مقالہ جات

سعودی سلطنت میں ضمیر کے قیدی کو سزائے موت

عربستان نبوی ﷺ پر قابض سعودی بادشاہت نے عالم باعمل آیت اللہ شیخ باقر النمر کو جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی سزا سنا دی ہے۔ زندہ و بیدار، روشن ضمیر باقر النمر کو گولیاں مارکر زخمی کیا گیا، پھر پابند سلاسل رکھ کر تشدد کیا جاتا رہا اور آخر کار ضمیر کے اس قیدی کے لئے موت کی سزا کا اعلان کیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں حقوق انسانی کے اداروں تک مظلوموں کی فریاد پہنچا دی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے حقوق انسانی کو بھی خطوط لکھے گئے، دنیا بھر میں مظاہرے اور ریلیاں ہوئیں۔ سبھی کا مطالبہ تھا کہ اس سیاسی قیدی کو آزاد کر دیا جائے یا کم از کم سزائے موت نہ سنائی جائے، لیکن نہ تو انصاف کے تقاضے پورے کئے گئے، مظلوم کو ملزم اور پھر مجرم بنانے کے لئے سعودی بادشاہت کے پٹھو جج نے یکطرفہ خفیہ سماعتیں کرکے فیصلہ سنا دیا۔

سعودی بادشاہت نے آیت اللہ باقر النمر پر وہی گھسا پٹا الزام لگایا جو کہ تکفیری مکتب کی روایت رہی ہے، یعنی اپنے علاوہ ہر کسی کو کافر قرار دینا اور اس بھونڈے اور لغو الزام کے ساتھ دہشت گرد ہونے کاجھوٹا الزام بھی۔ آیت اللہ باقر النمر ایک شیعہ عالم دین ہیں اور پوری دنیا سعودی بادشاہت کے زیر تسلط علاقوں میں جاری تماشا دیکھ رہی ہے کہ شیعہ مسلمانوں کے علاقے کے تیل پر سعودی خاندان کا کنٹرول ہے اور یہ علاقے پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے بھی زیادہ پسماندہ اور حقوق سے محروم علاقے ہیں۔ صوبہ بلوچستان اور شیعہ نشین علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات کا موازنہ کرلیں، تب بھی حقائق سعودی بادشاہت کے جھوٹ کو بے نقاب کرتے ہیں۔ شیعہ نشین علاقوں میں تکفیری وہابی دہشت گرد آزادانہ دندناتے پھرتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں قتل و غارت گری کرتے ہیں اور جب چاہتے ہیں خودکش بمبار بن کر پھٹ جاتے ہیں۔

ان تکفیری وہابی دہشت گردوں کو پکڑنے اور سزا دینے کی بجائے مظلوم شیعہ مسلمانوں کے ہر دلعزیز رہنما آیت اللہ باقر النمر کی سزائے موت کو سعودی بادشاہ نے برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ عجیب ٹائمنگ ہے اس سعودی بادشاہی فیصلے کی کہ فلسطینی عوام تحریک انتفاضہ کے نئے فیصلہ کن مرحلے کا آغاز کرچکے ہیں اور صہیونی افواج نے ان کا قتل عام شروع کر دیا ہے، لیکن سعودی بادشاہت دین اسلام کے مخلص اور جانباز سپاہی آیت اللہ النمر کو زندگی سے محروم کرنا چاہتی ہے۔ سعودی بادشاہت تکفیری وہابی دہشت گردوں کو شام میں بشار الاسد کی آئینی عرب قوم پرست حکومت کے خلاف صف آرا کئے ہوئے اور یمن میں بنفس نفیس ان تکفیری وہابی دہشت گردوں کے ساتھ یمن کے غیرت مند عوام پر جنگ مسلط کئے ہوئے ہے۔ کیا یمن اور شام میں حزب اللہ اور انصار اللہ کے ہاتھوں تکفیریوں کی شکست کا بدلہ آیت اللہ النمر، ان کے خاندان اور مسلک سے لیا جا رہا ہے، یا ایران کی کامیابیوں کا غصہ اور دل کی بھڑاس ہے، جو اس سعودی بادشاہی فیصلے کا سبب بنی ہے، آخر اسے کیا نام دیا جائے!

یہ جو کچھ بھی ہے، اس سعودی بادشاہی فیصلے نے یہ حقیقت ایک اور مرتبہ دنیا کے سامنے آشکار کر دی ہے کہ دنیا میں انصاف نام کی کسی شے کا کوئی وجود نہیں۔ اقوام متحدہ اور نام نہاد عالمی برادری، حقوق انسانی کی تنظیمیں، ہمیشہ کی طرح خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ عالم اسلام کے غیرت مند افراد ایک طویل عرصے سے دیکھ رہے ہیں کہ عالم اسلام کے مظلوموں کے حق میں مذکورہ اداروں کا کوئی موثر اور فیصلہ کن کردار نظر نہیں آتا۔ صہیونیوں کا فلسطین پر قبضہ اور غزہ پر روزانہ کی بنیاد پر جنگ مسلط کرنا ہو یا کشمیر کو بھارت کی جانب سے زبردستی ایک صوبے کا درجہ دیا جانا ہو، اس کے خلاف کبھی کبھار کا زبانی جمع خرچ تو ریکارڈ کے لئے ہوجاتا ہے، لیکن مظلوموں کی داد رسی نہیں ہوپاتی۔ یہی صورتحال آیت اللہ النمر کو بھی درپیش ہے۔

نہ صرف یہ کہ آیت اللہ باقر النمر کی سزائے موت کو برقرار رکھا گیا ہے بلکہ ان کے ایک بھتیجے علی محمد النمر کو بھی اسی نوعیت کے جعلی مقدمہ میں پھنسا کر اسی قسم کی سزا سنائی گئی ہے اور حد تو یہ ہے کہ قیدی آیت اللہ کے بھائی محمد النمر کو بھی بغیر کسی مقدمے کے غیر قانونی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ سعودی بادشاہت کی جانب سے شیعہ نشین علاقوں کے حقوق پامال کرنا اور وہاں کے عوام کو ان کے مسلک سے تعلق کی بنیاد پر انتقامی کارروائی کا نشانہ بنانا، ایک ایسی پالیسی ہے جو سعودی بادشاہت کے اتحادیوں بالخصوص امریکا اور برطانیہ سے ڈھکی چھپی نہیں، لیکن سامراجی مفادات کی وجہ سے، سعودی تیل کی وجہ سے اور صہیونی ناجائز وجود کے تحفظ میں سعودی بادشاہت کے دوستانہ کردار کے سبب عالمی سامراج نے چپ سادھ رکھی ہے۔

حیرت انگیز حقیقت یہ بھی ہے کہ آل سعود کے بادشاہ اور شہزادے عیش و عشرت کے دلدادہ ہیں۔ مغربی ممالک میں جاکر وہاں جوا کھیلتے ہیں، شراب نوشی اور جنسی عیاشی کرتے ہیں، لیکن عالم اسلام میں انہیں حرمین شریفین کے خادم کا غلاف اس طرح اڑھا دیا جاتا ہے، جیسے وہ خود ہی حرمین شریفین ہیں، حالانکہ حرمین شریفین میں متعدد مقدس مقامات و مزارات کو مسمار بھی اسی سعودی بادشاہت اور تکفیری وہابیوں نے ہی کیا ہے۔ تازہ ترین خبریں یہ بھی ہیں کہ جنسی جرائم میں ملوث ایک سعودی شہزادے کو سعودی بادشاہت کی خدمات کے صلے میں اس مقدمے سے خارج کیا جا رہا ہے اور مزید تین خواتین فریادی ہیں کہ سعودی شہزادے نے بیورلی ہلز مینشن میں ان کے ساتھ زیادتی کی۔ شاہ فہد سے لے کر ترکی ال فیصل اور بندر بن سلطان تک اور موجودہ نسل تک عیاشی کا یہ سلسلہ جاری ہے، لیکن آل سعود کو پاکستان کا ایک مخصوص طبقہ مقدس گائے بناکر اس کی پوجا میں مصروف ہے۔

سعودی خیانتوں کے طویل سلسلے کی داستان کے لئے یہ تحریریں ناکافی ہیں۔ اس پر ضخیم کتابیں بھی لکھی جائیں تو کم ہیں۔ آیت اللہ النمر، ان کے خاندان کے افراد سمیت دیگر ہزاروں سیاسی مخالفین مدد کے منتظر ہیں۔ علی النمر کی عمر 2012ء میں سترہ برس تھی، جب قطیف میں بادشاہت مخالف مظاہرے سے اسے گرفتار کر لیا گیا اور مئی 2015ء میں اسے سزائے موت سنا دی گئی۔ یہ سبھی قیدی سعودی بادشاہت کے خلاف احتجاج کے جرم میں دہشت گرد اور کافر قرار دیئے گئے ہیں، اور اس سے بڑھ کر گھٹیا حرکت ہو نہیں سکتی کہ سیاسی مخالفین کو کافر یا دہشت گرد قرار دیا جائے۔ داعش اور القاعدہ سمیت سارے تکفیری گروہ اسی سعودی مسلک کے پیروکار ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا بھر میں سعودی بادشاہت میں پابند سلاسل ضمیر کے قیدیوں کی آزادی کے لئے مہم چلائی جائے۔ دنیا بھر میں مظاہرے ہوں، ان کے حق میں لکھا اور بولا جائے اور سوئے ہوئے نام نہاد عالمی ضمیر کو خواب غفلت سے بیدار کیا جائے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button