پاکستان

ممتاز قادری پھانسی اور حقوق نسواں بل شیعہ جماعتوں کے موقف پر ملت میں تشویش

شیعیت نیوز: ملت جعفریہ پاکستان میں ممتاز قادری اور حقوق نسواں بل پر ملت جعفریہ کی قومی جماعتوں کے موقف پر شدید تشویش پائی جارہی ہےجسکا اظہار ملت جعفریہ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع کے ذریعہ کررہی ہے۔

اس حوالے سے کئی فورم پر ملت کی نمائندہ شخصیات کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے، سوشل میڈیا پر اس بات کا چرچا ہے کہ ملت جعفریہ اور جماعت اسلامی اور سراج الحق کی لونڈی نا بنایا جائے، انکا کہنا ہے کہ قومی تنظیموں کی جانب سے ممتاز قادری کی پھانسی کے معاملے پر واضح موقف نا دینا اور حقو ق نسوان بل معمالے پر تکفیری جماعتوں کی گود میں بیٹھ جاناسیاسی غلطی کے معتراد ف ہے۔

واضح رہے کہ پنجاب میں حقو ق نسواں بل معاملے پر جماعت اسلامی کی جانب سے منصورہ میں مذہبی جماعتوں کا اجلاس بلایا گیا تھا جس میں تکفیری اور کالعدم جماعتوں کے رہنماوں سمیت شیعہ قومی جماعتوں کے نمائندگاں نے بھی شرکت کی تھی جس میں حقوق نسواں بل کو مسترد کرتے ہوئے پنجاب حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے پاکستان کے معروف تجزیہ کار مظہر عباس عباس نے اپنے کالم میں لکھا کہ

چاہے آج کے پاکستان میں 1977 جیسی کوئی تحریک ممکن ہو یا نہ ہو تاہم یقینی طور پر پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) جیسا ایک اتحاد بننے کا امکان ہے اور مرکزی دھارے کی دو جماعتیں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام اصولی طور پر رضامند بھی ہوچکی ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے بقول اگر حکومت نے اپنا "لبرل ایجنڈا” جاری رکھا تو پی این اے کی طرح کی تحریک چلائی جائے گی۔ اب کیا اس طرح کی مہم کے نتائج بھی وہی برآمد ہوں گے جو 38 سال پہلے ہوئے تھے؟۔ یعنی ایک اور مارشل لاء۔

اصل حقیت بھی یہی ہے حق نسواں بل کی آڑ میں جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن سیاسی مقاصد حاصل کریں گے جس میں ملت جعفریہ کا کردادر سب سے اہم ہوگا لہذا بغیر سوچے سمھجے قدم اُٹھا مناسب نہیں اسکے لئے قوم کو اعتماد میں لینے کی بھی ضرورت ہے۔

دوسری جانب اس مذہبی جماعتوں کے اتحاد سے تکفیری کالعدم جماعتیں بھی فائدہ اُٹھا ئیں گی جنکی کمر آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کے تحت توڑی جاچکیں ہیں وہ اس تحریک کا حصہ بن کر خود کو مضبوط کرنے کی کوشیش کریں گی ، کیا منصورہ میں ہونے والا مذہبی جماعتوں کا اجتماع نیشنل ایکشن پلان کی اعلانیہ خلاف ورزی نہیں تھا جس میں کالعدم جماعتوں کے سربراہ مودعو تھے؟ کیا قومی جماعتیں ہمارے قاتلوں کے ساتھ شامل ہوکر اس نام نہاد مذہبی اتحاد کے چکر میں دیوبندیوں کے ہاتھوں استعمال تو نہیں ہوں گی؟ یہ تو جب پتہ چلے گا جب اس تحریک کا آغاز ہوگا۔

مظہر عباس  نے بھی اپنے کالم میں اس خدشہ کا اظہار کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی اور جے یو آئی صرف اینٹی لبرل ایجنڈے کےلیے نہیں بلکہ اپنے مخصوص ایجنڈے کے لئے اس صورت حال سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔ جماعت الدعوة اور جیش محمد جیسی جماعتیں مخمصے میں پڑ گئی ہیں، کیونکہ وہ ان جماعتوں میں شامل ہیں جو جمہوریت اور آئین پر یقین نہیں رکھتیں اور جمہوریت کو "مغربی تصور” قرار دیتی ہیں۔ لیکن، دوسری کالعدم تنظیموں کے ساتھ ساتھ وہ بھی اس تحریک کا ساتھ دیں گی کیونکہ آپریشن "ضرب عضب” اور نیشنل ایکشن پلان کی وجہ سے انہیں نقصان اٹھانا پڑا ہے .

ملت جعفریہ کا موقف ہمیشہ سے واضح  ہے کہ یہ مکتب شدت پسند ی کو قبول نہیں کرتا، ملت جعفریہ خواتین کے حقوق اور انکی آزادی کا قائل ہے لیکن آزادی کے نام پر امریکی لبرل و فحاشی و نگ و عار پر مبنی حقوق و معاشرے کے حامی بھی نہیں اور نا ہی سعودی عرب جیسے شدت پسند اور گھٹن زدہ ماحول کے قائل ہیں، خقوق نسواں کے حوالے سے قرآن و اہلیبت علیہ سلام کے واضح فرامین موجود ہیں جنکو اگر معاشرے میں رائج کردیا جائے تو کسی کی حق تلفی نا ہو،  لہذا ملت جعفریہ کی قومی تنظیموں کو چائیے کے حقوق نسواں اور ممتاز قادری کے نام پر دیوبندی اور کالعدم دہشتگردوں جماعتوں کی جانب سے حکومت کے خلاف کسی بھی پریشر گروپ کا حصہ بننے سے پہلے لاکھ بار سوچ لیں ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button