مقالہ جات

انقلاب اسلامی ایران ۔۔ جدوجہد و اثرات

11 فروری 1979ء کا دن دنیائے اسلام کیلئے ہمیشہ ناقابل فراموش و یادگار رہیگا، اس لئے کہ اس دن پاکستان کے برادر ہمسایہ ملک ایران میں اڑھائی ہزار سالہ بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور ملک میں امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب برپا ہوا، ایسا اسلامی انقلاب جسے برپا کرنے کیلئے اس سے قبل کئی اسلامی ممالک میں طویل جدوجہد کی جا رہی تھی۔ مصر میں اخوان المسلمون، پاکستان میں جماعت اسلامی اور دیگر کئی ممالک میں اس کا خواب دیکھنے والے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہے ،جوانیاں لٹاتے رہے، جیلوں میں جاتے رہے اور پھانسیوں کا پھندہ گلے لگاتے رہے۔ ایسا اسلامی انقلاب جس نے دنیا کا جغرافیہ و سیاست کو تبدیل کر دیا، جس نے مشرق و مغرب کے ایوانوں میں لرزہ طاری کر دیا، ایسا اسلامی انقلاب جس نے مایوس اور مرجھائے چہروں کو امید کی کرن دکھائی، جس نے سیاست عالم کے انداز ہی بدل ڈالے، جس نے استعمار جہاں کی سوچ و فکر اور سیاست پر کاری ضربیں لگائیں، ایسا انقلاب جو واقعی نبوی منھج اور علوی سنتوں کا احیاء کرنے والا تھا، ایسا انقلاب جو ایک سید، ایک مجتھد، ایک عالم، یک مبارز، ایک ولی خدا، ایک مجاھد، ایک عوام دوست، سیاست عالم سے آگاہ دینی و مذہبی رہنما کی قیادت و رہبری میں آیا۔
ہو جہاں پر جلوہ افگن ہر طرف نور کتاب
مرد مومن کا ہدف ہے جہان انقلاب

11 فروری 1979ء کو جیسے ہی ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہوا تو اس کو ناکام بنانے اور اسے نیست نابود کرنے کیلئے استعماری طاقتوں نے بھرپور سازشیں کرنا شروع کر دیں، جب کوئی نیا ملک معرض وجود میں آتا ہے تو اسے بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کچھ مشکلات تو فطری ہوتی ہیں اور بہت سی مشکلات کو پیدا کیا جاتا ہے۔ ایران میں بھی کچھ مشکلات فطری تھیں مگر بہت سی مشکلات کو استعمار اور اس کے حواریوں اور شاہ کے طرف داروں نے پیدا کیا۔ یہ کس قسم کی مشکلات تھیں اور ان کا مقابلہ کیسے کیا گیا، اس کا جاننا کسی بھی اسلامی تحریک کے کارکن کیلئے بے حد ضروری ہے۔ نوزائیدہ انقلاب کیلئے ایسی ایسی مشکلات کھڑی کی گئیں کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مسائل، مشکلات اور مصائب میں گھرے ایرانی عوام جنھوں نے انقلاب کیلئے بے پناہ قربانیاں دیں اور سنہرے خواب دیکھے تھے، خود ہی پھٹ پڑیں گے اور انقلاب خدا نخواستہ اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔ یہ رکاوٹیں اس لئے بھی کھڑی کی گئیں کہ انقلاب کی جڑیں مضبوط نہ ہوں۔ یہ رکاوٹیں کھڑی کرنے کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔

آج جب فائیو پلس ون کیساتھ ایران کے مذاکرات کامیاب ہوچکے ہیں۔ ایران ان بڑی طاقتوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوچکا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام بالکل پرامن اور انرجی کی ضروریات کو پورا کرنے اور سائنسی تحقیق کیلئے ہے، اس صورت حال میں بھی امریکہ و یورپ ایک طرف ایران سے پابندیاں ہٹا رہے ہیں اور دوسری طرف نئی پابندیاں لگائی بھی جا رہی ہیں۔ یہ بات آج بھی درست ثابت ہوئی ہے کہ ایران اسلامی پر پابندیوں کا اصل ہدف اسے ترقی و پیش رفت سے روکنا تھا، تاکہ مضبوط معیشت نہ بن سکے اور ہمیشہ عربوں کی طرح مغرب پر انحصار کرے، مگر اہل ایران کو سلام پیش کرنا چاہیئے کہ انہوں نے پابندیوں کو ایک نعمت کے طور ہر جانا اور خود کفالت پر توجہ دی۔ ساخت ایران کو متعارف کروایا، ایران پر پابندیوں کا مطلب بڑا واضح تھا کہ جو بھی کمپنی یا ملک اس سے تجارت کرے، کوئی چیز خریدے یا فروخت کرے، وہ بلیک لسٹ قرار پائے گا تو اس خوف اور سختی کی وجہ سے کوئی بھی ایران کے نزدیک آنے کیلئے تیار نہیں ہوتا تھا،  مگر اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ملک میں ہی اپنی ضروریات کی چیزیں بنانے کی طرح پڑ گئی اور اہل ایران پابندیوں کو در خور اعتنا نہ سمجھتے ہوئے بابصیرت قیادت و رہبری میں دھیرے دھرے آگے بڑھتے رہے۔ آخر شعب ابی طالب کے پروردہ تھے، ان پابندیوں سے نکل کے اپنے مکہ کو فتح کرنے میں کامیاب ہوئے اور وقت کے مشرکین مکہ کو بدترین شکست سے دوچار کیا۔

اقتصادی پابندیوں کے ساتھ ہی ایران اسلامی پر دوسری مشکل جس نے ایران کی رہی سہی معیشت کا بیڑا غرق کر دینا تھا، وہ اپنے ایجنٹ صدام کے ذریعے نوزائیدہ ایران پر جنگ مسلط کرنا تھا، یہ جنگ طویل ترین جنگ بن گئی، جو آٹھ سال تک لڑی گئی، آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ کا مقصد ایران کے اسلامی انقلاب کا خاتمہ اور اپنی کٹھ پتلی حکومت کو واپس لانا تھا۔ صدام جسے ستاون اسلامی و مغربی ممالک کی مدد و حمایت حاصل تھی، اس کے ذریعے انقلاب کو ختم کرنے اور تہران پر قابض ہونے کے خواب کیساتھ حملہ کیا گیا تھا، مگر ایرانی جوانوں جو واقعی بے دست و پا تھے، ان کی لازوال قربانیوں اور استقامت و جرات نے صدام کو اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے سے روکا، جب صدام نے ایران پر حملہ کیا تو ایران کی حالت قابل رحم تھی، اس کی افواج ختم ہوچکی تھیں اور پابندیوں کے باعث اس کو کوئی ملک خار دار تار دینے کیلئے بھی تیار نہیں تھا۔ اس کے باوجود ایران نے مسلسل آٹھ برس تک استعمار کے اس مہرے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور دفاع کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ دنیا کو حیرت میں مبتلا کر دیا۔ لاکھوں جوانوں کی قربانیاں دیکر اس اسلامی انقلاب کی حفاظت کی۔ بلا شبہ ان قربانیاں پیش کرنے والوں کا احسان عظیم ہے، ورنہ آج دنیا اسلام پسندوں کیلئے کس قدر پھیکی ہوتی، بہرحال یہ تصور ہی محال ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت امام خمینی کی رہبری کے باعث ہی دنیا کے مسلط کردہ فتنوں سے انقلاب کی حفاظت کی گئی۔ بقول اقبال رہ
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

انقلاب اسلامی کی راہ میں روڑے اٹکانے اور مشکلات کھڑی کرنے والی قوتوں نے صرف اقتصادی پابندیاں اور جنگ مسلط نہیں کی، اس سے بھی بڑھ کر کئی ایک منصوبے بنائے، تاکہ انقلاب ختم ہو جائے۔ اس میں سب سے خطرناک انقلاب کی قیادت و رہبری اور فکری ستونوں کو ٹارگٹ کرکے قتل کرنا بھی تھا۔ انقلاب کے سرخیل کئی مجتھدین کو گروہ منافقین کے ذریعے قتل کیا گیا، یہ ایک لمبی فہرست ہے، انقلاب کے فکری ستونوں کو قتل کرنے کا مقصد یہی تھا کہ اگر انقلاب لانے والی قیادت کو ختم کر دیا جائے تو انقلاب اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکے گا اور فکری بحران پیدا ہوجائے گا۔ تبدیل شدہ نظام سے لوگوں کی بہت زیادہ توقعات ہوتی ہیں، ان لوگوں کے نہ ہونے سے لوگوں کی توقعات پورا نہیں ہونگی تو لوگ خود ہی اس سے بیزار ہوجائیں گے۔ آپ دیکھیں کہ پوری پارلیمنٹ کو ہی اڑا دیا گیا، صدر، وزیراعظم اور بہتر اراکین پارلیمنٹ کو بم دھماکوں میں نشانہ بنایا گیا۔ ایک بحرانی کیفیت پیدا کی گئی، مگر امام خمینی کا خدا پر یقین اور عزم اس سب کے سامنے زیادہ طاقتور ثابت ہوا، امام خمینی نے اپنے قیمتی افراد کے چھن جانے پر بہت ہی دکھ کے ساتھ خود کو سنبھالا اور دشمن کو نامراد کیا۔ اسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ کربلا کا یہ سپاہی امام حسین ؑ کا حقیقی پیرو، اس قدر مضبوط ہے کہ اس خلا کو بھی پر کر دیگا۔ دنیا نے دیکھا کہ اس صدمے کے بعد بھی انقلاب اپنے پاؤں پر کھڑا رہا اور آگے بڑھتا رہا۔ اس کا پیغام رکنے والا تھا نہ رک سکا۔ تمام تر حربوں اور رکاوٹوں کے بعد یہ انقلاب بہتے پانی کی طرح اپنا راستہ بناتا گیا اور رکاوٹوں، مشکلات کے کہساروں کو روندتا چلا گیا۔

آج اگر فائیو+ون کیساتھ انقلاب اسلامی ایران نے مذاکرات کئے ہیں تو یہ امریکہ اور ان مغربی ملکوں کی خواہش تھی، ورنہ انقلاب اسلامی اپنے اصولوں پر کاربند ہے۔ اس نے اپنی روش کو ہرگز نہیں چھوڑا، نہ ہی اسے کسی دھمکی و دھونس کا شکار کیا جاسکا ہے۔ اصولی طور پر ان مذاکرات کے ذریعے ایران کو فتح ملی ہے۔ ایران اپنے اصولی موقف پر آج بھی قائم ہے، نہ تو اس نے مظلوم فلسطینیوں کے قاتل اسرائیل کے خلاف اپنی جارحانہ پالیسی تبدیل کی ہے اور نہ ہی ایران میں امریکہ مردہ باد کا نعرہ متروک ہوا ہے۔ آج بھی ایران ہی دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں و مظلوم قوتوں کا کھلا پشتبان ہے، اسے جھکایا نہیں جا سکا اور نہ ہی جھکایا جاسکے گا۔ لبنان، یمن، بحرین، نائیجیریا، حجاز مقدس، عراق، شام اور دیگر کئی ایک ممالک میں ایران کی حکمت عملی اور مظلوموں کی نصرت و مدد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ خود پاکستان میں ایران کے خلاف بڑے پیمانے پر سازشیں سامنے آئی ہیں اور حکمرانوں نے یہاں جمہوری اسلامی کے خلاف کام کرنے والے تکفیری گروہوں کو ہلا شیری دے کر ان سازشوں میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ لاہور میں آقائے صادق گنجی، ملتان میں خانہ فرہنگ کے ڈائریکٹر محمد علی رحیمی اور ان کے ساتھیوں پر قاتلانہ حملہ، کراچی میں ایرانی انجینئرز کا قتل، پشاور میں ایرانی قونصلیٹ کے ملازمین کا قتل اور اغوا، راولپنڈی میں ایرانی کیڈٹس کا قتل اور اسی طرح کئی ایک واقعات میں انقلاب کے فرزندوں کی قربانیاں لائق تقلید ہیں۔ انہی قربانیوں نے ہی اس انقلاب کو زندہ رکھا ہے اور اس کے پیغام کو دنیا بھر میں پھیلانے کا سبب بنی ہیں۔

بلا شبہ آج کی تاریک دنیا میں انقلاب اسلامی ہی وہ روشن و تابندہ مثال ہے, جس کی نورانی کرنوں سے اسلام حقیقی کا چہرہ نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جو پسے ہوئے مظلوم و مقہور عوام اور پابرہنہ اقوام کے دلوں کی دھڑکن ہے, جو ستم رسیدہ اقوام کیلئے نمونہ عمل ہے. انقلاب اسلامی ہی ہے جو آذادی خواہوں، حریت پسندوں، استعمار دشمنوں اور اسلام حقیقی کے پیروانوں کیلئے بطور کامیاب نمونہ و مثال موجود ہے. انقلاب اور اس کی قیادت ہی ہے جو مظلوموں کیلئے روشنی کا استعارہ ہے۔
نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے
آج اگر دیکھا جائے تو انقلاب اسلامی ایران ہی امت کی وحدت کا پرچم اٹھائے ہوئے ہے۔ باوجودیکہ ایران کو استعماری قوتوں نے فرقہ وارانہ انتشار و تفریق کا نشانہ بنایا ہوا ہے، ایران کو متعصبانہ رویوں اور سازشوں کا شکار کیا جاتا ہے، حالانکہ امام خمینی جو انقلاب کے بانی ہیں، نے ہمیشہ امت کے اتحاد کی بات کی ہے اور فرمایا ہے کہ جو شیعہ و سنی میں تفرقہ ڈالتا ہے، وہ شیعہ ہے نہ سنی بلکہ استعمار کا ایجنٹ ہے۔ موجودہ رہبر امام خامنہ ای نے بھی امت کے ا تحاد و وحدت کیلئے گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ ہر سال ان کی قیادت میں عالمی سطح پر کانفرنسز منعقد کی جاتی ہیں، جن میں تمام مکاتیب فکر کے چنیدہ علما و دانشور حضرات شریک ہوتے ہیں۔ بین التقریب المذاہب کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے فرقوں کو باہم بٹھایا جاتا ہے، تاکہ اختلافات کم ہوں اور باہمی محبتوں کو فروغ ملے، مسلمانوں کے درمیان وحدت کے فروغ کیلئے انقلاب اسلامی ایران کے بنیان گذار امام خمینی نے پیغمبر اکرم کی ولادت کی مناسبت سے ایام کو ہفتہ وحدت سے منسوب کیا، جو 12 تا 17 ربیع الاول کو دنیا بھر میں شان و شوکت سے منایا جاتا ہے، اس طرح مسلمانوں میں اخوت و بھائی چارہ کی فضا قائم ہوتی ہے۔

اسلامی انقلاب کو محدود کرنے اور اس کو اپنا محتاج رکھنے کیلئے اس کی ترقی کا ہر راستہ روکنے کی کوشش کی گئی، اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ آج ایران نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑا ہے بلکہ یہ بہت سے معاملات میں عالم اسلام کو آفر کرچکا ہے کہ اس کی ترقی اور پیش رفت سے وہ فائدہ اٹھائیں، جو کچھ ان کے پاس ہے وہ امت مسلمہ کیلئے حاضر ہے، سینتیس سالہ تمام تر پابندیوں کے باوجود ایران کی صنعتی ترقی، ایٹمی ٹیکنالوجی، ادویات اور طب کے شعبے میں پیش رفت، میزائل ٹیکنالوجی اور اسلحہ سازی، سائنسی علوم میں مقام، جنگی حکمت عملیاں اور دفاع کے اصول، سافٹ ویئرز و کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور دیگر کئی حوالوں سے ایران دنیا کے کئی ممالک کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایران اس وقت سائنسی علوم و ترقی میں دنیا کے دسویں نمبر پر آتا ہے، جہاں کلوننگ پر ریسرچ جاری ہے، یہ دنیا کا نواں ملک ہے، جس کی اپنی سپیس ٹیکنالوجی ہے اور خلا میں سیارہ بھیجنے کا ریکارڈ رکھتا ہے۔ ایران میں انقلاب سے قبل شرح خواندگی پینتیس فی صد تھی، جو آج ننانوے فیصد ہو چکی ہے۔ ایران میں جانے والے ٹورسٹ برملا اظہار کرتے ہیں کہ یہاں سڑکوں، میٹرو، ٹرانسپورٹ کی سہولیات کسی ترقی یافتہ ملک سے کم نہیں، یہاں صفائی ستھرائی اور دیگر سہولیات دیکھ کر مغربی ملک کا نقشہ سامنے آجاتا ہے۔

اس وقت اگر ہم ایران کی قوت و طاقت کا اندازہ لگانا چاہیں تو صرف اس ایک واقعہ سے ہی لگا لیں، جو حالیہ دنوں میں ایرانی پاسداران کی بحریہ نے سرانجام دیا ہے۔ جب ان مسلمانوں کے ازلی دشمن امریکہ کی جنگی کشتیاں ایرانی بحری سرحد میں داخل ہوئیں تو انہیں کس طرح ہینڈز اپ کیا گیا۔ ان کو قبضہ میں کرکے لایا گیا اور دنیا نے ویڈیوز میں دیکھا کہ امریکیوں کا غرور خاک میں مل چکا ہے۔ وہ امریکہ جو ملکوں کے قوانین تو کجا اقوام متحدہ کے قوانین کو پاؤں کی ٹھوکر سے پائمال کرتا ہے تو اسے کوئی پوچھنے کی جرات نہیں کرتا، اس سے جس انداز میں ایرانی سرحدی خلاف ورزی پر پوچھا گیا تو اس سے ایک طرف تو ان مغرور امریکیوں کی بزدلی اور کمزوری سامنے آئی ہے، دوسری طرف ایرانی قیادت و رہبری کی جرات و بہادری اور ایرانی جوانوں کی شجاعت و دلیری ثابت ہوئی ہے۔ ورنہ ہم تو اپنے ملک میں آئے روز امریکیوں کے ڈرون حملوں کا رونا روتے نظر آتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مغرور امریکی بیچ چوراہے میں ہمارے شہریوں کو قتل کرکے باعزت طریقے سے اپنے ملک چلے جاتے ہیں۔ ہماری قیادت، عدلیہ، افواج اور پارلیمنٹ کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اہل ایران نے اس سے قبل برطانوی سیلرز کو بھی اپنے سمندری حدود کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا تھا اور دس دن تک اپنے پاس رکھ کے معافی کے بعد جانے دیا تھا۔

یہ ہے ملی غیرت و حمیت اور جرا ت مند قیادت جو اس انقلاب نے دنیا کے سامنے پیش کی ہے۔ ملکوں کی ترقی کیلئے بابصیرت، شجاع، دلیر، آگاہ، سیاست دنیا سے آشنا اور مخلص قیادت کا ہونا ضروری ہے۔ انقلاب اسلامی کی قیادتوں اور فکری ستونوں کو اگرچہ استعماری سازش کے تحت شہید کر دیا گیا، مگر انہوں ایسے سپوت اس معاشرے اور سماج کو ضرور دیئے، جنہوں نے ان افکار کی امانت داری کا فرض خوب نبھایا اور حق کا علم جھکنے نہیں دیا۔ آج ایران انہی سپوتوں کی بدولت علاقے کی ایک ناقابل شکست طاقت بن چکا ہے۔ یہ اسٹرٹیجک پاور عالم اسلام کیلئے بالخصوص اور دنیا بھر کے مظلوموں کیلئے بالعموم امید کا روشن ستارہ کی طرح ہے، استعمار اور اس کے نمک خواروں نے اگرچہ ایک ہی وقت میں شام، یمن، بحرین، حجاز، عراق میں ایران کے خلاف محاذ کھڑے کرکے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، مگر دنیا دیکھ رہی ہے کہ ایران کی قوت میں اضافہ ہوا ہے۔ ایران ان محاذوں کی بدولت مضبوط ہوا ہے۔ اس کا اثر اس خطے میں کم نہیں ہوا بلکہ بڑھا ہے۔ ایران جس طرح آگے بڑھ رہا ہے اور اس پر سے پابندیاں اٹھائی جاچکی ہیں، اس کے منجمد اثاثے بحال ہوچکے ہیں اور ایرانی صدر یورپ میں جا کر معاہدے کر رہے ہیں، چائنہ چھ سو ارب ڈالر کے معاہدے کر گیا ہے، اس سے دنیا کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کو مستقبل کی ریجنل پاور و قوت اور مضبوط و مستحکم ایران صاف دکھائی دے رہا ہے۔ انشاءاللہ

متعلقہ مضامین

Back to top button