مولوی عبد العزیز نے داعشی جیسی ‘تکفیری شریعت’ نافذ کرنے کا اعلان کردیا
وزارت داخلہ نے لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز کے خلاف کارروائی کا عندیہ دے دیا ہے ،وزارت داخلہ کے مطابق مولانا عبد العزیز کے خلاف کارروائی کے لیے فورسز کو بھی اجازت دے دی گئی ہے کہ دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے . جبکہ مولانا عبد العزیز کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت کارروائی کی جائے گی. وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ کسی کو بھی ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
تاہم آج جب مولوی عبدالعزیز کو گرفتار کرنے کے لئے پولیس لال مسجد ہنچی تو مسجد کے لاوڈ اسپیکر سے دھمکیوں پر مبنی بیانات دیئے جانے لگئے جبکہ سیکڑوں لال مسجد میں پرورش پانے والے مسلح طلبہ (دہشتگرد) بھی مدار س کےاطراف میں پہنچ گئے جس سے کشیدیگی پھیل گئی، تاہم پولیس مولوی عبد العزیز کو گرفتار کیئے بغیر واپس آگئی ۔بعد از اس سلسلے میں آج لال مسجد سے جامعہ حصفہ تک تکفیری شریعت کے نفاذ کے لئے ریلی بھی نکالی گئی جس میں ہزاروں مسلح افراد سمیت جامعہ حفصہ کی نقاب پوش عورتیں بھی شامل تھیں۔
اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ ۱۰ روز قبل اسلام آباد میں موجود کیپٹل پولیس نے امام حسین علیہ سلام کے جلوس عزاداری میں شریک نھتے عزاداروں پر دھاوا بول کر کئی کو گرفتار کرلیا تھا اور کئی پولیس کی ہوائی فائرنگ اور شیلنگ کے نتیجے میں زخمی ہوگئے تھے، مگر افسوس کے امام حسین علیہ سلام کی مظلومیت کے حق میں نکالے جانے والے جلوس عزا کو روکنے کے لئے شیر بنی اسلام آباد پولیس لال مسجد کے مسلح یزیدی دہشتگردوں کے سامنے بلی ہوگئی اور مولوی عبدالعزیز کو گرفتار کئے بغیر واپس چلی گئی۔کیا حکومت و اسلام آباد پولیس کا اسطرح دہشتگردوں اور عام و معصوم عوام کے ساتھ رویہ کھلا تضاد نہیں؟
دھیاں رہے کہ مولوی عبدالعزیز نے ۸ نومبر کو ملک میں داعش کے نظریات پر مبنی سسٹم نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا، جس پر مجبوراً حکومت نے حرکت میں آکر مولوی عبدالعزیز کے خلاف کاروائی کرنے کا اعلان کیا،ورنہ مولوی عبدالعزیز اسی اسلام آباد میں کئی سالوں سے قیام پذیر ہے جسکی اعلانیہ داعش کی حمایت کے بعد بھی نواز حکومت نے گرفتار نہیں کیا تھا یہاں تک کہ طالبان سے مذاکرات کے لئے بنائی جانے والی سرکاری کمیٹی میں نواز حکومت نے مولوی عبدالعزیز المعروف (برقع والی سرکار) کو بھی شامل کیا ہوا تھا۔