مقبوضہ فلسطین

کشمیر: بھارتی جارحیت جاری ، عالمی ادارے خاموش

شیعیت نیوز: بھارتی پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کی جانب سے فائرنگ کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 30 سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ 350 سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ یہ فائرنگ اس وقت شروع ہوئی جب ہزاروں کی تعداد میں کشمیری برہان وانی کے قتل کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے۔ برھان کے قتل سے بھارتی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔

الجزیرہ ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کشمیری لیڈر اور حرّیت کانفرنس کے سربراہ، میر واعظ عمر فاروق نے کہا کہ بھارت اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے واقع کی مذمّت سامنے نہ آنے سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ کشمیریوں کی زندگی کی کوئی وقعت نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی سیاسی پارٹی نے ان پر تشدد کاروائیوں کی مذمّت نہیں کی کیونکہ وہ اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے، وہ اس سرزمین سے قطع تعلّق ہوئے بیٹھے ہیں۔ واضح رہے میر واعظ عمر فاروق کو سرینگر میں ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔

حالیہ کشمیری حالات پر مختلف مبصرین نے اپنا اظہار خیال کیا ہے۔ لندن میں مقیم ایک کشمیری ناول نگار، مرزا وحید نے کہا کہ بعض صورتوں میں، "ایک انسان میڈیا اور ریاستی اداروں کے درمیان فرق نہیں بتا سکتا”. لیکن جمہوری حقوق کے پیپلز یونین (PUDR) کے رکن گوتم نولکھا نے بھارت کی سول سوسائٹی کی جانب سے خاموشی بالخصوص گذشتہ تین دنوں کے واقعات پر سکوت کو حیرت انگیز اور قابل افسوس قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ "انتہا پسندی اور کشمیری حق خودارادیت کے درمیان فرق کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے لوگ بنیاد پرست اسلام کے لیے کشمیر میں تمام اختلاف رائے کو کم کررہے ہیں۔ لیکن کشمیر میں صورت حال مختلف ہے، "

انہوں نے مزید کہا کہ کشمیریوں کے دل و دماغ بھارت کے ساتھ نہیں ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے۔

کشمیری سول سوسائٹی کے مطابق ہلاک شدگان کی تعداد میں ابھی مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ بھارتی فوجیوں کو قتل کرنے کی کھلی اجازت دی جاچکی ہے اور اس بات کی تصدیق سرینگر کے اسکمز ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے کی جنکا کہنا تھا کہ ان کے پاس لائے جانے والے تمام زخمیوں کو کمر سے اوپر والے حصّے میں گولیاں ماری گئی ہیں۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس ڈاکٹر نے کہا کہ یہاں پر موجود چار زخمیوں کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔

ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ پہلے صرف کشمیر کے شمالی اور جنوبی علاقوں سے زخمی آرہے تھے لیکن اب ان میں خود سرینگر شہر کے زخمی بھی شامل ہوچکے ہیں جن کے جسم چھرّوں سے زخمی ہیں۔

ایسے میں بھارتی وزیر راجناتھ سنگ کا بیان ملاحظہ کریں جو کہتے ہیں کہ ان کا دل جموں کشمیر میں تشدد کے واقعات میں قیمتی جانوں کے نقصان پر دکھی ہے اور وہ زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں!

اسی طرح ان انتہائی جارحانہ اور پر تشدّد واقعات پر جمّوں و کشمیر حکومت کے ترجمان نعیم اختر فورسز کی طرف سے صفائیاں پیش کر تے نظر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فورسز نے یہ اقدامات اپنے دفاع کے لیے کیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ۱۰۰۰ افراد پر مشتمل ایک جتھا کسی فوجی بیرک پر حملہ آور ہوتا ہے اور اس بیرک میں دس پندرہ افراد سے زیادہ نہ ہوں تو آپ ان سے کس چیز کی توقع رکھ سکتے ہیں، لیکن وہ اس کے باوجود معاملات کی تفتیش کر رہے ہیں۔

اس بات پر وحید کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز اس طرح کا اقدام کرنے میں بالکل بھی نہیں جھچکتیں کیوںکہ ان کو پتا ہے کہ اس پر ان کی کوئی باز پرس نہیں ہوگی۔ ۲۰۱۰ میں کیا ہؤا، جب اس سال گرمیوں میں کشمیریوں نے احتجاجی مظاہرے کیے تو ۱۲۰ سے زائد افراد کو قتل کردیا گیا، لیکن کسی ایک شخص سے بھی سوال نہیں کیا گیا اسی لیے بھارتی فورسز ایسے گھناؤنے اقدامات کو تکرار کر رہی ہیں۔

ممبئی میں مقیم ایک آزاد صحافی، دلناز بوگا نے کہا کہ اصل مسئلہ کشمیری مزاحمت کو نہ سمجھنا اور اس کو سنسر کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر لوگوں کو پتا چل جائے کہ کس طرح بھارت نے کشمیریوں کے حقوق کو نظر انداز کیا ہے تو ان کو احساس ہو جائے گا کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے جس کا ایک سیاسی حل ناگزیر ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button