مقالہ جات

حضرت عباس ابن علی علیہ سلام

حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام اسلامی تاریخ کی پیشانی پر ایک عظیم ترین رہنما اوربہادر ترین جرنیل کی صورت میں ابھر کر سامنے آئے۔
حضرت عباس علیہ السلام کی شجاعت و بہادری اور ان کے تمام فضائل وکمالات کی مثال ونظیر پوری تاریخ بشریت میں نہیں مل سکتی۔ کربلا کے میدان میں حضرت عباس علیہ السلام نے جس عزم وحوصلہ ، شجاعت وبہادری اور ثابت قد می کا مظاہرہ کیا اس کو بیان کرنے کا مکمل حق ادا کرنا نہ تو کسی زبان کے لئے ممکن ہے اور نہ ہی کسی قلم میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ اسے لکھ سکے۔ جناب عباس علیہ السلام نے اپنے مضبوط ترین ارادہ اور عزم و حوصلہ کے اظہار سے ابن زیاد ملعون کے لشکر کو نفسیاتی طور پر بالکل ایسے ہی بھاگنے پر مجبور کر دیا جیسے انھوں نے میدان جنگ میں تنہا ان ملعونوں کو اپنی تلوار اور شجاعت سے بھاگنے پر مجبور کردیا تھا۔
آج تک لوگ حضرت عباس علیہ السلام کی بہادری اور شجاعت کو مکمل عقیدت و احترام اور پورے جوش وجذبہ کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ آج تک کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا گیا کہ جو اتنے زیادہ دکھ درد اور غموں سے چور ہونے کے باوجود ہر طرح کے اسلحہ سے لیس ہزاروں فوجیوں پر اکیلا ہی حملہ کر کے انھیں میدان جنگ سے بھاگنے پر مجبور کر دے۔
مؤرخین کہتے ہیں کہ میدان کربلا میں جب بھی حضرت عباس علیہ السلام دشمن کی فوجوں پر حملہ کرتے تو ہر سامنے آنے والا موت کے گھاٹ اترتا اور فوجی خوف اور دہشت سے ایک دوسرے کو کچلتے ہوئے یوں بھاگتے جیسے سب کو یقین ہو کہ موت ان کے پیچھے آرہی ہے اور ان کی کثرت ان کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکتی۔
حضرت عباس علیہ السلام کی شجاعت وبہادری اور ہر فضیلت و کمال فقط مسلمانوں کے لئے باعث فخر نہیں ہے بلکہ ہر وہ انسان جس کے اندر معمولی سی بھی انسانیت ہے وہ جناب عباس علیہ السلام کے فضائل و کمالات پہ ایمان رکھنے پہ فخر محسوس کرتا ہے اور اپنے آپ کو جناب عباس علیہ السلام کا عقیدت مند کہنا اپنے لئے باعث افتخار سمجھتا ہے۔
حضرت عباس علیہ السلام عظیم ترین صفات اور فضائل کا مظہر تھے شرافت ، شہامت ، وفا ، ایثار اور دلیری کا مجسم نمونہ تھے۔ واقعہ کربلا میں جناب عباس علیہ السلام نے مشکل ترین اور مصائب سے بھرے لمحات میں اپنے آقاومولا امام حسین علیہ السلام پر اپنی جان قربان کی اور مکمل وفا داری کا مظاہرہ کیا اور مصائب کے پہاڑوں کو اپنے اوپر ٹوٹتے ہوئے دیکھا لیکن ان کے عزم وحوصلہ، ثابت قدمی اور وفا میں ذرا برابر بھی فرق نہ پڑا اور یہ ایک یقینی بات ہے کہ جن مصائب کا سامنا جناب عباس علیہ السلام نے کیا ان پر صبر کرنا اور ثابت قدم رہنا فقط اس کے لئے ہی ممکن ہے کہ جو خدا کا مقرب ترین بندہ ہو اور جس کے دل کو خدا نے ہر امتحان کے لئے مضبوط بنا دیا ہو۔
حضرت عباس علیہ السلام نے اپنے بھائی حضرت امام حسین علیہ السلام کی خاطر جتنی بھی قربانیاں دیں وہ اس لئے نہیں تھیں کہ امام حسین علیہ السلام ان کے بھائی ہیں بلکہ حضرت عباس علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کو اپنا حقیقی امام، خدائی نمائندہ اور عین اسلام سمجھتے ہوئے ان کی خاطرتمام تر مصائب و مشکلات کو برداشت کیا اور اپنی جان ان پر قربان کر دی اور اس بات کا انھوں نے کئی بار اظہار بھی کیا اور یہی وجہ ہے کہ حضرت عباس علیہ السلام جب بھی امام حسین علیہ السلام کو پکارتے یا ان کا ذکر کرتے تو انھیں بھائی کی بجائے اپنا مولاو آقا اور امام کہتے۔ پس ادب کا کوئی ایسا رنگ نہیں جو حضرت عباس علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کے حق میں اختیار نہ کیا ہو، کوئی ایسی نیکی نہیں جو انہوں نے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ نہ کی ہو، کوئی ایسی قربانی نہیں کہ جو انہوں نے اپنے آقا امام حسین علیہ السلام کے قدموں پر نچھاور نہ کی ہو۔ جانثاری وفا،اور ایثار کی وہ مثال قائم کی جس کی نظیر تاریخ بشریت میں نہیں مل سکتی، جب حضرت عباس علیہ السلام نے تن و تنہا ہزاروں کے لشکر پر حملہ کر کے فرات کو دشمن سے خالی کیا تو تین دن کی پیاس اور شدید جنگ کرنے کے باوجود بھی فقط اس لیے پانی نہ پیا کہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے بچے اور اہل و عیال پیاسے تھے جناب عباس علیہ السلام کی وفا و غیرت یہ برداشت نہیں کر سکتی تھی کہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے اہل و عیال تو پیاسے ہوں اور وہ پانی پی لیں لہٰذا اپنے آقا اور بچوں کی پیاس کو یاد کرکے بہتے دریا سے پیاسے واپس آئے۔ دنیا کی پوری تاریخ کو ورق ورق چھاننے سے بھی اس طرح کی وفا کی نظیر نہیں مل سکتی کہ جس کا مظاہرہ جناب عباس علیہ السلام نے میدانِ کربلا میں کیا۔
جناب عباس علیہ السلام نے ان بلند ترین مقاصد اور عظیم ترین اصولوں کی خاطر شہادت کو گلے لگایا کہ جن کی خاطر امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا تھا پس جناب عباس علیہ السلام نے انسانیت کی آزادی،عدل و انصاف کے فروغ، لوگوں کی فلاح و بہبود، قرآنی احکام کی نشر و اشاعت اور پوری انسانیت کو ذلت کے گڑھے سے نکال کرعزت و شرف اور سعادت دلانے کے لیے اپنے بھائی و آقا امام حسین علیہ السلام کی طرح شہادت کو اختیار کیا ۔
جناب عباس علیہ السلام نے حریت و آزادی اور کرامت و شرف کی مشعل روشن کی اور عزت و سعادت کے میدان میں اترنے والے شہداء کے قافلوں کی قیادت کی اور ظلم و جور کی چکی میں پسنے والے مسلمانوں کی مدد و نصرت کو اپنا فریضہ سمجھا۔
جناب عباس علیہ السلام پوری انسانیت کے لیے بھیجے گئے خدائی دستور اور زمین کی ترقی کے لائحہ عمل کی خاطر میدانِ جہاد میں اترے۔ پس جناب عباس علیہ السلام نے اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ مل کر ایسا عظیم انقلاب برپا کیا کہ جس کے ذریعے حقیقی اسلام اور بنی امیہ اور سقیفہ کے خود ساختہ اسلام میں فرق واضح ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کی کتاب کے اصل وارث کے بارے میں ہر شک و شبہ ختم ہو گیا اور سقیفہ کے بنائے ہوئے ظلم و جور کے قلعے پاش پاش ہو گئے۔
امام حسین علیہ السلام نے کسی ظلم و زیادتی اور فساد کی خاطر قیام نہیں فرمایا تھا بلکہ امام حسین علیہ السلام کا مقصد تمام انسانیت اور خاص طور پر امت مسلمہ کو فلاح و بہبود کی راہ پر گامزن کرنا اور مسلمانوں کو بنی امیہ کی حکومت کے ظلم و ستم اور بربریت سے نجات دلانا تھا۔
معاویہ اور اس کے حرام زادے بھائی زیاد نے مسلمانوں پہ ظلم و ستم کی انتہا کر دی تھی اور اسلام اور شریعت کو کھلواڑ بنا رکھا تھا بے گناہ لوگوں کا قتل، شریف لوگوں پر ظلم و ستم اور مسلمانوں کی عزت و آبرو اور ناموس کی دھجیاں اڑانا بنی امیہ کی حکومت کا معمول بن چکا تھا۔ معاویہ ملعون کے مرنے کے بعد اس کے نجس بیٹے یزید لعین نے تو کھلم کھلا اسلام، شریعت اور رسول خدا کے حق میں جسارت شروع کر دی، حضرت علی علیہ السلام اور خاندان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو گالیاں دینا تو بنی امیہ کے ہر حکمران کے نزدیک باعث شرف سمجھا جاتا تھا۔
کربلا کا سانحہ پوری عالمی تاریخ میں مسلمانوں کے ماتھے پر سیاہ دھبہ ہے کہ جس کی اصل بنیاد سقیفہ اور بنی امیہ ہے۔ اس سانحہ کربلا نے پوری عالمی تاریخ اور خاص طور پر مسلمانوں کے سامنے نئے راستے کھول دیے اور ظلم و ستم اور آمرانہ حکومتوں کے ختم کرنے کے لیے حریت پسندوں میں نئی روح پھونک دی اور ظالموں کے ہر طرح کے اسلحے کو اپنے خون سے شکست دینا سکھایا۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کاقیام اور انقلاب اصولوں اور اسلامی نظریات کا انقلاب و قیام تھا امام حسین علیہ السلام خود تو شہید ہو گئے لیکن ان کا برپا کردہ انقلاب قیامت تک کے لیے زندہ ہو گیا، ان کے اصولوں نے نہ جھکنے والے پرچم بلند کر دیے اور ان کے نظریات نے ظالموں کے مقابلے میں نہ ختم ہونے والے سپاہی میدانِ جنگ میں کھڑے کر دیے۔
اس انقلاب نے ظلم و ستم کے خلاف ایسی آگ کے شعلے روشن کیے کہ جس کو نہ کوئی ظالم حکومت بجھا سکی ہے اور نہ بجھا سکے گی، کوئی بھی آمر و جابر ان کربلائی حریت پسندوں کو مٹا سکا ہے نہ مٹا سکے گا۔
اسی طرح اس انقلاب نے دنیا کے سامنے اس بات کو بھی واضح کر دیا کہ اصل اسلام وہ نہیں کہ جو سقیفہ اور بنی امیہ نے تلوار اور ظلم کی طاقت سے پھیلایا ہے بلکہ ان لوگوں کا اسلام اور شریعت سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ اصل اسلام وہ ہے جس کی خاطر خانداں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہر طرح کی قربانی دی اور اپنے تمام حقوق کو پامال ہوتا برداشت کیا اور جس کو بچانے کے لیے اپنا سب کچھ غصب ہوتا دیکھا اور ہر طرح کے مصائب پر صبر کیا۔
امام حسین علیہ السلام نے ان بناوٹی خلفاء کے چہرے سے نقلی اسلام کا نقاب اتار کر ان کی منافقت اور کفر کو دنیا کے سامنے آشکار کر دیا اور بنی امیہ کی حکومت کے غیر شرعی اور غیر اسلامی ہونے کو اس طرح سے واضح کیا کہ کوئی بھی باشعور شخص ان کے خارج از اسلام ہونے سے انکار نہیں کر سکتا۔
یہ امام حسین علیہ السلام کے برپا کردہ انقلاب کا ہی اثر تھا کہ جس سے بنی امیہ کی حکومت کو ہر علاقہ میں حریت پسندوں کا سامنا کرنا پڑا۔
ہر صوبے سے بنی امیہ کے خلاف آوازبلند ہوئی اور ایک آگ نے بنی امیہ کی حکومت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
مسلمانوں کو گمراہی کی نیند اور خواب غفلت سے بیدار کرنے اور سقیفہ اور بنی امیہ کے دیے ہوئے نشے کے اثر کو ختم کرنے کے لیے امام حسین علیہ السلام نے ایسا انقلاب برپا کیا کہ جس کا اثر قیامت تک باقی رہے گا۔
اس بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کربلا میں ہونے والاظلم و ستم اور خاندان رسول پر ڈھائے جانے والے مصائب کے پہاڑ کوئی اتفاقی واقعہ نہ تھا بلکہ اس واقعہ کی بنیاد مسلسل حکمرانوں کی بے اعتدالی تھی اور حکمرانوں کی طرف سے لوگوں پر ظلم و ستم کے ساتھ ساتھ انھیں خاندان رسول سے پروپیگنڈا کے ذریعے سے دور کرنا تھا اور حکمران سرعام اللہ کے رسول اور خاندان رسول پر جسارت کرتے تھے انھیں گالیاں دیتے تھے ان کے حقوق کو غصب کرتے تھے۔ حکمرانوں نے حکومت کو عوام کی خدمت کی بجائے عیش و عشرت کا ذریعہ بنایا ہوا تھا ان کے نزدیک عوام کی حیثیت حیوانوں سے بھی بد تر تھی لہٰذا حکومت نے عوام اور اہل بیت رسول کے اموال کو اپنے لیے حلال سمجھ رکھا تھا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی میں منافقین نے اسلام کو ختم کرنے اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ان کے خاندان کو صفحہ ہستی مٹانے کے لیے جونجس بیج بویا تھا اس کا پودا سقیفہ کی صورت میں سامنے آیا اوراس پودے پر بنی امیہ کی حکومت کی صورت پھل لگا اور اس کے اثرات واضح طور پر کربلا کے سانحہ میں نظرآئے۔
امام حسین علیہ السلام کے برپا کر دہ انقلاب میں حضرت عباس علیہ السلام نے بہت ہی اہم کردار ادا کیا بلکہ علماء کے نزدیک اس پورے انقلاب میں امام حسین علیہ السلام کے بعد سب سے اہم کردار حضرت عباس علیہ السلام کا تھا اور اس پورے سانحہ اور تمام مصائب میں اپنے بھائی و آقا امام حسین علیہ السلام کو لمحہ بھر کے لیے بھی تنہا نہ چھوڑا اور ان کے انقلاب کی کامیابی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ جب تک حضرت عباس علیہ السلام زندہ رہے امام حسین علیہ السلام کی مکمل اطاعت اور فرمانبرداری کرتے تھے اور ان کی مرضی کے خلاف نہ کوئی لفظ منہ سے نکالا اور ذہن کے کسی بھی حصے میں کسی ایسی بات کو جنم نہ لینے دیا کہ جو امام کی مرضی کے خلاف ہو اور اپنی پوری زندگی خدا، رسول اور آئمہ کی مرضی و اطاعت میں گزاری اور اسی اطاعت و ایمان کی بلندی کی وجہ سے ہمارے علماء حضرت عباس علیہ السلام کو معصوم قرار دیتے ہیں۔
نسب مبارک اور ولادت باسعادت
انساب عالم میں حضرت عباس علیہ السلام کے نسب سے بلند و معروف کوئی نسب نہیں ہے اور نہ ہی کسی کا گھرانہ ان کے گھرانے سے افضل و اشرف ہے۔ پس وہ گھرانہ حضرت علی ابن ابی طالب علیھماالسلام کا گھرانہ ہے کہ جس سے بڑھ کر عظیم اور افضل و اشرف گھر بنی نوع انسان نے اپنے کسی بھی دور میں نہیں دیکھا۔ پس یہ حضرت علی علیہ السلام کاہی فضائل وکمالات سے لبریز گھر تھا کہ جس نے عالم اسلام کو فضیلت کے عناصرسے نواز ا اور اسے انسانیت کی فلاح و بہبود اور خیر وبھلائی کی راہ میں قربانی دیناسکھایا اور عمومی طور پر حیات بشری کو ایمان اور تقویٰ کی روح عطا کی۔ یہ اس شجرہ مبارکہ کی چند خصوصیات ہیں کہ جس کی ایک شاخ قمر بنی ہاشم اور فخر عدنان حضرت عباس علیہ السلام بھی ہیں.

والد گرامی:
حضرت عباس علیہ السلام کے والد گرامی حضرت امیرالمؤمنین، وصی رسول، باب مدینة العلم اور زوج بتول حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں کہ جو سب سے پہلے اللہ پر ایمان لائے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کی اور ان کی منزلت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایسے ہی تھی کہ جیسے جناب ہارون علیہ السلام کی جناب موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھی۔
حضرت علی علیہ السلام ہی اسلام کے سب سے بڑے مجاہد اور کلمہ توحید کا نفاذ کرنے والے تھے انہوں نے اسلام کے عظیم اہداف کی لوگوں میں نشر واشاعت اور تبلیغ کی خاطر راہ خدا میں جہاد کیااور بہت زیادہ مصائب برداشت کیے۔
اس عظیم امام میں دنیا کے تمام فضائل وکمالات جمع تھے کہ جن کی بدولت کوئی بھی شخص علم و فضل میں ان کی برابری نہیں کر سکتا تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے بڑی علمی شخصیت حضرت علی علیہ السلام کی صورت میں ہی دنیا کے سامنے ابھر کر آئی۔
پس حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کسی تعارف اور بیان کی محتاج نہیں ہے تمام اقوام عالم ان کے فضائل ومناقب کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔
حضرت عباس علیہ السلام کے لئے فقط یہ فخر ہی کافی ہے کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کے بیٹے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسوں کے بھائی ہیں .

والدہ گرامی:
حضرت عبا س علیہ السلام کی والدہ گرامی کا نام مبارک حضرت فاطمہ علیھا السلام بنت حزام بن خالد تھا جو کہ ام البنین علیھا السلام کے نام سے مشہور ہیں۔
حضرت عباس علیہ السلام کے نانا جناب حزام عالم عرب کے شرف کے ستون تھے اور اپنی شجاعت و بہادری اور جود وسخاوت میں بہت مشہور تھے۔ پس حضرت عباس علیہ السلام کی والدہ کا خاندان اپنی شجاعت و شہامت اور بلندی میں بے مثل و بے مثال تھا اس خاندان کے بہت سے افراد شمشیر زنی، نیزہ بازی اور تیراندازی میں بہت زیادہ مشہور تھے ان میں کچھ کے نام اور مختصر احوال درج ذیل ہیں :
1 ـ عامر بن الطفيل:
یہ جناب ام البنین علیھا السلام کی دادی کے بھائی تھے کہ جو شجاعان عرب اور فرسان عرب میں سب سے زیادہ نمایاں حیثیت کے حامل تھے اور عالم عرب اور اس کے باہر ان کی شہرت عروج پر تھی۔ ان کی شہرت کی یہ حد تھی کہ جب عربوں میں کوئی شخص قیصر روم کے پاس جاتا تو اگر وہ شخص عامر بن طفیل کے عزیز و اقراباء میں سے ہوتا تو قیصر روم اس کے ساتھ بہت ہی عزت و اکرام کے ساتھ پیش آتا اور اگر اس کی عامر بن طفیل سے کوئی رشتہ داری نہ ہوتی تو وہ اس سے منہ موڑ لیتا۔
2 ـ عامر بن مالك:
یہ جناب ام البنین علیھا السلام کے دادا کے والد (پردادا)تھے، کہ جو اپنی شجاعت کی بدولت (ملاعب الأسنة) کے لقب سے مشہور تھے اور جنگی فنون میں مہارت اور شجاعت کے ساتھ ساتھ عامر بن مالک عہد وپیمان کی رعایت اور ظالموں کی سر کوبی کرنے میں تمام قبائل عرب میں بے مثل و بے مثال تھے، مؤرخین نے ان کے بارے میں بہت سے ایسے واقعات ذکر کئے ہیں کہ جن میں ان کی یہ صفات حمیدہ واضح نظر آتی ہیں۔
3 ـ طفيل:
یہ جناب ام البنین کی دادی عمرہ کے والد تھے جوکہ مشہور ترین جنگجو اور شہسوار عرب تھے اور ان کے بھائی بھی دلیری اور شجاعت میں اپنے زمانے میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے کہ جن میں ربیعہ، عبیدہ اور معاویہ شامل ہیں ان کی والدہ کو بھی ام البنین کے نام سے پکارا جاتا تھا۔
4 ـ عروة بن عتبة:
یہ جناب ام البنین علیھا السلام کی پردادی کے والد ہیں کہ جو عرب قبائل اور اقوام عرب میں انتہائی معزز اور معروف شخصیت تھے، جب بھی وہ اپنے زمانے کے باد شاہوں کے پاس جاتے تو وہ ان کو انتہائی احترام و اکرام کی نظر سے دیکھتے اور بہت ہی قیمتی تحائف اور حسن سلوک کے ساتھ انہیں رخصت کرتے۔
جناب ام البنین کے عظیم صفات کے حامل آباؤاجداد میں سے ہم نے ان چند شخصیات کے بارے میں چند سطریں تحریر کی ہیں کہ جو اپنے بلند کردار اورعالی صفات میں مشہور تھے پس فطرت کی طرف سے بنے ہوئے وراثت کے قانون کے تحت یہ بلند پایہ صفات جناب ام البنین علیھا السلام تک ان کے آباؤ اجداد کی طرف سے پہنچیں اور ان سے پھر ان کے بیٹوں میں منتقل ہوئیں۔

عظیم مولود
جناب ام البنین علیھا السلام کے ہاں پیدا ہونے والا پہلا مولود عباس کے نام اور ابوالفضل کی کنیت سے معروف ہوا، اس مولود نے دنیا میں آتے ہی یثرب کو نئی زندگی عطا کی اور دنیا کو اپنی ولادت سے منور کیا اور خاندان علی(ع) کو خوشیوں اور فرحت و سرور کا تحفہ دیا۔ پس خاندان علی علیہ السلام اور بنی ہاشم میں ایک چاند ظاہر ہوا کہ جس کے فضائل وکمالات اور بلند کردار کی روشنی نے جہاں پوری دنیا کو نور بخشا وہاں بنی ہاشم کی شہرت، بقا اور دائمی ذکر کو مزید استحکام عطا کیا۔
جب حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کو اس مبارک مولود کی خوشخبری دی گئی تو امیر المؤمنین علیہ السلام فوراً گھر تشریف لائے اور اس مبارک مولو د کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کا بوسہ لیا اور رسومات ولادت ادا کیں۔
امیر المؤمنین علیہ السلام نے اس مولود کے دائیں کان میں اذان کے کلمات جاری کیے اور بائیں میں اقامت کے۔ پس ایمان و تقویٰ کی کائنات میں سردار کے دہن مبارک سے نکلنے والی اللہ اکبر ….لاالہ الا اللہ ….. کی صدا جناب عباس علیہ السلام کی روح کی گہرائیوں میں نقش ہو گئی اور اس طرح سے ان کی ذات میں کندہ ہوئی کہ ان کی ذات کا سب سے اہم عنصر بن گئی اور اسی الٰہی پیغام کی تبلیغ کی خاطر انہوں نے اپنی زندگی وقف کر دی اور اسی کی خاطر ان کا جسم صحراء کربلا میں بکھر گیا۔
ولادت کے ساتویں دن جناب امیرالمؤمنین علیہ السلام نے جناب عباس علیہ السلام کے بال منڈوائے اور ان کے وزن کے برابر سونا یا چاندی صدقہ کیا اور ایک گوسفند کا عقیقہ کیا جیسا کہ جناب امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر اسلامی سنت پر عمل کرتے ہوئے کیا گیا تھا۔

تاریخ ولادت
محققین کے مطابق جناب عباس علیہ السلام کی تاریخ و لادت چار شعبان 26ہجری ہے۔

تربیت و پرورش
جناب عباس علیہ السلام ایسے عظیم پاک و طاہر اور صالح ماحول میں پروان چڑھے کہ جو شاذ و نادر ہی کسی انسان کو حاصل ہوتا ہے پس جناب عباس علیہ السلام نے اپنے بابا کے زیرِ سایہ زندگی کی منزلوں کو طے کرنا شروع کیا کہ جو اس کائنات میں عدل و انصاف کے سب سے بڑے علمبردار تھے جناب امیر المؤمنین علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو علم و تقویٰ کے خزانوں سے مالا مال کیا اور اس کے اندر ایسی عظیم عادات اور صفات کی روح پھونکی کہ جن کی بدولت وہ دنیا کے سامنے اپنے بابا کی شبیہ کی صورت میں ابھر کر سامنے آئے۔
اسی طرح جناب عباس علیہ السلام کی والدہ نے بھی انہیں فضائل و کمالات کے دریاؤں سے سیراب کیا اور بچپن سے ہی ان کے اندر خدا کی محبت اور رضا و اطاعت کو اس طرح کوٹ کوٹ کر بھر دیا کہ تا حیات یہ امور جناب عباس علیہ السلام کا نصب العین رہے۔
جناب عباس علیہ السلام ہمیشہ سیدالشباب اہل الجنة حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ رہتے اور ان سے کسب فیض کرتے خاص طور امام حسین علیہ السلام کے ساتھ اس طرح رہے کہ اگر امام حسین علیہ السلام چاہے سفر میں ہوں یا وطن میں ہر جگہ ہی جناب عباس علیہ السلام سائے کی طرح ان کے ساتھ رہتے اور ان سے معارفِ اسلامی اور کمالات و فضائل حمیدہ کسب کرتے۔ پس جناب عباس علیہ السلام حقیقت میں امامت کے آئینہ دار اور نمونہ عمل تھے۔
امام حسین علیہ السلام بھی اپنے بھائی جناب عباس علیہ السلام کے حق میں عظیم ترین اخلاص رکھتے تھے امام حسین علیہ السلام نے جناب عباس علیہ السلام کی محبت و الفت اور حقیقی عقیدے و اخلاص کو دیکھتے ہوئے انہیں اپنے تمام اہل بیت علیھم السلام پر ترجیح دی اور ہر ایک سے بڑھ کر اپنا قرب عطا کیا۔
صالح اور عظیم ترین تربیت کے نتیجہ میں جناب عباس علیہ السلام نے جو کمالات و فضائل کسب کیے ان کمالات نے جناب عباس علیہ السلام کو ان بزرگ ہستیوں اور مصلحین کی بلند یوں تک پہنچا دیا کہ جنہوں نے لوگوں کی فلاح و بہبود کی خاطراور ان کو ذلت و غلامی سے نکالنے کے لیے اپنی عظیم ترین قربانیوں سے تاریخِ بشریت کی کایا ہی پلٹ د ی۔
حق کی سر بلندی کی خاطر قربانی، انسانی آزادی پر مشتمل اسلامی پیغام اور عدل و انصاف اور محبت و ایثار کی بنیادوں پر معاشرے کی تشکیل پر مبنی نظریات جناب عباس علیہ السلام کی شخصیت کا اہم حصہ تھے اور یہ وہ امور تھے کہ جو جناب عباس علیہ السلام کی روح کی گہرائیوں میں کندہ تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ان کی خاطر ہر ممکن طریقے سے جد و جہد کی اور کسی طرح کی قربانی سے دریغ نہ کیا اور ایسا کیوں نہ ہو جناب عباس علیہ السلام کے والد حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام اور ان کے بھائی امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام تھے کہ جنہوں نے حریت و آزادی اور عزت و کرامت کی مشعل بلند کی اور تما م اقوا م عالم کے سامنے ان کی آزادی اور عزت و شرف کے روشن دروازے کھولے تا کہ پوری بشریت میں عدل و انصاف اور فلاح و بہبود پھیل سکے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button