مقالہ جات

مغربی نظریہ، تاریخ کا اختتام اور نظریہ مہدویت

تحریر:سید محمد احسن

دنیا تنازعات کی تاریخ سے بھری پڑی ہے، حتیٰ کے انسانیت کی ابتداء ہی ایک تنازعے سے ہوئی جب ہابیل نے قابیل کو قتل کردیا، یوں انسانیت کا مقدر تنازعات کی بھٹ چڑھ گیا، تاریخ ابتداء سے یعنی بابا آدم سے لے کر آج کے اس ماڈرن زمانے میں جسے تاریخ کا سنہرا دور تصور کیا جاتا ہے انسانیت کے درمیان تنازعات کا کوئی مستقل حل نہیں دے پائی۔ ایسا نہیں کہ تنازعات کا حل نہیں بلکہ حل ہر دور میں موجود رہا اور آج بھی ہے مگر انسان اپنی نفسانی خواہشات اور حرس و طمع اور لالچ کے سبب اس حل سے منہ موڑتا رہا اور آج بھی موڑ رہا ہے۔ یہ انسان کے ہی ذاتی مفادات انسانوں کے درمیان سے بڑھ کر قبیلوں کی شکل میں تنازعات کو جنم دیتے ہیں۔ اس کائنات کو بنانے والے خدا نے انسان کو انہیں تنازعات سے نجات دلانے اور انسانیت سکھانے کے لئے اپنے مختلف پیغمبروں اور رسولوں کو ہدایت کے لئے بھیجا، لیکن یہ انسان پھر بھی باز نہ رہا اور یہاں تک کہ تاریخ بتاتی ہے کہ اسی انسان نے اپنے خدا کی جانب سے بھیجے گئے پیغمبروں تک کو قتل کر ڈالا، دنیا میں اب تک جتنی بھی تہذبیں اور ثقافتیں گزری ہیں ان کو بنانے والے عام اور نیک انسان تھے، یا بہت سی تہذیبں اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبروں اور رسولوں کی تعلیمات اور الہامی کتابوں کی تبلیغ کی صورت میں سامنے آئی ہیں، مثال کے طور پر یہودی، عیسائی اور اسلامی تہذیب وغیرہ پیغمبروں کی تبلیغ کی صورت میں سامنے آئیں، لہذا کیا حضرت عیسیٰ (ع) یا موسیٰ (ع) یا حضرت محمد مصطفیٰ (ص) نے اپنی تعلیمات میں ایک دوسرے کی تہذیب سے لڑنے اور اس کو ختم کرنے کی بات نہیں کی، لیکن جب ان کے بعد تہذیبوں کی قیادت انسان کے پاس آئی تو اس نے ذاتی مفادات اور اپنی خواہشات کے مطابق تہذیبوں، ثقافت اور مذاہب کے درمیان تنازعات کو جنم دینا شروع کردیا۔

انسانی تاریخ میں مختلف تہذیبں گذریں، کچھ ختم ہوگئیں اور کچھ ابھی بھی باقی ہیں، جن کی تاریخ کم از کم ہزار سال پرانی ضرور ہیں، گذشتہ صدی کے آخری عشرے میں امریکی اسکالر ہنٹگنٹن نے ایک کتاب تہذیبوں کے درمیان تصادم کے عنوان سے لکھی، جسے دنیا بھر میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی، چونکہ یہ وہ زمانہ تھا جب تازہ تازہ سرد جنگ میں امریکا فاتح بن کر دنیا کی واحد سپر پاور بن کر سامنے آیا، امریکا کے ہاتھوں سوویت یونین کی شکست کو بہت سارے اسکالرز نے آڑے ہاتھوں لیا اور بہت سوں نے تحفظات کا اظہار کیا، انہیں میں فرانس کے ایک اسکالر فوکویاما نے اینڈ آف ہسڑی کا نظریہ دیا اور کہا کہ سرد جنگ کے اختتام کے بعد تاریخ کا اختتام ہوگیا، اب دنیا میں کوئی اور نظام نافذ العمل نہیں سوائے لبرل ڈیموکریسی کے، یعنی ایک طرح فوکویاما نے مغربی تہذیب کو آفاقی تہذیب قرار دیا کہ اب دنیا کے ہر خطے میں مغریبی تہذیب کو قبول کرنا ہوگا، جس کا معاشی نظام سرمایہ داری، سیاسی نظام لبرل ڈیموکریسی اور سماجی نظام میں انسانی حقوق کے بین الاقومی چارٹر کی پاسداری ہوگی۔ فوکویاما کے اس نظریہ کو امریکی اسکالر ہنٹگنٹن نے مزید واضع کیا اور فوکویاما کے اس نظریے کی تائید کی کہ اب دنیا میں جنگ تہذیبوں کے درمیان ہوگی ناکہ نظریات کے درمیان، وہ کہتا ہے کہ جب ہم اپنی اس مغربی تہذیب کو پھیلائیں گے تو یقینا اس کی مخالفت ہوگی یہیں سے اس سے تصادم کا آغاز ہوگا۔

یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ آج مغربی تہذیب کو عیسائی تہذیب قرار دیا جاتا ہے، عیسائیت مغرب کا مذہب ضرور ہے لیکن مغربی تہذیب میں مذہب نام کی کسی چیز کی کوئی گنجائش نہیں، انکا مذہب سرمایہ داری ہے اور اسی نظام کو عالمگیریت کا مقام دینے کے لئے تہذیبوں کے تصادم کا ڈراما رچایا گیا لیکن تہذیبوں کے درمیاں ہونے والے تصادم سے آنکھ بھی پھیری نہیں جاسکتی، تصادم حق و باطل میں ہر دور میں موجود رہا ہے، وہ نظریہ کی بنیاد پر ہو یا تہذیب (نظریہ کی بالادستی) کی بنیاد پر عالمگیریت حاصل کرنے کے لئے ہو، یہ تصادم گراؤنڈ روٹس پر موجود تھا، رہا ہے اور رہے گا۔

تہذیت کا تعارف:
تہذیب سے مراد کسی خاص معاشرے کی معاشی، سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کا مجوعہ ہوتا ہے جس میں ثقافت، ربان، رہن سہن سب شامل ہوتا ہے۔ ہزاروں سال قبل حضرت موسیٰ (ع) کی تعلیمات اور ان پر نازل ہونے والی کتاب توریت پر ایمان لانے والے افراد نے ایک تہذیب اور تمدن کی بنیاد رکھی، اس تہذیب کی بنیاد چونکہ حضرت موسیٰ (ع) کی تعلیمات پر رکھی گئی اس وجہ سے ایک بہترین معاشرے کی صورت میں یہ تہذیب مانی جانے لگی، حضرت موسیٰ (ع) کے انتقال کے بعد اس تہذیب میں رد و بدل ہوئی لیکن آج بھی یہ تہذیب موجود ہے جیسے یہودی تہذیب کہتے ہیں، اسی طرح حضرت عیسیٰ (ع) کی پیدائش اور ان کی تعلیمات نے عیسائیت کی بنیاد رکھی، چونکہ حضرت عیسیٰ (ع) توریت اور زبور کی تعلیمات کا احیاء کرنے آئے تھے جسے یہودیت نے فراموش کردیا تھا اسی سبب ابتداء میں عیسائیت کی کوئی اجتماعی حیثیت نہ تھی، حضرت عیسیٰ (ع) کی غیبت کے بعد عیسائیت یہودیت کے ظلم و ستم کا شکار رہی، لیکن رومن شہنشایت کے عیسائیت کو قبول کرنے کے بعد عیسائیت کی تبلیغ کا موقع میسر آیا اور یوں رومن شہنشاہ کے دور حکومت میں مشرق اور یورپ میں عیسائیت نے اپنی تہذیب متعارف کروائی، یہ وہ دور تھا جب تہذیب کے درمیان باقائدہ منظم طور پر تصادم کا آغاز ہوا، یہودی تہذیب اور عیسائی تہذیب ہمیشہ ایک دوسرے کے مد مقابل رہے، یہ سلسلہ جاری رہا اور یہاں تک کہ ایک دور ایسا آیا جب اللہ نے اپنے آخری بنی حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کے ذریعے اسلام کو اس دنیا میں پھیلا دیا اور پھر ایک نئی تہذیب اسلام کی شکل میں دنیا کے سامنے آئی جس نے دیگر تمام مذاہب اور تہذبیوں کی غلط رسومات اور عقائد کی نفی کی اور ایک الہیٰ نظام متعارف کروایا۔

اسلام نے آکر عربوں کو ایک مہذب تمدن اور ثقافت سے روشناس کروایا، اللہ کے بنی (ص) نے یثرب (مدینہ) میں ایک اسلامی حکومت کو قائم کیا جس میں ہر طرف امن و امان، انصاف، بھائی چارگی اور قانون کا بول بالا تھا، ناصرف مسلمان بلکہ غیر مسلم اور دیگر مذاہب کے افراد بھی اس حکومت میں آرام و سکون سے زندگی بسر کر رہے تھے۔ اللہ کے رسول (ص) کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر، پھر حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی کا دور حکومت رہا جیسے خلافت راشدہ کے عنوان سے جانا مانا جاتا ہے، ان ادوار میں اسلام عرب سے نکل کر فارس سمیت دنیا کی دیگر سرحدوں تک پھیلا، اسکے بعد بنو امیہ اور بنی عباس کے دور خلافت، ایران میں صفویوں اور ہندوستان میں مغل شہنشاہوں کی حکومت میں اسلامی تہذیب ہندوستان سمیت یورپ میں بھی متعارف ہوئی، یہ اسلامی ثقافت اور تہذیب کی ترقی کا سنہرا دور تھا جس میں علم و فنون سمیت سیاسی حوالے سے اسلام اور اسلامی تہذیب پھیلتی جارہی تھی، اگر یوں کہا جائے کہ یہ اسلام کا نشاۃ ثانیہ کا دور تھا اور یورپ اس وقت جہالت کے دور سے گذر رہا تھا تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا، اور پھر جب یورپ کا عصر نشاۃ ثانیہ شروع ہوا تو اسلامی معاشرہ اور تہذیب رول بیک ہونا شروع ہوگئی، اسپین اور سسلی سے مسلمانوں کی حکومتوں کا خاتمہ، ہندوستان میں شہنشاہیت کا اختتام اور خلافت عثمانیہ کے زوال نے مسلمانوں کی عالمی حکومت کا خاتمہ کردیا۔

مسلمانوں کی ان عظیم حکومتوں کے خاتمے کے بعد مسلمان معاشرتی اور سیاسی طور پر زوال پذیر ہوتے چلے گئے، مغربی طاقتیں اپنے علم و فنون و ٹیکنالوجی کی بنیاد پر اسلامی ممالک پر قابض ہوئیں اور اسلامی تہذیب کو اپنی تہذیب میں بدلنے کی کوششوں کا آغاز ہوا، ثقافتی یلغار کے ذریعے مسلمان نوجوان اور بچوں تک اپنے نظریات پھیلانے کے لئے منظم جنگ کا آغاز کیا گیا جو ابھی بھی جاری ہے۔ یہ سلسلسہ ابھی جاری تھا کہ ایران میں ایک اور مسلمان شہنشاہیت کا خاتمہ ہوا لیکن اس شہنشاہیت کے خاتمہ نے مسلمانوں کو زوال پذیری سے نکال کر ایک نئی سوچ اور بیداری سے روشناس کروایا۔ انقلاب اسلامی ایران کے رونماء ہونے کے بعد اسلام کی عالمی حکومت اور مہدویت کے نظریہ کو اس طرح پیش کیا گیا جس نے دنیا بھر میں مسلمانوں کے اندر امید کو قائم کردیا، مسلمان ایک بار پھر اپنی تہذیب و ثقافت کو عالمی حیثیت دینے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کی عالمی حکومت کے قیام کی بات کرنے لگے۔

مہدویت مسلمانوں کا متفقہ نظریہ ہے، مسلمانوں کے تمام فرقے اس نظریے کے قائل ہیں، مسلمان امام مہدی (عج) کی مغرب اور دجالی طاقتوں سے ان کی لڑائی کے بعد ایک عالمی اسلامی حکومت کے قیام کے نظریے پر متفق ہیں۔ لیکن مسلمانوں کے دو بڑے گروہ شیعہ اور سنی ان کی پیدائش کے حوالے سے کچھ اختلاف رکھتے ہیں، سنی مسلمان کہتے ہیں کہ مہدی پیدا ہونگے اور پھر جوان ہوکر قیام کریں گے، جبکہ اسکے برعکس اہل تشیع مسلمان جو کہ مہدویت کے نظریے اور ان پر یقین میں شدت رکھتے ہیں، ان کا نظریہ ہے کہ امام مہدی (عج) کی ولادت 1200 سال قبل امام حسن عسکری (ع) کے ہاں ہوچکی ہے اور اپنے والد کی شہادت کے بعد چار سال کی عمر میں امامت کے درجہ پر فائز ہوئے، چونکہ اس وقت کی عباسی حکومت ان کی دشمن تھی، اسی سبب بحکم خدا وہ غیبت میں چلے گئے، جس میں پہلا مرحلہ غیبت صغریٰ کا ہے جس میں وہ اپنے شیعوں سے کچھ خاص نائیبن کے ذریعے رابطے میں تھے اور پھر اللہ کے حکم سے وہ ایک طویل مدت کے لئے وہ غیبت میں جاچکے ہیں اور جب اللہ کی مرضی ہوگی ظہور کریں گے۔ انقلاب اسلامی ایران کی بنیاد بھی اسی نظریہ مہدویت کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے، جس کی واضع مثال انقلاب اسلامی کے آئین کی یہ شق ہے کہ ایران کا اسلامی انقلاب و حکومت امام مہدی کی امانت ہے اور وہ جب ظہور کریں گے تو ان کو یہ امانت لوٹا دی جائے گی۔

اسی طرح انقلاب اسلامی کا سربراہ ایرانی صدر نہیں ہے بلکہ اس کی جگہ ولی فقیہہ ہے جو کہ امام مہدی (عج) کا نائب ہے۔ لہذا اگر مغربی تہذیب اپنے عالمی و آفاقی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے تو اس کا آج کے دور میں اگر کسی سے مقابلہ ہوگا تو وہ مہدویت کا نظریہ ہے، یہ نظریہ ایک مکمل اسلامی نظام و تہذیب ہے جس کا نفاذ امام مہدی (ع) کریں گے۔ دوسری جانب مغربی تہذیب ہے جس کا نظریہ ہے کہ دنیا میں لبرل ڈیموکرسی کا بول بالا ہو، ہیومن رائٹس کے عالمی چارٹر کی پاسداری ہو، فری مارکیٹ کی توسیع ہو، دوسری جانب نظریہ مہدویت اس مغربی نظریہ کا مخالف ہے، جس کی بنیاد پر یقیناً ان دونوں تہذیبوں کا آپس میں ٹکراؤ لازم ہے، کیونکہ نظریہ مہدویت نظریہ امامت ولایت ہے، امام یعنی سیاسی و مذہبی رہنما جو لوگوں کی طرف سے منتخب نہیں ہوا بلکہ اللہ کا منتخب کردہ ہے۔ یہاں لبرل ڈیموکریسی کا ٹکرؤ نظریہ مہدویت سے واضع ہے، اسی طرح معاشی و سماجی نظریہ بھی مغربی نظریہ سے قدر جدا ہیں۔ لہذا نظریہ مہدویت فرانس کے اسکالر فوکو یاما کی تھیوری ’ نظریہ کا اختتام ‘ کو بھی غلط ثابت کرتا ہے، کیونکہ نظریاتی ٹکراؤ تو ابھی ہمیں باقی نظر آرہا ہے اور دوسری جانب سیموئیل پی ہنٹگنٹن کا نظریہ تہذبیوں کا ٹکراؤ میں تہذبیوں کے بلاک کی درجہ بندی بھی غلط ثابت ہوجاتی ہے، کیونکہ جو عالمی حالات ہیں اس کے مطابق ایک بلاک ویسٹ کا ہوگا اور دوسرا مہدویت کا جس میں شیعہ سنی، عیسائی، مسلم غیر مسلم کا فرق نہیں ہوگا، اسی طرح مغربی تہذیب کے بلاک میں بھی کسی فرقہ رنگ و نسل میں امتیاز نا ہوگا، صرف اتفاق ہوگا تو نظریہ پر۔

متعلقہ مضامین

Back to top button