پاکستان

پاک افغان سرحد سیل اور دہشتگردوں کی فنڈنگ روکی جائے، پرویز خٹک

جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘میں خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی مخصوص معلومات میرے پاس نہیں آئیں، ہمارے پاس دہشتگرد حملوں کی عمومی معلومات تھیں جس کے بعد پشاور میں اسکول بند کر کے سرچ آپریشن کیا گیا،خیبرپختونخوا حکومت نے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو سیکیورٹی مضبوط بنانے کیلئے ایس او پی جاری کرچکی ہے، حکومت نے تعلیمی اداروں میں اسلحہ اور موبائل فراہم کیے جس کے ذریعے وہ کسی حملے کی فوری اطلاع دے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں تمام تعلیمی اداروں کو پولیس سیکیورٹی فراہم نہیں کرسکتے ہیں، صوبے میں 65ہزار تعلیمی ادارے ہیں جبکہ پولیس کی تعداد 70ہزار ہے، چارسدہ یونیورسٹی کے سیکیورٹی گارڈز کو داد دیتا ہوں جنہوں نے دہشتگردوں کواپنی جان پر کھیل کر روکا، حملے کے بعد بیس پچیس منٹ میں پولیس موقع پر پہنچ گئی تھی، پولیس اور سیکیورٹی گارڈز نے دو دہشتگردوں کو مار گرایا تھا، اگر یونیورسٹی میں سیکیورٹی موجود نہیں ہوتی تو نقصان زیادہ ہوسکتا تھا۔ پرویز خٹک نے بتایا کہ وائس چانسلر باچاخان یونیورسٹی نے آئی جی پولیس کو یونیورسٹی میں پولیس چوکی بنانے سے منع کیا تھا، وائس چانسلر کا خیال تھا کہ اگر پولیس چوکی پر حملہ ہوا تو لوگ سمجھیں گے یونیورسٹی پر حملہ ہوا ہے، پولیس کی موبائل گاڑیاں دن میں تین چار دفعہ یونیورسٹی کا چکر لگاتی تھیں، یونیورسٹی میں سیکیورٹی کے تقریباً 60افراد موجود تھے جنہوں نے دہشتگردوں کا بھرپور مقابلہ کیا۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا کہنا تھا کہ پاک افغان سرحد سیل اور دہشتگردوں کی فنڈنگ روکی جائے، شناختی دستاویز کے بغیر کسی کو پاکستان میں داخل نہ ہونے دیا جائے، قبائلی علاقوں میں خیبرپختونخوا حکومت کی رِٹ نہیں ہے، فوج نے آپریشن ضرب عضب کے بعد پاک افغان سرحد تقریباً سیل کردی ہے، پاکستان کو افغانستان سے دو ٹوک بات کرنی چاہئے کہ اگر افغان حکومت اپنی سرزمین سے پاکستان پر حملے نہیں روک سکتی تو کوئی اور راستہ نکالے۔ پرویز خٹک نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کو مل کر دہشتگردی کیخلاف لڑنا ہوگا، دونوں ممالک ایک دوسرے پر صرف الزام تراشی کرتے رہے تو دونوں کو نقصان ہوگا، تعلیمی اداروں پر حملوں سے ملک کا مستقبل تباہی کی طرف جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان سے کچھ عناصر انڈیا میں حملے کرتے ہیں تو ان کیخلاف کارروائی کی جائے اور پاکستان کے اندر حملوں میں انڈین مداخلت کا شبہ ہے تو انڈیا سے بھی دو ٹوک بات کی جائے، پاکستان کوپڑوسی ممالک کے ساتھ مل کر دہشتگردی کیخلاف حکمت عملی بنانی چاہئے، ڈی آئی خان جیل توڑنے کے ذمہ داروں کو سزائیں دی جاچکی ہیں۔پروگرام میں فہیم صدیقی اور امجد شعیب نے بھی اظہار خیال کیا۔بیوروچیف جیو نیوز کراچی فہیم صدیقی نے کہا کہ ڈاکٹر سلیم چوہدری قتل کیس میں کاشف خان کامران کا نام ان کی فیملی کو ایوان صدر سے ملنے والے مراسلے میں بھی سامنے آیا تھا، کاشف خان کامران کی میڈیا میں آنے والی تصویریں دیکھ کر دائود کالج کے اسٹاف نے اسے ڈاکٹر سلیم چوہدری قتل کیس کے ملزم کی حیثیت سے پہچانا، کاشف کامران کا 2005ء میں ڈاکٹر سلیم چوہدری سے کالج میں حلیم پکانے کی اجازت نہ ملنے پر جھگڑا ہوا تھا جس کے بعد ڈاکٹر سلیم چوہدری کو قتل کردیا گیا تھا، پولیس ریکارڈ کے مطابق 25مارچ 2005ء کو ڈاکٹر سلیم چوہدری کے قتل کے بعد کاشف خان کامران منظرعام سے غائب ہوگیا تھا جبکہ کالج ریکارڈ بتاتاہے کہ کاشف خان کامران 2007ء میں کالج سے پاس آئوٹ ہوا تھا۔ڈاکٹر سلیم چوہدری قتل کیس میں گورنر سندھ کے بھائی عامر العباد کی نامزدگی کے حوالے سے فہیم صدیقی نے بتایا کہ عامر العباد بھی دائود انجینئرنگ کالج کے سابق طالب علم ہیں، ڈاکٹر سلیم چوہدری نے کالج کے ایک لیکچرار کو ملازمت سے فارغ کردیا تھا، عامر العباد نے اس لیکچرار کو دوبارہ نوکری پر رکھنے کیلئے ڈاکٹر سلیم چوہدری کو این ای ڈی کالج کا وائس چانسلر بنوانے کی پیشکش کی تھی۔ دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ سید صلاح الدین کی طرف سے پٹھان کوٹ حملے کی ذمہ داری قبول کرنا بڑا ہی افسوسناک ہے، ان کی انہی حرکتوں کی وجہ سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچا ہے، جب ایک قوم نے مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو پھر دہشتگردی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ہے، جہاد کا فیصلہ صرف ریاست ہی کرسکتی ہے کوئی فرد انفرادی طور پر جہاد کا اعلان نہیں کرسکتا،اگر یہ دوسری جگہوں پر یہ حرکتیں کریں گے تو پھر عالمی برادری اورا نڈیا اس پر واویلا مچائے گا، پاکستان بھی ایسی کسی حرکت کے حق میں نہیں ہے، پاکستان کی واضح پالیسی ہے کہ ہم اپنی سرزمین کو کسی کیخلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، کمانڈر صلاح الدین جیسے لوگ بدمعاش عناصر ہیں جو کشمیر کے نام پر ہماری خارجہ پالیسی کیلئے مسائل پیدا کررہے ہیں، یہ کشمیر کا نام لے کر عوا م کے جذبے کو غلط راستے پر ڈال رہے ہیں، ہندوستان میں کسی ایک جگہ پر حملہ کر کے کشمیر آزاد نہیں کرایا جاسکتا ہے، اگر یہ لوگ یہ بات نہیں سمجھتے تو پھر ان کے خلاف طاقت استعمال کرنی چاہئے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button