مقالہ جات

کربلا کے بوڑھے زائر میان بیوی کی کہانی، جنہیں جہاز سے اترار دیا گیا تھا

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اھل بیت ع کے مھمان
ایران ائير کے ایک کرو ممبر کا حقیقی واقعہ اسی کی زبانی

ایک دن صبح میں فلائٹ میں اپنی ڈیوٹی کے لیے امام خمینی ایئرپورٹ پہنچا۔ بھیڑ بہت زیادہ تھی، مسافر اپنے رشتہ داروں کو الوداع کر رہے تھے۔ سبھی خوش دکھائي دے رہے تھے۔ اسی بھیڑ میں میری نظر کچھ لوگوں پر پڑی جو سب سے زیادہ خوش دکھائي دے رہے تھے اور وہ سب بورڈنگ کارڈ ملنے کا انتظار کر رہے تھے۔ میں نے اس کاؤنٹر پر نصب مانیٹر پر دیکھا تو لکھا ہوا تھا، نجف۔

میں نے سوچا کہ کیا قسمت ہے، کاش میں بھی کچھ دن کے لیے زیارت کو جا پاتا۔ خیر میں اپنی ڈیوٹی پر پہنچا، جہاں مجھے فلائٹ میں آرمینیا جانا تھا۔ اچانک میرے افسر نے کہا کہ تمھاری فلائٹ بدل گئي ہے، تم نجف جاؤ۔

میں بہت خوش ہوا اور نجف کی فلائٹ میں سوار ہو گيا۔ ایک گھنٹے بعد ہم نے بورڈنگ شروع کی۔ سارے مسافر ہنسی خوشی جہاز میں آ کر اپنی اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ جہاز کا دروازہ بند ہونے ہی والا تھا کہ اچانک ائیرلائن کا ایک آفیسر گھبرایا ہوا آيا اور اس نے کہا کہ ان میں سے دو لوگوں کو اتارنا ہوگا۔ میں نے پوچھا: کیوں؟ اس نے کہا کہ ائیرلائن کے مینیجنگ ڈائرکٹر کے آفس سے فون آیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ائير لائن کے انتہائي اہم کام سے دو ملازموں کو نجف جانا ہوگا۔ ہم سب افسردہ ہو گئے کیوں کہ ہم جس سے بھی اترنے کو کہتے اس کا دل ٹوٹ جاتا۔ کچھ کیا بھی نہیں جا سکتا تھا کیونکہ مینیجنگ ڈائریکٹر کے آفس سے آرڈر آيا تھا۔

میں پائلٹ کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ اگر ممکن ہو تو کاک پٹ میں دو کرسیاں رکھ دی جائيں، جہاں ائيرلائن کے دونوں ملازم بیٹھ جائيں۔ پائلٹ نے سختی سے انکار کر دیا۔ آخرکار مسافروں کی لسٹ لائی گئي اور طے پایا کہ جو دو لوگ سب سے آخر میں پہنچے ہیں، انھیں اتار دیا جائے۔ وہ دو لوگ بوڑھے میاں بیوی تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب وہ جہاز سے اتر رہے تھے تو وہ کتنے دل شکستہ اور مایوس نظر آ رہے تھے۔

بہرحال ہوائي جہاز نجف کی سمت روانہ ہوا اور ایک گھنٹے اورکچھ منٹ بعد نجف کے اوپر پہنچ گيا …

ہم سب پائلٹ کی جانب سے ہوائي جہاز کی لینڈنگ کے اعلان کا انتظار کر رہے تھے لیکن اس کی طرف سے کوئي اعلان نہیں ہو رہا تھا اور ہم نجف کے اوپر ہی چکر لگا رہے تھے۔ آدھا گھنٹہ گزر گيا جس کے بعد پائلٹ نے کہا کہ ریت کے طوفان کے سبب ہم لینڈ نہیں کر پائيں گے اور ہمیں واپس امام خمینی ائيرپورٹ جانا ہوگا۔

ہم امام خمینی ائيرپورٹ واپس پہنچے، ہوائی جہاز کے دروازے کھلے۔ فلائٹ آفیسر کاک پٹ میں گيا اور واپسی کی وجہ پوچھی تو پائلٹ نے اسے پورا ماجرا بتایا۔ اس نے تعجب سے کہا کہ نجف ائيرپورٹ تو کھلا ہوا ہے، تمھارے بعد کئي فلائٹس وہاں لینڈ ہو چکی ہیں۔

میں نے سوچا کہ ضرور اس میں کوئي حکمت ہوگي۔ میں پائلٹ کے پاس گيا اور اس سے کہا کہ کیپٹن اب جب ہم خدا کی مرضی سے واپس آ گئے ہیں تو ان دونوں مسافروں کو لے چلتے ہیں، کاش آپ نے پہلے ہی کاک پٹ میں دو کرسیاں رکھنے کی اجازت دی ہوتی۔ اس نے فلائٹ کے سیکورٹی افسر کی طرف دیکھا اور مجھ سے کہا کہ کیا آپ سوچتے ہیں کہ ہماری واپسی کی وجہ یہ تھی؟ ٹھیک ہے ان کو بلا لائيے۔ میں بہت خوش ہوا اوردوڑ کر باہر نکلا اور قافلے کے سربراہ سے کہا کہ آپ کے پاس ان دونوں کا ٹیلی فون نمبر ہے۔ اس نے کہا کہ ہاں۔ میں نے کہا: فورا انھیں فون کر کے پوچھیے کہ وہ کہاں ہیں؟ خدا کر کے ابھی ائيرپورٹ پر ہی ہوں، انھیں فورا بلائيے۔

اس نے انھیں فون کیا اور اتفاق سے وہ لوگ ائیرپورٹ میں ہی تھے کیونکہ وہ بہت زیادہ تھک گئے تھے اور نمازخانے میں آرام کر رہے تھے۔ سب خوشی سے ان کا انتظا کرنے لگے۔ ہم نے دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت اور بوڑھا مرد بڑی خوشی سے چلے آ رہے ہیں۔ بڑھیا ہمارے سامنے پہنچی تو اس نے کہا کہ کیا تم لوگ یہ سوچتے ہو کہ ہمارا معاملہ تم لوگوں کے ہاتھ میں ہے؟ کیا تم نے یہ سوچا تھا کہ تم ہماری دعوت کو منسوخ کر سکتے ہو؟ ہماری آنکھیں اشکبار ہو گئیں اورہم نے ان سے معافی مانگي۔ میں نے کہا کہ اماں خدا کا شکر ہے کہ آپ لوگ گھر نہیں چلے گئے تھے۔ وہ بولی: ہماری جگہ تم ہوتے تو کیا گھر واپس چلے جاتے؟ کس منہ سے جاتے؟
(( اب غور سے سنیے کہ اس بوڑھی خاتون نے اپنا کیا ماجرا بیان کیا))

ہماری حالت اتنی زیادہ خراب تھی کہ ہم چل بھی نہیں پا رہے تھے۔ ہم نماز خانے میں چلے گئے کہ تھوڑا سا آرام کر لیں اور اس کے بعد گھر جائيں۔ نماز خانے میں میں نے کہا: اے امیرالمومنین! اے سیدالشہدا! اے اباالفضل العباس! آج آپ کے اتنے سارے مہمان تھے، کیا صرف ہم دو ہی بوجھ تھے؟ یہ کہہ کر میں رونے لگي اور مجھ پر نیند طاری ہو گئي۔ نیند اور بیداری کے عالم میں میں نے دیکھا کہ ایک جلیل القدر سید تشریف لائے اور کہنے لگے:
کیا تم لوگ کربلا نہیں جانا چاہتے تھے؟ بیٹھے ہوئے کیوں ہو؟
میں نے عرض کی: نہیں ہو پایا، ہمیں جہاز سے اتار دیا گيا۔
انھوں نے کہا: اٹھو اٹھو، اطمینان رکھو اور کربلا جاؤ۔
میں نے جیسے ہی آنکھ کھولی تو دیکھا کہ میرے شوہر کے موبائل کی گھنٹی بج رہی تھی اور آپ لوگوں نے ہمیں فلائٹ میں بلا لیا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button