاوت کے بعد ترک حکومت نے آئندہ بغاوت کے امکانات کو روکنے  کی آڑ میں اپوزیشن جماعتوں اور رہنماوںکے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاون شروع کر رکھاہے، جن میں فوج، عدلیہ، انتظامیہ کے افراد کی گرفتاری اور برطرفی کے علاوہ بڑے پیمانے پر تعلیمی اداروں کی بندش، یونیورسٹیوں، کالجوں، طبی مراکز، ٹریڈ یونینز میں مختلف عہدوں پر فائز افراد کو برطرف کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے، گویا طیب اردگان جموریت کی آڑ میں آمریت کو پروان چڑھا رہا ہے۔

اسی سلسلے میں آئندہ بغاوت کے امکانات کو روکنے کے لیے جاری اقدام میں سب سے زیادہ نشانہ اپوزیشن کی ایک جماعت کے حامیوں کو بنایا جا رہا ہے۔ اس اپوزیشن جماعت کی سربراہی ایک 75 سالہ شخص فتح اللہ گولن کے ہاتھ میں ہے جو کافی سالوں سے امریکا میں مقیم ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ دنیا کے کئی ممالک کے ساتھ ساتھ گولن صاحب کے اسکول پاکستان میں بھی قائم ہیں،جو اب ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے قہر کی زد پر ہیں،اسلام آباد، لاہور، کوئٹہ، کراچی، حیدرآباد، خیرپور اور جامشورو میں موجود تقریباً 28 اسکولوں کے اس نیٹ ورک میں اسٹاف کی تعداد تقریباً 1500 ہے جبکہ زیر تعلیم طلباء کی تعداد 10 ہزار کے قریب ہے جو پرائمری تا اے لیول تک تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

اگر حکومت پاکستان ترکی کے کہنے پر ان اسکولوں کو بند کرتی ہے تو 1500 ملازمین کی بے روز گاری کے ساتھ ساتھ 10 ہزار بچوں کا مستقبل داو پر لگ جائے گا۔

ترک حکومت اپنے مخالف گروپ گولن تحریک پر الزام عائد کر رہی ہے کہ ان کے پاکستان میں موجود اداروں کے ’’درپردہ مقاصد‘‘ کچھ اور ہیں، جبکہ حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان میں بہت سے لوگ اس ہی طرح کے الزامات اردگان حکومت پر بھی عائد کرتے ہیں کہ وہ پاکستان میں اپنے مخصوص نظریے اور طریقہء کار کی قبولیت کے لیے ماحول تیار کرنے کے لیے جماعت اسلامی اور اس کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کو فنڈنگ کر رہی ہیں.

حکومت پاکستان فتح اللہ گولن کے اسکولوں کو بند کرنے کا فیصلہ کرے یا نا کرے پر جماعت اسلامی ضرور مخمصے کا شکار ہوگئی ہے، ایک طرف فتح اللہ گولن ہے جسکے پاکستان میں چلنے والے پراجیکٹس جماعت اسلامی کے تربیت یافتہ افراد چلارہے ہیں تو دوسری جانب رجب طیب اردگان ہے جیسے جماعت اسلامی مستبقل میں اپنے خلفیہ کے طور پر دیکھ رہی ہے۔

بتایا جارہاہے کہ طیب اردگان کے پاکستان سے اس مطالبہ کے بعد جماعت اسلامی کے اندر ڈھڑے بن گئے ہیں کچھ کا ماننا ہے کہ ترکی اندرونی سیاست سرحدوں سے باہر نا لے کر آئے جبکہ کچھ طیب اردگان کے حق میں ہیں، اسطرح جماعت اسلامی کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ آیا وہ خلیفہ کا ساتھ دیں یا گولن کا جسکی سرمایہ کاری سے جماعت اسلامی بھی مستفید ہورہی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button