دنیا

امریکا کی نظر میں احرار الشام گروہ دہشت گرد نہیں ہے

 امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ایک پریس کانفرنس میں شام میں سرگرم مسلح گروہ احرار الشام کو دہشت گرد گروہ قرار دینے کو آمادہ نہیں ہوئے اور الزہراء گاؤں میں اس دہشت گرد گروہ کے جرائم کی تصاویر دیکھنے کے بعد رد عمل میں کہا کہ سب کو جنگ بندی پر پابند رہنا چاہئے۔
مارک ٹونردو شنبے کو پریس کانفرنس احرار الشام کے بارے میں امریکی کے موقف کو بیان کرنے کو تیار نہيںن ہوئے۔ انھوں نے پریس کانفرنس میں ایک خاتون نامہ نگار کے سوال کے جواب کہ کیا امریکا احرار الشام گروہ پر جنگ بندی کی پابندی کرنے پر دباؤ ڈالے گا، کہا امریکا شام کے تمام مخالف گروہوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ جنگ بندی کی پابندی کریں۔  امریکیوں نے شام کے مخالف گروہوں کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے جبکہ اس تقسیم بندی کے روس جیسے بہت سے مملک مخالف ہیں۔
خاتون نامہ نگار نے احرار الشام گروہ کے ارکان نے کچھ دن پہلے جنوبی حماۃ اور شمالی حمص کے نواحی علاقوں پر دہشت گردانہ حملوں اور ان حملوں ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں کی پیر سے بے حرمتی کرنے پر مبنی جاری ہونے والی تصاویر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ ان سب کے باوجود امریکا اس گروہ کو مخالف یا اپوزیشن کا نام دیتا ہے؟  ٹونر نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ مجھے اس واقعے کی کوئی اطلاع نہیں ہے اور اس کے بارے میں تحقیقات کی جانی چاہئے۔
انھوں نے اپنے ماضی کے لب و لہجے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ آپ کس چیز کی کوشش میں ہیں۔ اس پریس کانفرنس میں دیگر نامہ نگاروں نے بھی سوالات کئے تاہم پریس کانفرنس کے آخر تک اس خاتون نامہ نگار نے کہا کہ میں نہیں چاہتی کہ لات مارنے والی تصاویر تکلیف دینے والی ہیں لیکن جب یہ تصاویر شائع کیں، احرار الشام کا کہنا ہے کہ ان خواتین کو میدان جنگ میں مارا ہے لیکن تصاویر سے مشخص ہوتا ہے کہ یہ خواتین اپنے گھروں میں ماری گئیں ہیں، کیوں وہ گروہ جو جنگ بندی پر پابند نہیں ہے، اسے خاص مراعات کیوں دی جائے؟
 ٹونر نے جب ان تصاویر کو دیکھا تو کہا کہ ہم تمام مخالف گروہوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جنگ بندی کی پابندی کریں۔ ٹونر نے اس پریس کانفرنس میں جنگ بندی کی پابندی کرنے کے لئے ایران اور روس کی جانب سے شام کی حکومت پر دباؤ نہ ڈالنے کی بھی مذمت کی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button