مقالہ جات

’’حلب‘‘ گیٹ وے آف جنیوا

حلب میں اچانک شدت پسندوں کی جانب سے دہشتگردانہ کاروائیوں میں تیزی ،یہاں تک کہ ان فائر بندی پر دستخط کرنے والے امریکی سعودی حمایت یافتہ شدت پسند گروہ کا بھی فعال ہوجانااور اچانک
فائربندی کو سبوتاژ کرنے کے پچھے اصل مسئلہ کیا ہے ؟
آخر اچانک کیا ہوا کہ عالمی میڈیاکا ایک مخصوص حصہ اور ’’پیڈ سوشل میڈیا‘‘ ایک منظم قسم کی کمپئن  ’’حلب جل رہاہے‘‘چلانے لگے ہیں ؟
الف:شام کی افواج ایک کامیاب آپریشن کے بعد حلب شہر اور اس کے مضافات کے اکثر حصےکو کلئیر کرچکی ہے جس سے شدت پسند سخت پریشانی کا شکار ہیں ۔
ب:جنیوامذاکرات میں خودکو اپوزیشن کہلانے والے گروہ کے سامنے مسئلے کا سیاسی حل پوری سنجیدگی کے ساتھ رکھا گیا ہےاور اس حل میں ان کی اہم شرائط کا کہیں ذکر نہیں ملتا اور نہ ہی وہ گرونڈ میں ایسی پوزیشن میں ہیں کہ اپنی شرائط منواسکیں ۔
ج:جنیوا مذاکرات کو مکمل کئے بغیرخودکو اپوزیشن کہلانے والاگروہ اٹھ کر چلاگیا ہے نہ کہ شام کی حکومت ۔
مذاکرات کو تعطل کا شکار کرنے کے بعد حلب شہر میں اسی گروہ نے فائر بندی کی مخالفت شروع کردی ،
جس کے بعد حلب شہر کے آپریشن میں حکومت نےبھی تیزی دیکھانی شروع کردی ۔
د:جوںہی آپریشن میں تیزی آنے لگی شدت پسندوں نے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت شدید بدامنی اور دہشتگردانہ کاروائیوں کا آغاز کیا جس کا ہدف صرف ایسی حالت پیدا کرناہے جس سے ایک بار پھربین الاقوامی یا علاقائی افواج کی مداخلت کی امید لوٹ آئے ،ان کاروائیوں کے ساتھ ساتھ مخصوص میڈیا اورپیڈ سوشل میڈیا میں ’’حلب جل رہا ہے ‘‘کے شور کا آغاز ہوا ۔
یہاں چند نکات ایسے ہیں جن کی جانب توجہ ضروری ہے
پہلا نکتہ:ظاہر ہے کہ اگر شامی کی افواج حلب کے آپریشن کو مکمل کرتیں ہیں تو اس صورت میں اپوزیشن کہلانے والے گروہ جنیوا مذاکراتی میز پر اور کمزور پوزیشن میں چلے جاینگے
دوسرا نکتہ:اس آپریشن کے مکمل ہونے کے بعد ہوسکتا ہے کہ یہ گروہ مزید مایوسی کا شکارہوجائیں اور مذاکرات سے ہی انکاربیٹھیں اور جس کا مطلب فائربندی کا ہمہ جانبہ خاتمہ ہوگا ۔
شام کی حکومت کے سامنے دو امور ایسے ہیں جنہیں وہ ضرورانجام دینے کی کوشش کرے گی
الف :اپوزیشن کے دائرے کو وسیع کرنا اور اس میں مزید ان گروہوں کو پذیرائی دی جائے جنہیں اب تک کسی عالمی قوت کی عدم سرپرستی کے سبب وہ پوزیشن نہیں ملی جو دیگرسعودی امریکی حمایت یافتہ گروہ کو حاصل ہے ۔اور یہ گروہ اقوام متحدہ کی سرپرستی میں شام کے مسئلے کے سیاسی حل میںبھی سنجیدہ ہیں
ب:جیش الاسلام اور احرار الشام نامی دو نوںعسکریت پسند گروہ کوعالمی سطح پر دہشتگرد قراردیا جائے جیسا کہ ابھی سیکوریٹی کونسل کے اجلاس میں روس نے اس کی کوشش کی تھی لیکن چونکہ داعش اور القاعدہ سے الگ شدہ ان گروہ کو امریکی اور سعودی عرب کی براہ راست حمایت حاصل ہے لہذا ایسا پہلے مرحلے میں کم ازکم ممکن نہ ہوسکا ۔
واضح رہے کہ سعودی حمایت یافتہ جیش الاسلام کے سربراہ ہی اپوزیشن کی قیادت کررہے ہیں جو ماضی میں داعش سے منسلک رہے ہیں جبکہ احرارالشام نامی گروہ کو ترکی کی بھی زبردست حمایت حاصل ہے اور اس گرو ہ کو تشکیل دینے والے عناصر بھی داعش اور القاعدہ کا بیگ گرونڈ رکھتے ہیں ۔
آخر میں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ موجودہ شامی اپوزیشن دو ایسے گروہ سے تشکیل پائی ہے جن پرایک طرح کی سعودی اور امریکی اجارہ داری قائم ہے اور کسی بھی دیگر گروہ کی شمولیت کو ویٹو کیا جارہاہے جبکہ اپوزیشن کے دیگر اہم گروہوں میں کُرد اور وفد قاہرہ ،علاوہ متعدد دیگر گروہ ہیں جن کی مسلسل یہ ڈیمانڈ رہی کہ انہیں بھی شامی اپوزیشن میں شامل کیا جائے ۔
جنیوامذاکرت کی کامیابی اس وقت ممکن ہے جب ایک مستقل اپوزیشن ہو جو بغیر کسی ڈکٹیشن کے اپنے فیصلے خود کرے ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button