سعودی عرب

آل سعود سے سعودی عرب کے عوام کی ناراضگی دن بدن بڑھ رہی ہے،نیوز رپورٹ

شیعیت نیوز: ایک امریکی چینل پی بی ایس کی ویبسایٹ  نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے : جنوری ۲۰۱۵ میں جب سلمان بن عبد العزیز سعودی عرب کا بادشاہ بنا  تو کچھ ایسی درخواستیں اس کے کانوں تک پہنچیں  کہ جن میں اس سے اقتصادی اور اجتماعی اصلاحات کا مطالبہ کیا گیا تھا ، اور وہ بھی ایسے ملک میں کہ جس نے عرصہ دراز تک مشرق وسطی میں امریکہ کے لیے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اس طرح شاہ سلمان سے بھی مطالبہ   کیا گیا کہ انسانی حقوق کے سلسلے میں اس ملک کے سسٹم میں بہتری پیدا کرے ۔ لیکن اس وقت سے اب تک ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے لیکن وہ مطالبات ابھی تک پورے نہیں ہوئے ہیں۔

شاہ سلمان کی حکومت ایران کے ساتھ رسہ کشی ، تیل کی قیمت کم ہونے سے پیدا شدہ اقتصادی مشکلات  شدت پسند وہابی مبلغین کے دباو اور شام اور یمن کی جنگ جیسی مشکلات سے دوچار ہے ، اس نے کچھ اصلاحات کی ہیں ۔ لیکن ان کے ساتھ ہی وہ حالیہ تین دہائیوں میں  اجتماعی طور موت کی سزا دینے کی سب سے بڑی ذمہ دار بھی بن چکی ہے ۔ اس وقت سعودی عر ب کے  عام لوگ  اس حالت کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں نکل چکے ہیں ۔ درج ذیل دستاویز میں درج شدہ اطلاعات کی بنیاد پر کہ جس کا عنوان ہے سعودی عرب کا ظاہر و باطن ، سعودی عرب میں عورتوں اور مردوں کی جوان نسل  اس حالت کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈال رہی ہے تا کہ وہ سب کو تبدیلی کی خوشخبری دے سکیں ۔ وہ پانچ طریقے اختیار کر کے اپنے اعتراضات  کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں :

٭وہ چھپ کر ایسی جگہوں کی تصویریں بناتے ہیں کہ جو  سعودی عرب کی حکومت نہیں چاہتی کہ کوئی ان کو دیکھے ،

سعودی عرب کے سلطنتی خاندان کے افراد دنیا کے مالدار ترین افراد میں سے ہیں اور دنیا اس سعودی عرب کو دیکھتی ہے جو دولت اور ڈیلیکس کاروباری مراکز سے سر شار ہے ۔ حکومت نے اجتماعی رفاہ کے میدان میں اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں لیکن اندازہ لگایا جاتا ہے کہ سعودی عرب کی آبادی کا ۲۵ فیصد حصہ اب بھی فقیری کی حالت میں زندگی بسر کر رہا ہے ۔ اگر چہ فقیر نشین علاقوں کی تصویریں بنانا اس ملک میں ان افراد کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے لے جا سکتا ہے اس علاقے کی آواز ریکارڈ کرنے والے تصویریں بنانے والے اس علاقے کے رہنے والوں کی زندگی میں شامل ہیں ۔ مثال کے طور پر حال ہی میں ایک فیلم منتشر ہوئی ہے جس میں مکہ کے اطراف میں فقیر اور بے بضاعت لوگوں کو دکھایا گیا ہے ۔

٭عورتیں گاڑی چلاتی ہیں ۔

شاہ سلمان نے ایسے قوانین بنائے ہیں کہ جن کے تحت اس نے عورتوں کو ووٹ دینے اور بلدیاتی انتخابات میں امیدوار ہونے کا حق دیا ہے ۔لیکن ایک پرانے قانون کی شقوں کی بنیاد پر کہ حکومت اب بھی اس کی حمایت کر رہی ہے جس کی جڑیں وہابی مفتیوں کے قدیمی نظریات میں ملتی ہیں عورتیں اب بھی اسٹئیرینگ سنبھالنے کا حق نہیں رکھتیں ۔ سال ۲۰۱۴ کے اواخر میں ایک سعودی عورت نے فیصلہ کیا کہ وہ میدان عمل میں قدم رکھے گی اور اپنی ڈرائیوینگ کی کہ جو پڑوسی ملک امارات سے شروع ہو کر سعودی عرب میں ختم ہونے والی تھی فیلم بنائے گی لیکن تصویر برداری کے آخری لمحات میں اس کو گرفتار کر لیا گیا ۔ وہ اس وقت سعودی عرب میں عورتوں کے حقوق کی ایک سر گرم مدافع بن چکی ہے ۔

٭عام بھیڑ کی جگہوں پر لوگوں کے سامنے شدت پسندی کا مقابلہ کرتے ہیں ۔

کچھ عرصہ پہلے ایک نہایت دردناک اور تکلیف دہ فیلم سعودی عرب میں منتشر ہوئی کہ جس ملاء عام میں سڑک پر ایک عورت کی گردن کاٹتے ہوئے دکھایا گیا تھا وہ عورت کہ جس قتل اور مونہہ بولی بیٹی کو ستانے اور جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کا عدالت کی طرف سے الزام لگا تھا ،وہ گردن کاٹے جانے سے پہلے فریاد کر رہی تھی کہ میں نے یہ کام نہیں کیا ہے ،کچھ اور فیلمیں بھی دکائی گئی ہیں جن میں آل سعود کی پولیس کو لوگوں کی نظروں کے سامنے عورتوں کو زمین پر گراتے ہوئے دکھایا گیا ہے سرگرم افراد مخفیانہ طور پر عام لوگوں کے سامنے شدت پسندی کے مناظر کی عکاسی کرتے ہیں ۔ان میں سے بعض مناظر میں عورتوں کو جارحیت کا مقابلہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے ۔مثال کے طور پر ایک فیلم میں عورتیں ان کے ساتھ چھیڑ خوانی کرنے والے افراد پر حملہ کر دیتی ہیں ۔

٭لوگ حکومت کے خلاف ویبلاگ پر لکھتے ہیں ،

سال ۲۰۱۲ میں سعودی عرب کے ایک ویبلاگ پر لکھنے والے نے اپنی ویبسایٹ پر آشکارا طور پر سعودی حکام اور وہابی مفتیوں کے روابط پر تنقید کی تھی اسی وجہ سے اس کو دس سال قید اور ایک ہزار کوڑے مارے جانے کی سزا دی گئی تھی ۔ اس نے اب تک کافی مہینے سعودی عرب کی ایک بدنام ترین جیل میں گذارے ہیں اور اس کے گھر والے اس کی آزادی کے لیے کوشش کر رہے ہیں ۔

٭لوگ مظاہرے کرتے ہیں ،

سال نو کا آغاز سعودی طرز عمل کی وجہ سے خون آلود ہو سکتا ہے ۔آل سعودکی حکومت نے جنوری ۲۰۱۶ میں دہشت گردی کے اعمال کے ارتکاب کے جرم میں ۴۷ افراد کو موت کی سزا دی تھی اتنے بڑے اجتماعی قتل عام کی سعودیہ کی تاریخ میں گذشتہ تین دہائیوں میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ ان میں سے ایک شیعہ عالم شیخ نمر النمر تھے جو شیعوں کے سال ۲۰۱۱ کے اعتراضات کا رہنما شمار ہوتا ہے ۔منتشر شدہ ویڈیو کی بنیاد بہار عربی کے آغاز کے دور میں جو مشرقی سعودی عرب میں مظاہرے ہوئے تھے ان میں شرکت کرنے کے جرم میں اس نامور عالم دین کو شہید کیا گیا ۔    

متعلقہ مضامین

Back to top button