مقالہ جات

ملت ِکشمیر ۔۔۔ غلامی پر رضامند نہیں!

تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

کشمیر کی تاریخ  کا آغاز آزادی سے ہوتا ہے۔ آپ شاید یہ جان کر حیران ہونگے کہ کشمیر کی  موجودہ غلامی مسلمانوں کی باہی فرقہ واریت کا نتیجہ ہے۔ یہ 1583ء کی بات ہے کہ جب  کچھ  نادانوں نے پہلی مرتبہ کشمیر کو اکبر بادشاہ کی گود میں اس لئے ڈالا تھا کہ انہیں کشمیر پر شیعہ حکمرانوں کی حکومت قبول نہیں تھی، انہوں نے اپنے فرقہ وارانہ تعصب کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے یوسف شاہ چک کے خلاف سازش تو کی لیکن اس کے بعد کشمیر آج تک غلامی کی زنجیروں میں جھکڑا ہوا چلا آرہا ہے۔ پھر 1753ء میں احمد شاہ ابدالی نے کشمیر کو مغلوں سے چھین لیا  اور یوں کشمیری، مغلوں کے بعد افغانیوں کے غلام بن گئے پھر 1818ء میں لاہور کے مہاراجے رنجیت سنگھ نے یہ علاقہ  افغانیوں سے چھینا اور پھر کشمیری رنجیت سنگھ کے غلام بن گئے۔ 1818ء سے 1846ء تک یہاں سکھوں کی حکومت رہی۔ 9 مارچ 1846ء کو عہد نامہ لاہور کی دفعہ چہار کے تحت  جنگی خراجات کی مد میں سکھوں نے کشمیر انگریزوں کے حوالے کیا اور ایک ہفتے کے بعد ہی انگریزوں نے کشمیر کی ریاست گلاب سنگھ کو نیلام کر دی۔ کشمیر کی غلامی کی ابتدا فرقہ واریت کے باعث 1583ء سے ہوئی اور غلامی کی موجودہ داستان 1947ء سے  رقم ہوتی ہے۔ اس پوری غلامی کی تاریخ میں کشمیری مسلسل آزادی کی جدوجہد کرتے رہے، جس پر روشنی ڈالنا اس وقت ممکن نہیں۔

راقم الحروف کی ناقص معلومات کے 1846ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ریاستِ کشمیر معاہدہ امرتسر کی رو سے گلاب سنگھ ڈوگرہ کو فروخت کی۔ تاریخی اعتبار سے اس وقت شمالی عالاقہ جات کا علاقہ کشمیر کا حصہ نہ تھا بلکہ متعدد چھوٹی چھوٹی ریاستوں  مثلاً نگر، ہنزہ، کھرمنگ، خپلو، شگر، دیامر، خذر، سکردو، استوار اور گانچھے راجواڑے وغیرہ میں منقسم تھا۔ 1846ء میں گلاب سنگھ نے ان چھوٹی موٹی ریاستوں کو طاقت کے زور پر کشمیر میں شامل کیا۔ اس طرح 1846ء کے بعد 1947ء تک کشمیر پر گلاب سنگھ کی نسل اور باقیات ہی حکمران رہی۔ 1947ء میں ہندوستان میں ہندوستانیوں کی طرف سے برطانیہ کے خلاف ایک بہت بڑی  فوجی بغاوت متوقع تھی۔ یعنی برطانیہ کے خلاف ہندوستان میں سو سال کے اندر دوسری بڑی فوجی بغاوت ہونے والی تھی، اس سے پہلے بھی برطانوی حکومت 1857ء کی فوجی بغاوت کا مزہ چکھ چکی تھی۔ لہذا حکومت کوشش کر رہی تھی کہ اسے مزید کسی فوجی بغاوت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس متوقع  فوجی بغاوت کو ٹالنے کے لئے 22 مارچ 1947ء کو  لارڈ ماونٹ بیٹن کو ہندوستان کا وائسرائے بنا کر بھیجا گیا۔ 18 مئی 1947ء کو لارڈ بیٹن اپنی رپورٹ مرتب کرکے واپس لندن روانہ ہوگئے۔ لندن میں لارڈ ماونٹ بیٹن کی رپورٹ پر سیر حاصل بحث ہوئی، جس کے بعد انہیں30 مئی 1947ء کو  پھر ہندوستان بھیج دیا گیا۔

2 جون 1947ء کو وائسرائے ہند لارڈ ماونٹ بیٹن اور ہندوستان کی سیاسی شخصیات کے درمیان ایک  اجلاس منعقد ہوا، جس میں لارڈ نے مقامی سیاسی رہنماوں کو اپنی رپورٹ اور تجاویز سے آگاہ کیا۔ 3 جون کو لارڈ ماونٹ بیٹن نے آل انڈیا ریڈیو سے اپنی تقریر میں آزادی اور تقسیم ہند کا فارمولا پیش کیا، جسے ’’جون تھری پلان‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس تقریر میں انہوں نے تسلیم کیا کہ مسئلہ ہندوستان کا حل تقسیم ہندوستان ہی ہے۔ 3 جون کی شام کو ہی برطانیہ کے وزیراعظم ایٹلی نے بی بی سی لندن سے اعلان کیا کہ ہندوستانی رہنما متحدہ ہند پلان کے کسی حل پر متفق نہ ہو پائے، لہٰذا تقسیم ہند ہی واحد حل ہے۔ یوں 3 جون 1947ء کو  پہلی مرتبہ سرکاری طور پر مہا بھارت اور اکھنڈ بھارت کے فلسفے پر خط بطلان کھینچ دیا گیا۔ ’’جون تھری پلان‘‘ کی رو سے ہندوستان میں واقع  برطانیہ کے زیر انتظام تمام ریاستیں ہندو یا مسلمان ہونے کے ناطے ہندوستان یا پاکستان میں شامل ہونے کا اختیار رکھتی تھیں۔ موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے جواہر لال نہرو نے کشمیر کو ہندوستان میں شامل کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ مسٹر نہرو کی شخصیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ لارڈ ماونٹ بیٹن کو ہندوستان کا وائسراے بنوانے میں ان کا کلیدی رول تھا اور بعد ازاں ان کی ماونٹ بیٹن سے دوستی رنگ لائی اور کشمیر پاکستان میں شامل نہ ہوسکا۔[1]

تقسیم ہند کے وقت حکومت برطانیہ کی طرف سے سرحد کمیشن کا چیئرمین ریڈ کلف کو منتخب کیا گیا۔ لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنے زمانہ طالب علمی کے کالج کے ساتھی ریڈ کلف کو مسٹر نہرو کی  منصوبہ بندی کے مطابق مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا۔ یاد رہے کہ ریڈ کلف اس سے پہلے کبھی ہندوستان نہیں آیا تھا اور ہندوستان کے بارے میں اس کی معلومات فقط سننے سنانے کی حد تک تھیں۔ چنانچہ وہ لارڈ ماونٹ بیٹن کی ہدایات پر ہی عمل کرنے پر مجبور تھا۔ اگرچہ لارڈ مائونٹ بیٹن کے وائسرائے مقرر کروانے سے مسٹر نہرو تقسیم ہند کو تو نہیں رکوا سکے، البتہ انہوں نے ریڈ کلف ایوارڈ کے ذریعے مسلم اکثریتی ضلع گرداسپور کی تین تحصیلیں بھارت میں شامل کرانے میں ضرور کامیابی حاصل کی، جس کے باعث کشمیر میں بھارتی فوجوں کی مداخلت ممکن ہوگئی۔ بلاشبہ  اگر تقسیم ہند کے منصوبے کے تحت مسلم اکثریت کا ضلع گرداسپور پاکستان کے حوالے کر دیا جاتا تو بھارت، پاکستان کے خلاف کشمیر میں کبھی بھی جنگ نہیں لڑ سکتا تھا۔ تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ مسٹر نہرو، لارڈ ماونٹ بیٹن کے ساتھ مل کر ہندوستان کو سنکیانگ تک پھیلانا چاہتے تھے۔ ان کی اس کوشش کو شمالی علاقہ جات کی غیور عوام نے کامیاب نہیں ہونے دیا۔ اسی طرح  ریڈ کلف کی طرف سے ضلع مالدہ، مرشدآباد، کریم گنج اور حیدر آباد کی طرح متعدد مسلم اکثریتی علاقے ہندوستان کو  ہدئیے میں دے دیئے گئے۔

24 اکتوبر 1947ء کو مہاراجہ نے بھارت سے فوج منگوائی اور 27 اکتوبر کو انڈین آرمی کی ایک سکھ بٹالین طیاروں کے ذریعے بھارت سے سرینگر پہنچی۔ اس صورتحال میں کشمیریوں نے مایوسی کے بجائے تحریک آزادی کا اعلان کر دیا۔ اس تحریک کے نتیجے میں کشمیر کا ایک حصہ  مہاراجے کے تسلط سے آزاد ہوگیا، جسے ہم آزاد کشمیر کے نام سے جانتے ہیں اور باقی حصے میں تحریک آزادی ہنوز چل رہی ہے۔ دسمبر 1947ء کے آخر میں ہندوستان نے کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ میں پیش کیا اور یکم جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیریوں کا حق تسلیم کرتے ہوئے وہاں پر رائے شماری کی قرارداد منظور کی۔ بھارت نے 3 جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ واویلا مچایا کہ کشمیر میں جاری بغاوتیں پاکستان کی ایما پر کی جا رہی ہیں، چنانچہ سلامتی کونسل نے 14 مارچ 1950ء کو کشمیر میں غیر جانبدار مبصر کی زیر نگرانی استصواب رائے (ریفرنڈم) کرانے کا فیصلہ کیا اور بھارت و پاکستان کو ہدایت کی کہ دونوں پانچ ماہ کے اندر رائے شماری کی تیاری کریں۔ پھر اس کے بعد وہ پانچ ماہ ابھی تک نہیں آئے۔

یہ ہے کشمیر کی غلامی کی ابتدا سے لے کر موجود تحریک ِ آزادی کا مختصر پسِ منظر، اس پسِ منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے اس وقت راہِ حل کے طور پر چند نکات پیشِ خدمت ہیں:
1۔ کشمیر دراصل مسلمانوں کی باہمی فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھا ہے، اگر ابتدا میں اہلیان کشمیر میں سے کچھ لوگ یوسف شاہ چک کو شیعہ کہہ کر اکبر بادشاہ کو حملے کی دعوت نہ دیتے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ آج بھی اگر کشمیری، غلامی سے نجات چاہتے ہیں تو انہیں فرقہ واریت سے اپنے آپ کو دور رکھنا ہوگا۔ فرقہ وارانہ سوچ کشمیریوں کو کمزور تو کرسکتی ہے لیکن مضبوط نہیں۔
2۔ کشمیریوں کی تحریک آزادی ہندوستان کے خلاف نہیں بلکہ خود کشمیریوں کی آزادی کے لئے ہے۔ آزادی ہر انسان کا فطری اور جمہوری حق ہے، دنیا کی تمام مقتدر اقوام اور ادارے اس حق کو تسلیم کرتے ہیں، لہذا کشمیریوں کو اپنی تحریک آزادی کی نظریاتی بنیادوں کو کھل کر بطریقِ احسن بیان کرنا چاہیے۔
3۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی کاغذی قراردادیں اب کشمیریوں کے کام آنے والی نہیں۔ اب اہلیانِ کشمیر کو یہ حقیقت سمجھنی چاہیے کہ فیصلے حکومتیں نہیں بلکہ ملتیں کرتی ہیں، یہ جمہوری دور ہے، عوامی طاقت ہی اصل طاقت ہے، مسئلہ کشمیر کو میڈیا کے ذریعے دیگر ملتوں تک مسلسل پہنچایا جانا چاہیے اور ان سے مدد کی درخواست کی جانی چاہیے۔ ضروری ہے کہ دنیا کے اطراف و کنار میں انسانی حقوق کی بنیاد پر اس مسئلے کو پوری طاقت کے ساتھ اٹھایا جائے۔ یعنی عالمی سطح پر بین الاقوامی رائے عامہ کو ہموار کیا جائے۔

4۔ مسئلہ کشمیر ایک قانونی اور سیاسی مسئلہ ہے، جو ریڈ کلف سمیت چند خواص کی خیانت کی وجہ سے پیش آیا، لہذا اسے قانونی اور سیاسی طور پر ہی حل ہونا چاہیے۔ دہشت گردی اور خون خرابے کو ہر انسان ناپسند کرتا ہے۔ لہذا تحریکِ آزادی کشمیر کو کسی طور بھی دہشت گرد ٹولوں کے ہاتھوں میں نہیں جانا چاہیے۔ یہ جنگ سیاسی اور قانونی بنیادوں پر عالمی برادری کے ساتھ مل کر لڑی جانی چاہیے۔
5۔ دنیا میں ہر جگہ شدت پسند وہابی اور دہشت گرد ٹولے پائے جاتے ہیں۔ مثلا عراق، پاکستان اور افغانستان کو ہی لے لیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی پورے ملک کو ہی وہابی قرار دے دیا جائے اور امت مسلمہ کو وہابی دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ اسی طرح کشمیر میں بھی یہ لوگ پائے جاتے ہیں۔ لہذا ہمیں بھی سارے اہلیانِ کشمیر کو وہابی یا داعشی نہیں سمجھنا چاہیے اور نہ ہی ملت کشمیر کو ان عناصر کے رحم و کرم پر نہ چھوڑنا چاہیے۔

6۔ جو قوم فکری طور پر شکست قبول کر لیتی ہے، اسے عملی میدان میں شکست دینا آسان ہو جاتا ہے۔ کشمیر کے خواص کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملت کشمیر کو عالمی اسلامی تحریکوں اور شخصیات سے مربوط رکھیں۔ خصوصاً انقلاب اسلامی ایران کی جدوجہد، حزب اللہ کی تاریخ اور فعالیت، نظام ولایت فقیہ اور تحریک آزادی قدس کے مختلف ابواب سے لوگوں آگاہ کریں، تاکہ ان کی ہمت اور حوصلہ بلند رہے۔
7۔ کشمیری تاریخ کے کسی بھی دور میں غلامی پر رضامند نہیں ہوئے، سو آزادی کی جنگ وہ مسلسل نسل در نسل لڑتے چلے آرہے ہیں۔ آزادی کی اس شمع کو جلائے رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کے نصابِ تعلیم میں شامل کیا جائے۔ تاکہ کشمیر کی نسلِ نو اس مسئلے کی نظریاتی بنیادوں کو فراموش نہ کرے۔ اگر نصابِ تعلیم میں شامل نہ ہوسکے تو دیگر ذرائع مثلا فنون لطیفہ، شعر و شاعری اور ناول و افسانے کے ذریعے ہی اس مسئلے کو آگے منتقل کیا جائے۔ ہمیشہ کی طرح آخر میں اپنے قارئین کے لئے تاریخ کا عرق نچوڑ کر ایک بات عرض کرتا چلوں کہ “جو ملت غلامی پر رضامند نہ ہو، اسے غلام نہیں رکھا جاسکتا۔”

استفادہ:۔
1۔ تحریک آزادی کشمیر از پروفیسر خورشید احمد
2۔ کشمیر اینڈ پارٹیشن آف انڈیا، ڈاکٹر شبیر چوہدری انگلش ایڈیشن
3۔ ششماہی سنگر مال، تحقیقی مجلہ پنجاب یونیورسٹی لاہور
4۔ مطالعہ کشمیر از پروفیسر نذیر احمد
5۔ تاریخ کشمیر یعنی گلدستہ کشمیر از پنڈت ہرگوپال خستہ [آن لائن] https://archive.org/stream/tarikhikashmir00khas#page/n0/mode/2up
6۔ A brief history of the Kashmir conflict
http://www.telegraph.co.uk/news/1399992/A-brief-history-of-the-Kashmir-conflict.html
7۔ Kashmir: Roots of Conflict, Paths to Peace
by Sumantra Bose
8۔ The Challenge in Kashmir: Democracy, Self-Determination and a Just Peace
by Sumantra Bose
9۔ مشن ود ماؤنٹ بیٹن از کیمل جانسن

متعلقہ مضامین

Back to top button