مقالہ جات

اوبامہ ڈاکٹرائن میں سعودی بادشاہت کا تذکرہ؟

سعودی، امریکی تعلقات میں کوئی بڑی تبدیلی تو واقع نہیں ہوئی، لیکن اب سعودی بادشاہت کی اہم شخصیات دنیا پر یہ باور کروانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ وہ امریکہ کے بغیر بھی خطے اور عالم اسلام میں بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ امریکی سعودی تعلقات میں بیان بازی کی حد تک الفاظ کی ایک جنگ کا آغاز ہوا ہے ’’اوبامہ ڈاکٹرائن‘‘ میں سعودی بادشاہت کے منفی تذکرے سے۔ ’’اوبامہ ڈاکٹرائن‘‘ ایک عنوان ہے امریکی صدر باراک اوبامہ کے اس انٹرویو کا جو ماہنامہ ’’دی اٹلانٹک‘‘ کے جیفری گولڈ برگ کو مختلف مراحل میں دیا گیا ہے۔ یہ جریدہ اپریل کے شمارہ میں اسے شائع کرے گا لیکن انٹرنیٹ ایڈیشن پر اس کی تفصیلات آچکی ہیں۔ اس انٹرویو میں نہ چاہتے ہوئے بھی بعض معاملات پر سچ ان کی زبان پر جاری ہوگیا اور ان کا جزوی سچ ان کے صرف ایک ہی اتحادی ملک کو کڑوا لگا، ورنہ انہوں نے اپنے نیٹو اتحادی ممالک اور خاص طور پر برطانیہ اور فرانس کی حکومتوں پر بھی تنقید کی، لیکن ردعمل صرف سعودی عرب کی جانب سے سامنے آیا۔ اوبامہ نے اتحادی ممالک کو free riders سے تشبیہ دی۔ اقتصادیات کی لغت میں فری رائیڈر کی تعریف یہ ہے کہ مجموعی وسائل میں دوسروں سے زیادہ حصہ لے لیکن مجموعی وسائل میں اپنے لازمی حصے سے بہت کم ادا کرے۔ مطلب بہت ہی سادہ و آسان ہے کہ امریکہ کے اتحادی ممالک چاہتے ہیں کہ جنگوں میں امریکہ تنہا سب کچھ کرے، یعنی اسی کا مرکزی کردار ہو اور انہیں کوئی نقصان نہ ہو اور بہت ہی کم حصہ ڈالیں۔

صدر اوبامہ نے اس انٹرویو میں مثال دی کہ لیبیا آج بھی تباہی سے دوچار ہے کیونکہ برطانیہ اور فرانس نے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ مشرق وسطٰی میں نیابتی جنگیں اور فرقہ واریت ہے کیونکہ سعودی عرب ایسا چاہتا ہے۔ امریکی صدر کے اس انٹرویو کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ لیبیا یا مشرق وسطٰی کے بعض ممالک میں جو غیر ملکی مداخلت کی گئی ہیں، ان میں قائدانہ کردار ادا کرنا یعنی عراق و افغانستان کی جنگوں کی طرح اپنی افواج وہاں بھیج دینا امریکہ کے مفاد میں نہیں ہے۔ ان کی نظر میں مداخلت کے باوجود لیبیا مشن ناکام رہا ہے۔ گو کہ انہوں نے بڑی خوبصورتی سے نیابتی جنگ میں اپنے کردار کو چھپا کر ایران اور سعودی عرب کا تذکرہ کیا ہے، لیکن ایران کے بارے میں ان کی رائے کی وجہ یہ ہے کہ ایران امریکہ کا اتحادی یا دوست نہیں ہے۔ ایران کو وہ اپنا دشمن اس لئے قرار دیتا ہے کہ ایران اپنی آزادی و خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا اور اس کی خارجہ پالیسی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر زور دیتی ہے، جس کا مقصد پورے فلسطین پر فلسطینی ریاست کا قیام ہے، جس کے نتیجے میں جعلی ریاست اسرائیل دنیا کے نقشے پر نہیں رہے گی۔

ایران امریکی حکومت کو صہیونیت کی سرپرستی اور دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی وجہ سے اسے شیطان بزرگ کہتا ہے اور ملت ایران نے امریکی سفارتخانے کے سامراجی کردار کو بے نقاب بھی کیا تھا، اس لئے امریکہ اور ایران کا ایک دوسرے کے بارے میں منفی بات کرنا قابل فہم بات ہے، لیکن اتحادی، دوست اور شراکت دار ممالک کا ایک دوسرے کے خلاف بات کرنا زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ سعودی عرب اور خلیج فارس کی دیگر عرب ریاستوں کے بارے میں صدر اوبامہ نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ وہ آگ لگا تو سکتے ہیں لیکن اسے بجھا نہیں سکتے۔ امریکی صدر نے کہا کہ آخرکار امریکہ ہی کو ان کا بدلہ لینے کے لئے میدان میں آنا پڑتا ہے جبکہ تاریخ یہ ہے کہ ایران، انڈونیشیا اور وسطی امریکی ممالک کو وہاں ماضی میں کی گئی امریکی مداخلت کی وجہ سے آج تک شکایت ہے۔

مزے کی بات یہ کہ برطانیہ و فرانس کی جانب سے ان کے بیان پر الفاظ کی کوئی جنگ نہیں چھڑی، لیکن سعودی عرب کے امریکہ میں سابق سفیر اور سابق سعودی انٹیلی جنس سربراہ اور آل سعود کی وہابی بادشاہت کے صہیونی عرب شہزادے ترکی ال فیصل کو اوبامہ کی سعودی عرب کے بارے میں حق گوئی بہت ہی بری لگی۔ حالانکہ حقیقت کو جزوی طور پر قبول کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ مکمل حقیقت یہ ہے کہ امریکی صدر اوبامہ نے سال 2009ء میں قاہرہ یونیورسٹی میں عالم اسلام اور عالم عرب کو مخاطب کرتے ہوئے ایک مفصل تقریر کی تھی۔ اس میں موصوف کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں اور عربوں کو یہ باور کروایا جائے کہ مشرق وسطٰی کے مسائل کا سبب اسرائیل نہیں۔ یعنی فلسطین پر قبضہ جما کر اس زیر تسلط علاقے کا نام اسرائیل رکھنے والی جعلی ریاست کی جعلسازی اور مظالم سے توجہ ہٹانا ان کا مقصد تھا۔ اس کے بعد امریکہ نے صہیونی ریاست کے مفاد میں نئے مشرق وسطٰی کے پرانے منصوبے کے دیگر مراحل کو جس کامیابی سے عمل کیا، یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج مسئلہ فلسطین کسی کو یاد نہیں اور جعلی ریاست اسرائیل کے مظالم سے توجہ ہٹانے میں سعودی بادشاہت کا قائدانہ کردار ہے۔

امریکہ نے ان عرب اتحادی ممالک کی مدد سے اسلامی بیداری کی تحریکوں کو ہائی جیک کیا۔ اخوان المسلمون کی مرسی حکومت کو ہٹا کر فوجی آمر جنرل سیسی کو برسر اقتدار لایا گیا، یعنی حسنی مبارک دور کی طرف مصر کو پلٹا دیا گیا۔ شام اور عراق میں سعودی عرب اور دیگر اتحادی ممالک کے ذریعے ان کے ہم مسلک تکفیریوں کے ذریعے دہشت گردی کروائی گئی۔ آج تک شام کو فلسطین کی مدد و حمایت سے روکنے کے لئے اس پر یکطرفہ جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ ان ساری سازشوں میں امریکہ اور سعودی عرب ایک دوسرے کے اتحادی رہے ہیں۔ اگر کسی کو شک ہے تو سابق امریکی وزرائے خارجہ کونڈو لیزا رائس اور ہیلری کلنٹن کی یادداشتوں پر مشتمل ان کی کتابیں ’’نو ہائیر آنر‘‘ اور’’ ہارڈ چوائسز‘‘ پڑھ لیں۔ مزید تفصیلات سابق امریکی وزرائے دفاع رابرٹ گیٹس اور لیون پنیٹا کی کتابیں "ڈیوٹی‘‘ اور ’’دی وردی فائٹس‘‘ پڑھ لیں کہ امریکی سعودی ملاقاتوں میں یا دیگر عرب اتحادی حکمران شخصیات سے ملاقاتوں میں پس پردہ کیا باتیں ہوتی تھیں۔

رہی سہی کسر سعودی عرب کے امریکہ میں سابق سفیر اور سابق سعودی انٹیلی جنس سربراہ شہزادہ ترکی ال فیصل نے ایک جوابی مقالہ لکھ کر پوری کردی کہ امریکہ پر سعودی احسانات کی مختصر فہرست بیان کر دی کہ سعودی عرب نے امریکی اقتصادیات کو مضبوط کیا اور شام میں لڑنے والوں کو سعودی عرب نے تربیت دی۔ انہوں نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ یمن میں سعودی عرب خود جنگ لڑسکتا ہے تو سوال یہ ہے کہ پھر آج تک فلسطین کی آزادی کی ایسی جنگ کیوں نہیں لڑی گئی۔ فلسطین کی جنگ آزادی کے لئے فلسطینیوں کو تربیت کیوں نہیں دی گئی؟ اور آج بھی حماس کی قیادت جلاوطنی پر کیوں مجبور ہے۔ سعودی عرب اور دیگر امریکی اتحادی ممالک کی خواہش پر حماس کی قیادت شام کی بجائے قطر میں قیام پذیر ہوچکی، لیکن تاحال فلسطین کی آزادی کے لئے ان کی تربیت نہیں کی جا رہی بلکہ انہیں بھی صہیونی وہابی امریکی جنگ کا ایندھن بننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

شام کے خلاف اقدامات سے نیتن یاہو خوش ہوتا ہے، اوبامہ ڈاکٹرائن میں اس کا تذکرہ موجود ہے۔ ترکی کے رجب طیب اردگان نے بھی اوبامہ کو مایوس کیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ آدمی جمہوریت پسند ہوگا، لیکن وہ مطلق العنان نکلا، وہ سمجھتے تھے کہ یہ مشرق و مغرب کے ممالک کو قریب لائے گا، پل کا کردار ادا کرے گا، لیکن اس میں بھی اس کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اوبامہ داعش کو جوکر کہتے ہیں اور داعش سے زیادہ بڑا خطرہ آب و ہوا یا موسمیاتی تبدیلی کو سمجھتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یوکرین روس کے پڑوس میں ہے اور روس اپنے پڑوس کے ممالک پر اثر و رسوخ استعمال ضرور کرے گا اور امریکہ اس کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا۔ انہوں نے مثال دی کہ سابق صدر بش کے دور میں افغانستان کے بعد عراق کی جنگ بھی زوروں پر تھی، لیکن تب روس نے جارجیا میں مداخلت کی تھی اور امریکہ اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکا تھا۔ انہوں نے اس حقیقت کا اعتراف بھی کیا کہ امریکی عوام کو شام میں مداخلت سے کوئی دلچسپی نہیں، جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل نے بھی شام جنگ میں امریکی اتحاد کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا، برطانوی پارلیمنٹ نے بھی اپنے وزیراعظم کی شام میں فوجی بھیجنے کی مخالفت کر دی تھی۔ اس لئے ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ شام پر جنگ سے باز رہیں کیونکہ شام پر جنگ کرنا جنگ نہ کرنے سے زیادہ امریکہ کے لئے نقصان دہ تھا۔

صدر اوبامہ نے ایک اور حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ واشنگٹن میں ایک خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ ہے، جس کی ایک پلے بک ہے اور وہ اسٹیبلشمنٹ ہر امریکی حکومت سے یہی چاہتی ہے کہ اس پلے بک کے اصولوں کے مطابق خارجہ پالیسی بنائے۔ اوبامہ نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ اس فارین پالیسی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے خلاف عمل کرتے رہے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ پلے بک کھیل کی اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں ٹیم کے کھیلنے کے گر اور حکمت عملی درج ہوتی ہے۔ اوبامہ کہتے ہیں کہ سعودی بادشاہت اپنی آدھی آبادی پر ظلم و ستم کر رہی ہے اور وہاں خواتین کے حقوق بھی پامال ہو رہے ہیں لیکن کیا وہ سعودی عرب کے خلاف کوئی قدم اٹھائیں گے کہ وہ ایسا نہ کرے، اس سوال کا جواب ہے ہرگز نہیں! اوبامہ اپنی صدارت کے آخری سال میں ہیں۔ نومبر میں اگلا صدر منتخب ہوگا جو جنوری 2017ء میں عہدہ سنبھال لے گا۔ اوبامہ نے امریکی مفاد میں فارین پالیسی اسٹیبلشمنٹ کو دبے الفاظ میں اپنی ناراضگی سے آگاہ کیا ہے اور تجویز دی ہے کہ امریکا مشرق وسطٰی پر وقت ضایع نہ کرے بلکہ ایشیا (یعنی مشرقی ایشیا) اور لاطینی امریکا کی طرف خارجہ پالیسی کو فوکس کرے۔ یعنی یہاں اس کے اتحادی ممالک اس کے دست نگر ہیں اور اسی کی مدد کے محتاج رہیں گے۔ انہوں نے ایشیا میں ویتنام کو امریکی فوجی اڈے پر راضی کرلیا ہے، تاکہ چین کے خلاف انہیں استعمال کرے۔

سعودی عرب تو خود صہیونی وہابیت کے شکنجے میں ہے اور اب وہابیت اور صہیونیت کے روابط خفیہ نہیں رہے۔ دونوں کے مابین دو طرفہ براہ راست تعلق نہ صرف یہ کہ استوار ہوچکا ہے بلکہ اس میں گرمجوشی بھی پائی جاتی ہے۔ ترکی ال فیصل ہی تھے جنہوں نے سابق صہیونی وزیر دفاع کے ساتھ ایک پروگرام میں حصہ لیا تھا، جس کے میزبان واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار ڈیوڈ اگناشس تھے۔ وہ جعلی ریاست اسرائیل کی اس کی سابق وزیر زیبی لیونی کی مدح سرائی کرچکے ہیں اور ساتھ ہی ایران، شام، حزب اللہ، حماس پر شدید تنقید بھی۔ جولائی 2014ء میں ان کی رائے تھی کہ حماس غزہ میں فلسطینی اموات کی ذمے دار ہے۔ حیف ہے کہ سعودی بادشاہت کھل کر صہیونی اسرائیلی موقف اپنا چکی ہے، لیکن ایک طبقہ اب بھی اسے خادم حرمین شریفین کی مقدس نقاب میں پیش کرنے پر مصر ہے، جبکہ سعودی عرب امریکی صہیونی ایجنڈا ہی کے تحت اسلام دشمن عرب دشمن خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ لہٰذا ترکی ال فیصل کا یہ مقالہ مسلمانان عالم اور عرب عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے تھا کہ وہ یہ سمجھیں کہ واقعاً سعودی عرب ایک آزاد و خود مختار اور طاقتور ملک ہے، جو امریکہ کو للکار رہا ہے اور اس سے ہٹ کر پالیسی بنا رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ شام پر موجودہ سعودی پالیسی امریکی و صہیونی ایجنڈا کے تابع ہی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button