مقالہ جات

داعش کا خطرہ… لاؤڈ اسپیکر…

تحریر: ڈاکڑ عامر لیاقت حسین
ترکی میں دھماکے، افغانستان میں پاکستانی قونصل خانے پر خودکش کارروائی، انڈونیشیا میں بموں سے حملے، اے آر وائی نیوز کے دفتر پر گرینیڈز کا پھینکا جانا…یہ تمام کارروائیاں’’داعش‘‘ یا اُن کی ’’گود لی ہوئی تنظیموں‘‘ کی اُن دیدہ دلیریوں کی ’’جھلکیاں‘‘ ہیںجنہیں کسی ہولناک منظر میں ڈھلتےاب اِس لئے دیر نہیں لگے گی کہ ہم اِن کے وجود سے مسلسل منکر اور کبوتروں کی طرح آنکھیں بند کیے ’’مذمتی غٹر غوں‘‘ سے کام چلا رہے ہیں…اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے احکامات کے بدترین دشمن اِن کی جرأتیں ہر گزرتے دِن کے ساتھ اِسی لئے بڑھ رہی ہیں کہ امت مسلمہ فرقوں، نسلوں، مسالک اور عقائد کی بحثوں میں اُلجھ کر ایک دوسرے کو دائرہ اسلام سے ’’خارج‘‘ قرار دینے میں اِس قدر مگن ہے کہ اُنہیں احساس تک نہیں ہوپارہا کہ پٹاری میں بند ’’انتہا پسندی کا سانپ‘‘ اُن کی ’’فرقہ وارانہ بین‘‘ کی دُھن پر آہستہ آہستہ اپنا پھن پٹاری سے باہر نکال رہا ہے تاکہ اپنے مہلک زہر سے ہر ایک کے مسلک کو ڈس کر ہلاک کردے…
قومی ایکشن پلان اپنی جگہ، دہشت گردوں کےخلاف فوجی کارروائیاں یقیناً قوم پر احسان… مگر پاکستان میں’’داعش‘‘ کے وُجود سے یکسر انکار اور اُس کے ’’ناپید‘‘ ہونے کے حق میںحقائق کو منہ چِڑاتی دلیلوں سے کس کو فائدہ پہنچ رہا ہے ؟آپ کے کہہ دینے سے کہ پاکستان میں داعش نہیں ہے تو کیاحقیقت بدل جائے گی؟ آج ایک چینل پر حملہ ہوا ہے تو کل جیو اور دیگر چینلز بھی نشانہ بن سکتے ہیں، آج افغانستان میں پاکستانی قونصل خانے پر اپنے آپ کو ’’بہترین مسلمان‘‘ قرار دینے والوں نے خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے تو کل پاکستان ہی میں نعشوں کا ڈھیر لگا کر یہ اُس کی ذمہ داری قبول کرنے سے بھی نہیں چوکیں گے…یہ وہ عفریت ہیں کہ جو اپنی ہی جنس کا لہو پی کر تسکین حاصل کرتے ہیں ، میں تو حیران ہوں کہ امریکہ کے صدر باراک اوباما کے منہ سے اِس قدر سچی بات کیسے نکل گئی کیونکہ یہ تو ایک راز تھا جسے ظاہر کرنا ہی نہیں چاہئے تھا، صدر ِ امریکہ فرماتے ہیں کہ ’’داعش یا القاعدہ سے امریکہ کوکوئی خطرہ نہیںلیکن پاکستان میں کئی دہائیوں تک عدم استحکام رہے گا‘‘… جناب! آپ نے بالکل درست کہا کیونکہ سیدناابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ ’’خوارج کا ایک عجیب معاملہ سامنے آتا ہے کہ جس وقت وہ کوفہ سے خلیفۃ المسلمین سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی مخالفت میں نکلے تو راستے میں ان کی ملاقات ایک مسلمان اور ایک کافر سے ہوئی اورانہوں نے کافر کوچھوڑ دیا مگر مسلمان کو مار ڈالا‘‘…اور یہ بات تو میرے سیدی ﷺ نے برسوں پہلے بتادی تھی کہ ’’خوارج بت پرستوں کوچھوڑدیں گے لیکن مسلمانوں کو قتل کریں گے‘‘… امام ابن الاثیر نے تحریر کیا ہےکہ ’’ ایک مرتبہ خوارج کے پاس سے ایک ذِمّی کا خنزیر گزرا تو اُن میں سے ایک خارجی نے اسے تلوار سے مار ڈالا…دیگر خوارج نےاِس عمل پر اُسے سخت ملامت کرتے ہوئے کہاکہ ’’یہ کام زمین میں فساد پھیلانے کے مترادف ہے‘‘…چنانچہ جب خنزیر کا مالک آیا تو اُس خارجی نے ہاتھ جوڑ کر خنزیر کے مالک سے معافی مانگی اور اُسے راضی کرنے کیلئے خنزیر کی منہ مانگی قیمت اُسے ادا کردی…اِسی دوران ان بدبختوںکی نظر حضرت عبد اللہ ابن خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ پرپڑی…اور اُنہیں دیکھتے ہی خوارج نے زمین پر اُنہیں چت لٹاکر ذبح کردیا…جب آپ کا خون پانی میں بہہ گیا تو وہ ظالم آپ کی زوجہ محترمہ کی طرف بڑھے…سیدنا خباب کی اہلیہ نے گڑگڑاتے ہوئے کہا کہ میں عورت ذات ہوں(اور حاملہ بھی ہوں)،کیا تم میرے معاملے میں اللہ سے نہیں ڈرتے ؟…جواباً خوارج نے رحم کرنے کے بجائے سیدنا خباب ؓ کی اہلیہ محترمہ کا پیٹ چاک کرڈالا اوراُن سے ہمدردی جتانے پرقبیلہ طے کی تین خواتین کو بھی بے دردی سے مارڈالا‘‘…اور کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ’’ اِن کا خروج لوگوں کے اختلاف کے وقت ہوگا‘‘…
آج ہم ایک دوسرے سے اختلاف ہی تو کررہے ہیں،قطع نظر اِس کے کہ ’’کلمہ طیبہ کا زبان سے وِرد‘‘ کبھی مسلمان ہونےکی علامت ہوا کرتا تھا، اب تو کلمہ گو کیلئے بھی یہ جانناضروری ہے کہ اُس کا ’’مسلک‘‘ کیا ہے ؟اور کیا صرف کلمہ پڑھ کرکہ اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں اور محمدﷺ اُس کے رسول ہیں‘‘کسی دوسرے مسلک کا خود ساختہ ناجی مسلمان اُسے مسلمان مان لینے پر تیار ہو جائے گا؟…لڑئیے خوب دل کھول کر لڑئیے ، ایک دوسرے کی گردنیں مارنے سے بالکل نہ ڈرئیے،اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے احکامات کو پسِ پشت (معاذ اللہ) ڈال کر اپنے اپنے ائمہ اور فقہا کی ’’شخصیت پرستی‘‘ میں جس قدر آگے نکلنا چاہتے ہیں نکل جائیے ، حالانکہ وہ درویش صفت ائمہ تو جانتے بھی نہیں تھے کہ آنے والے دور میں عداوت کی اینٹوں سے نفرت کی عمارت بنانے والے اُن ہی کے ناموں سے اپنی اپنی ’’کنسٹرکشن کمپنیاں‘‘ کھول لیں گے جہاں ’’جنت میں گھر کی بکنگ‘‘ کیلئے اللہ ، رسول ﷺ، روزِ آخرت اور اعمال صالحہ مقدم نہیں ٹھہریں گے بلکہ ائمہ کی تعریف، اُن کی پرستش اور اُن سے اختلاف پر ’’گستاخِ مسلک‘‘ کو ’’جماعت سے خارج‘‘ قرار دینا ہی ایمان کی بنیاد قرار پائے گا…یہ وہ عظیم ائمہ کرام تھے جنہوں نے میرے پیارے نبی ﷺ کی ایک ایک حدیث کی تصدیق کیلئے پوری حیات اسفار میں گزار دی اور جب تک سیدی مُرشدی ﷺ کے قول محترم و مقدس کی تصدیق نہ کرلی اُسے اپنی مُسندوں کا حصہ نہیں بنایا، یہ تو وہ پیارے تھے جنہوں نے کافر تو چھوڑئیے کسی کو فاجر و زندیق کہنے میں بھی کانپتی زبان کو ہمت نہیں دی بلکہ100میں سے ایمان کی ایک علامت کو 99برائیوں پر بھاری قرار دے کر ’’کافر قرار دئیے جانے کا باب ‘‘ ہی بند کر ڈالا …خود اذیتیں سہہ لیں، کوڑے کھالئے ، کھالیں اُدھڑوالیں ، قید و بند میں شہادتیں قبول کرلیں، طعن و تشنیع کے تیروں کی برسات کو اپنے اپنے نفوس پر گوارا کرلیا مگرصبر و تحمل اور جہالت پر خاموشی اختیار کر کے اُمت کو قریب کیا ، کس کو کسی سے دُور نہیں کیا…احادیث مقدسہ بیان کرنے سے پہلے جو 100 مرتبہ اپنی زبانوں کو درود کا وُضو کرائیں، منبرِ رسول کی طرف اشارہ کر کے یہ فرمائیں کہ ’’اِنہوں نے فرمایا ہے ‘‘ اور نام مصطفی ﷺ لیتے ہی جن کی آنکھوں سے آنسوؤں کے آبشار اُمڈ آئیں ، اللہ کی قسم! یہ اُن کی تعلیم نہیں کہ ہم اُن ہی کا نام لے کر دین کے نام لیواؤں کو ’’طریقے سے اختلاف‘‘ کی بنا پر خروج کا ٹھپہ لگانےمیں شیر ہوجائیں…
سنو! کافر کہنے میں شیر مت بنو بلکہ کافر کہنے والوں کیلئے شیر خدا کے رستے پر چلتے ہوئے نہروان کےوہ شیر بنو جنہوں نے خوارج کا نام و نشان تک مٹاڈالا تھا…سچ تو یہ ہے کہ جہاں بات بات پر ’’تم دین سے خارج ہوگئے ہو‘‘ کی گردان زور پکڑ لے وہاں دہشت گردوں کی افزائش خود بخود شروع ہوجاتی ہےاور یہ دہشت گرد حملہ نہیں کرتے بلکہ جھپٹا مار کے بھنبھوڑ ڈالتے ہیں…

متعلقہ مضامین

یہ بھی ملاحظہ کریں
Close
Back to top button