مقالہ جات

منی کا آنکھوں دیکھا حال

میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ اپنے کاروان والوں کے ساتھ اسی راستے سے گذر رہا تھا کہ اچانک لوگ رکنا شروع ہوگئے۔ درحقیقت آگے سے بھی دباو تھا اور پیچھے سے بھی لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا تھا۔اور دائیں اور بائیں بھی باہر نکلنے کا امکان نہیں تھا۔

یہ لوگ کوشش کررہے تھے کہ کسی طرح اس صورتحال سے باہر نکلیں۔تقریبا آدھا یا پونا گھنٹا یہی صورتحال رہی۔

لوگوں کا دم گھٹنا شروع ہوگیا۔ جو لوگ توانائی رکھتے تھے وہ سیڑھیوں کی مدد سے باہر نکلنےمیں کامیاب ہوگئے۔

لیکن جو لوگ وہاں رہ گئے وہ تو باہرہی نہیں نکل پائے۔ اتنا زیادہ ایک دوسرے سے چپکتے چلے گئے کہ پھر سانس لینا محال ہوگیا۔

وہاں پر ہم نے دیکھا کہ لوگ ایک ایک کر کے سوکھے پتوں کی طرح نیچے گرتے چلے گئے۔جو لوگ بوڑھے اور ناتوان تھے وہ لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اور جن کی توانائی ختم ہوگئی وہ پیروں تلے روندے گئے۔تقریبا ایک گھنٹہ یہی سلسلہ جاری رہا، گرمی اور پیاس کی شدت اور دبائو کی وجہ سے یہ سانحہ پیش آیا۔لوگوں کی ایک بڑی تعداد روندی گئي، ہم لوگ بھی چونکہ توانائی رکھتے تھے صرف چالیس پینتالیس منٹ تک اپنے آپ کو سنبھال پائے۔

پہلے میرے ہاتھوں پیروں نے کام کرنا چھوڑا دیا اس کے بعد میں نے محسوس کیا کہ میری آنکھیں بند ہورہی ہیں۔

دو تین مرتبہ گر کر اٹھنے میں کامیاب بھی ہو گیا لیکن اسکے بعد پھر میں اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکا۔

اور میں بھی وہیں گر گیا جہاں جنازوں کا انبار لگا ہوا تھا، میں تھا میرے کچھ دوست تھے، دو تین ایرانی، ایک دو مغربی ملکوں کے لوگ، اور باقی افریقی ممالک کے افراد تھا، ہم اپنے ہاتھ پیر چلا رہے تھے کہ کسی طرح اپنے آُپ کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں،

ہم یا اللہ یا رسول اللہ پکار رہے تھے، یا اباالفضل یا حسین پکار رہے تھے، یا امام زمانہ ادرکنی کہہ رہے تھے، لیکن گرمی کی شدت، پانی نہ ہونا، کسی کا مدد کو نہ پہنچنا، یہ تمام چیزیں باعث بنیں کہ بہت زیادہ جانی نقصان ہوا، میری آنکھوں کے سامنے چند لوگ انتقال کر گئے لیکن ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے۔

تھوڑا بہت پانی جو ہمیں ملا ہم نے ان لوگوں کو پلایا تاکہ انکی جان بچ جائے۔

میں جب تھوڑا سا حواس میں آیا تو میں نے دیکھا کہ ایک جم غفیر پیچھے سے آرہا ہے۔

پھر میں نے آگے کی طرف دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک لمبی چوڑی سیڑھی جو کہ کافی بھاری تھی اوپر سے لوگوں پر گر گئی ہے اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس کے نیچے دب گئی ہے۔

بس مجھے وہیں احساس ہوگیا کہ اب زندہ بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے اب زندگی ختم ہونے والی ہے۔

میں نے اپنے ایرانی دوست کو کہ جو میرے ساتھ تھا اسکو کہا کہ اگرمیں گر گیا تو بس یہیں کہیں ملوں گا۔

ہم نے شہادتین پڑھی اور یا اباالفضل اور یاحسین کہا۔

کیونکہ ہمیں یقین ہو گیا تھا کہ اب زندہ نہیں بچ پائیں گے۔ وہاں پر جاں بحق ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد تھی۔

یا وہ لوگ تھے کہ جو نزع کے عالم میں تھے اور مرنے کے قریب تھے، نہ پانی تھا نہ ہی کوئی مدد، اور اس سیڑھی کے گرنے کی وجہ سے تو ہم اور زیادہ نا امید ہوگئے تھے۔

اس لمحے میں نے دیکھا کہ دو پولیس والے سامنے سے آرہے ہیں۔ اور انہی دونوں نے وہاں راستہ کھولا، ہم نے احساس کیا کہ اب کھڑا ہوجاسکتا ہے۔

ہم اصل جگہ سے تین سو میٹر دور تھے لیکن میں نے محسوس کیا کہ ہم سے سو دو سو میٹر آگے بہت زیادہ لوگ مارے اور پیروں تلے روندے گئے ہیں۔

ایک اور عینی شاہد

میں اپنے دوستوں کے ساتھ رمی جمرات کے لئے جا رہا تھا تاکہ ہم رمی کا فریضہ انجام دیں۔

جس راستے سے ہم جارہے تھے وہ ایک بالکل باریک راستہ تھا اور وہاں پر جو ازدہام تھا جو اس راستے سے گذرنا چاہ رہا تو بہت زیادہ تھا یعنی اس راستے سے گذر ہی نہیں سکتا تھا۔

اور جیسے ہی ہم اس راستے میں داخل ہوئے اتنا زیادہ رش تھا اور اتنے زیادہ لوگ تھے کہ چلنے کی جگہ بھی نہیں مل رہی تھی

جیسے جیسے آگے بڑھتے جارہے تھے ازدہام میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔

اور لوگ پہلے سے زیادہ ایک دوسرے سے چپک چپک کر چل رہے تھے۔

ایسا لگ رہا تھا کہ رمی کی جگہ کو جو پل کے نیچے کی جگہ ہے اسکو سعودی حکومت نے بند کیا ہوا تھا۔اور آگے موجود افراد واپس پلٹنا چاہ رہے تھے۔

اس راستے میں جو پیچھے سے نئے افراد داخل ہوئے انہوں نے پیچھے سے دھکا دینا شروع کیا۔

اور آگے اور پیچھے سے دھکا لگنے اور دبا ؤ پڑنے کی وجہ سے بیچ میں موجود افراد پھنس کر رہ گئے۔

دھکا لگتا رہا، دباو پڑتا رہا اور تقریبا 15- 20 منٹ تک ایسے ہی چلتا رہا۔ لوگ ایک دوسرے کو دھکا دینے لگے، اور اس دواران بعض افراد ہمت ہار گئے، بعض وفات پا گئے، بعض پیروں تلے روندے گئے، جن میں تھوڑا حوصلہ تھا انہوں نے دیواروں کا سہارا لے کر باہر نکلنے کی کوشش کی،

بہت وحشتناک منظر تھا

میں اپنے دوستوں کے ساتھ تھا دو تین دوست میرے ساتھ تھے لیکن اتنا زیادہ رش تھا کہ ہم بھی ایک جگہ ایک دوسرے سے الگ ہوگئے۔

اچانک میں نے دیکھا کہ ایک راستہ کھولا گیا ہے تو میں دیوار کے پاس پہنچا اور سیڑھیوں کی مدد سے اوپر پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔

بس اس کے بعد میں بے ہوش ہو گیا اور پھر مجھے نہیں معلوم کیا ہوا۔

ایک افریقی شہری میرے پاس آیا اس نے میرے چہرے پر پانی کا چھڑکائو کیا اور مجھے آواز دی اور اٹھنے میں مدد کی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button