مقالہ جات

بلوچستان سے ’’را‘‘ کے ایجنٹ کی گرفتاری

اداریہ : روزنامہ پاکستان

وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثنا اللہ زہری نے کہا ہے کہ کوئٹہ سے گرفتار ہونے والے بھارتی نیوی کے افسر بھوشن یادیو کو اسلام آباد منتقل کر دیا گیا ہے، ملزم کی گرفتاری اہم پیش رفت ہے اور اس گرفتاری پر سیکیورٹی فورسز مبارکباد کی مستحق ہیں، ملزم کمانڈر رینک کا افسر ہے اور چمن بارڈر کے قریب ’’را‘‘ کے لئے جاسوسی کرتا اور پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات، بلوچستان اور کراچی کی مُلک سے علیحدگی کی سازش کے مشن پر تھا۔ وہ کافی عرصے سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مقیم تھا اور اس کے دہشت گرد اور علیحدگی پسند تنظیموں سے قریبی روابط تھے۔ وہ دہشت گردوں کی مالی مدد اور انہیں ہر قسم کا اسلحہ فراہم کرتا تھا۔ اسلام آباد میں ملزم سے تفتیش کے دوران اہم انکشافات کی توقع ہے، نیز یہ بھی پتہ چلے گا کہ ملزم کے کن کن تنظیموں سے رابطے تھے اور وہ کس کس طرح اُن کی مدد کرتا تھا۔پاکستان کا دیرینہ موقف ہے کہ بلوچستان میں ’’را‘‘ کے ایجنٹ سرگرم عمل ہیں اور افغانستان میں بھارت نے پاکستان کے سرحدی علاقوں کے قریب جو قونصل خانے کھول رکھے ہیں وہ تخریب کاری کے لئے اپنے ایجنٹ پاکستان میں بھیجتے ہیں۔ بلوچستان حکومت کا بھی یہ موقف ہے کہ بلوچستان میں حالات کی خرابی میں ’’را‘‘ ملوث ہے، جس کے یہاں کے دہشت گردوں سے روابط ہیں اور بھارتی خفیہ ایجنسی اُن کے ذریعے پاکستان اور بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتی ہے۔ ’’را‘‘ کے جاسوس کی گرفتاری سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ بھارت بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی مدد کر رہا ہے، مذہبی فرقہ واریت اور دہشت گردی کی کارروائیاں کرا رہا ہے، بھارتی فوج کے حاضر سروس افسر کے بلوچستان سے پکڑے جانے سے ’’را‘‘ کے نیٹ ورک کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل ہوں گی جس کی وجہ سے نیٹ ورک تک رسائی ممکن ہے۔ بھارتی مداخلت کے ثبوت تو پہلے بھی موجود تھے اور بھارتی حکومت کو فراہم بھی کئے گئے تھے، لیکن اب حاضر سروس افسر کی گرفتاری سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے؟ بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے گزشتہ برس بھی کہا تھا کہ بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ اور ’’این ڈی ایس‘‘ کے بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں سے رابطے ہیں اور وہ انہیں فنڈز فراہم کر رہے ہیں۔مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ ’’را‘‘ کے ایجنٹ کی گرفتاری کا معاملہ بھارت کے ساتھ اُٹھایا جائے گا۔ اب اگر کسی بھی سطح پر مذاکرات ہوتے ہیں تو بھارت کے نیول افسر کی گرفتاری مرکزی نکتہ ہونی چاہئے۔31مارچ کو واشنگٹن میں عالمی نیو کلیئر کانفرنس کے موقع پر پاکستانی وزیراعظم نواز شریف اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ملاقات بھی ہو رہی ہے۔ یہ معاملہ دونوں رہنماؤں کی ملاقات کا بنیادی نکتہ ہونا چاہئے۔ کہا جاتا ہے کہ ’’را‘‘ کے ایجنٹ کے ذمے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاژ کرنا بھی تھا۔جب سے یہ منصوبہ منظرِ عام پر آیا ہے، بھارت اس کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ پاکستان میں اسے متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی تو وزیراعظم نریندر مودی نے یہ معاملہ چینی صدر شی چن پنگ کے ساتھ بھی اُٹھایا،جنہوں نے بھارت کے نام نہاد تحفظات مسترد کر دیئے اور اسے نہ صرف پاکستان اور چین کے لئے ایک بہترین منصوبہ قرار دیا، بلکہ خطے کے ملکوں کے وسیع تر مفاد کے لئے بھی سود مند بتایا، لیکن ایسے لگتا ہے بھارت نے اس منصوبے کو باقاعدہ سبوتاژ کرنے کی پلاننگ کر رکھی تھی، اِسی لئے اپنے نیوی کے ایک سینئر افسر کو اس کام کے لئے پاکستان میں متعین کیا گیا، جس کے ذمے دوسرے کاموں کے علاوہ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کی راہ میں روڑے اٹکانا بھی شامل تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ملزم بارہ مرتبہ پاکستان آ چکا اور سیکیورٹی کے ادارے آٹھ ماہ سے اس پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھے اور اس کی سرگرمیوں کی مانیٹرنگ کی جا رہی تھی۔بلوچستان سے’’را‘‘ کے ایجنٹ کی گرفتاری ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ’’را‘‘ کی فنڈنگ کے حوالے سے ایم کیو ایم کی قیادت پر بھی الزامات لگ رہے ہیں۔ پہلے یہ الزامات مخالفین لگاتے تھے، لیکن اب ایم کیو ایم کے وہ سینئر رہنما بھی الزام لگا رہے ہیں جو اعلیٰ قیادت کے بہت قریب رہے اور اُنہیں محرمِ راز ہائے درونِِ خانہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ حضرات مخالفین کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر مہر تصدیق ثبت کر رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ لندن میں قتل ہونے والے ڈاکٹر عمران فاروق کے گھر سے سکاٹ لینڈ یارڈ کے افسر دستاویزات کے جو پلندے اپنے ساتھ لے گئے، اُن میں تمام تر ثبوت موجود تھے، جنہیں تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں تھا۔ ملزم کی گرفتاری کے بعد یہ بہت ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستان میں ’’را‘‘ کے ایجنٹوں کے نیٹ ورک کا پوری طرح سراغ لگایا جائے اور جو لوگ بھی کسی نہ کسی انداز میں ’’را‘‘ سے متعلق رہے ہیں یا اب بھی ہیں، اُن کے متعلق پوری معلومات حاصل کر کے اِن ایجنٹوں کا خاتمہ کیا جائے۔بلوچستان میں جس طرح کی دہشت گردی طویل عرصے سے ہو رہی ہے اور ایران جانے یا وہاں سے واپس آنے والے زائرین کو جس طرح بسوں سے اُتار کر اور شناختی کارڈ دیکھ کر انہیں گولیاں ماری جا رہی ہیں، اس میں مقامی کالعدم تنظیموں کے ملوث ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ گرفتار ایجنٹ کے مذہبی تنظیموں سے بھی رابطے بتائے جاتے ہیں، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے کے لئے کیسے کیسے جال پھیلائے جا رہے تھے۔ فرقہ وارانہ دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات کوئٹہ شہر میں ہو رہے تھے، جن کا زیادہ تر ہدف ہزارہ قبائل کے لوگ تھے۔ ان وارداتوں سے پریشان ہو کر یہ لوگ شہر چھوڑ گئے اور جو لوگ وسائل رکھتے تھے وہ بیرون مُلک بھی منتقل ہو گئے۔ اب ’’را‘‘ کا ایجنٹ گرفتار ہوا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے جڑیں کتنی دور تک پھیلا رکھی تھیں اور اُن کے ذریعے طویل عرصے سے ایسی وارداتیں کی جا رہی تھیں۔ بلوچستان میں جس وسیع پیمانے پر دہشت گردی کی کارروائیاں ہو رہی تھیں، ان سے ان شبہات کو تقویت مل رہی تھی کہ کوئی وسیع نیٹ ورک یہ سب کارروائیاں منظم انداز میں کر رہا ہے۔’’را‘‘ کے ملوث ہونے کے شواہد بھی منظرِ عام پر آتے رہتے تھے، لیکن جس انداز میں بھارتی نیوی کا افسر اب گرفتار ہوا ہے، اس طرح کی کوئی گرفتاری شاید پہلی مرتبہ عمل میں آئی ہے، اِس لئے اب اِس تمام معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانا اور نیٹ ورک کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔ یہ کام اگر ادھورا چھوڑا گیا تو دہشت گردی سے نجات حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button