مقالہ جات

جہل عــلم پر حملہ کرتا رہے گا۔۔۔درسگاہیں خوں میں غلطاں ہوتی رہیں گی

تحریر سید محمد احسن
20 جنوری پاکستان کی تاریخ کا ایک اور سیاہ ترین دن قرار دیا جائے گا، احتجاج ہوگا، موم بتیاں جلائی جائیں گی اور سیاست دان سیاست کریں گے، دہشتگردوں کے سہولت کاروں کی جانب سے اس دہشتگردی کی بھرپور مذمت کی جائے گی، مگر نہیں ہوگا تو ایک کام کہ وہ ان تکفیری تعلیم دشمن دہشتگردوں کے خلاف بالخصوص انکی جائے پناہوں کے خلاف آپریشن یا قانونی کاروائی نہیں کی جائے گی۔ ایسا ہی منظر ہمیں آرمی پبلک اسکول سانحہ کے بعد دیکھنے کو ملا، یقیناً اس سانحہ نے پوری قوم کو جھنجوڑ ڈالا کیونکہ جہل کے پیروکاروں نے علم کی شمع کو جس بے دردی سے بھجایا اسکی مثال ڈھونڈے نہیں ملتی، یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل بھی ان ابوجہل کے پیروکاروں نے علم کے شہر اور اس کے در سے وابسطہ چراغوں کو گل کیا ہے، آج کا چارسدہ یونیورسٹی کا سانحہ بھی اسی تناظر میں ہے۔ کیونکہ یہ ایک مائنڈ سیٹ کی جنگ ہے جس میں ایک طرف ابوجہل کا لشکر ہے جس کی صورت  طالبان، داعش اور القائدہ کی شکل میں ہمارے سامنے موجود  ہے جبکہ دوسری جانب شہر علم محمد مصظفیٰ ؐ کے پیروکار اور انکی امت ہے، ان کا ہدف سنت رسول ؐ کو زندہ کرنا ہے یعنی علم کی شمع جلا کر معاشرے سے جہالت کا خاتمہ کرنا ہے، لہذا تاریخ سے ثابت ہے کہ جہل کا یہ لشکر ہمشہ علم کی شمع کو بجھانے کی کوشش میں رہا ہے۔ لیکن مدعا یہ ہے کہ کیا ان جہل کے پیروکاروں کو ایسے ہی آزاد چھوڑ دیا جائے یا اِن کا مقابلہ کیا جائے؟ الحمداللہ پاکستانی قوم جہل کے اس لشکر سے برسر پیکار ہے لیکن سوال یہ ہےکہ دہائیوں سے ان دہشتگردوں کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ کا کوئی سود مند فائدہ کیوں نہیں ہورہا ہے؟

ملک خداداد پاکستان میں جہل کے پیروکاروں سے پاک افواج نبرد آزما ہے، اس مد میں آپریشن ضرب عضب شدت سے جاری ہے جس پر پوری قوم کو اعتماد ہے، لیکن پھر بھی دہشتگردی پر قابو پانے میں مشکلات ہیں اسکی وجہ دہشتگردی کے نتیجے میں بنے والے قوانین، قومی ایکشن پلان سے لے کر فوجی عدالتوں کی قانونی حیثیت کو سیاسی مفادات کی خاطر سیاست دانوں کی جانب سے قربان کیا جانا ہے، اس پر قوم کو شدید تحفظات بھی ہیں۔ ہمارے حکمران یہ گمان کئے بیٹھے ہیں کہ عوام بے وقوف ہے اور اُنہیں کچھ نظر نہیں آتا وہ جو چاہے فیصلے کرلیں عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں لیکن ایسا حقیقت میں بلکل نہیں ہے، عوام اپنے ملک کے حالات اور اسکے مفادت میں بنے والی ہر پالیسی کا باریک بینی سے مطالعہ کرتی ہے اور اپنی آزادانہ رائے کا اظہار کرتی ہے اور آج کے دور میں سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم ان کی آزادیِ رائے کا اہم وسیلہ ہے، جہاں پر قوم کی نفسیات اور رائے کا بخوبی مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

سانحہ آرمی پبلک ہو یا اعتزاز احسن کا جرات مندانہ اقدام یا کوئی اور سانحہ ہو جب بھی ان کی برسی کا موقع آتا ہے عوام اُن سے دلی وابستگی اور دہشتگردوں سے اظہار برائت اور تبرے کا اظہار کرتی ہے جو اس بات پر دلالت رکھتی ہے کہ پاکستان کی عوام علم اور درِ علم سے وابسطہ رہنا چاہتی ہے اور جہالت اور جہل کے لشکر سے بیزار ہے، جبکہ مزے کی بات یہ ہے کہ مجبوراً اب علم و تعلیم دشمن قوتوں کے سہولت کار بھی منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہل سے بیزاری کا اعلان تو کرتے ہیں لیکن اندورنی طور پر ان کی پشت پناہ ہیں، اسلام آباد میں بیٹھے مولوی عبدالعزیز جو سانحہ اے پی ایس کے دہشتگردوں کی مذمت تو کجا پاک فوج کے جوان جو اس جنگ میں شہید ہوئے اُنہیں شہید بھی نہیں سمھجتا جبکہ یہ صاحب داعش کی حمایت کا اعلانیہ حامی ہے ایسے شخص کی آزادانہ سرگرمیاں اور حکمرانوں کی اُس کو پشت پناہی اِسی منافقت کی ایک واضح دلیل ہے۔ اپنی بات واضح کرنے کے لئے لال مسجد کے خطیب کی ایک مثال پیش کی ورنہ ہزاروں دلیلیں موجود ہیں۔

یہی منافقت وہ بنیادی وجہ ہے کہ ان ابوجہلوں کے مقابلے میں آپریشن ضرب عضب، قومی ایکشن پلان اور دیگر قوانین بے سود ہیں۔ جب تک ایسے منافق سیاست دان، صحافی، مولوی یا مدارس یا کوئی فوجی ہی  کیوں نا ہوں اُن کے خلاف سختی نہیں برتی جائے گی اور پاک ملک کو اِن نا پاک لوگوں سے پاک نہیں کیا جائے گا یہ ابوجہل کا لشکر اسی طرح ہم پر حملہ آور رہے گا اور ۔۔۔۔

 جہل عــلم پر حملہ کرتا رہے گا۔۔۔درسگاہیں خوں میں غلطاں ہوتی رہیں گی

 

متعلقہ مضامین

Back to top button