پاکستان

جنوبی پنجاب :داعش سے ہمدردی رکھنے والی فرقہ وارانہ تنظیموں کیخلاف بڑے آپریشن کی تیاریاں

وفاقی حکومت نیشنل ایکشن پلان کے تحت جنوبی پنجاب میں دہشت گرد اور بالخصوص فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف بڑے آپریشن کی تیاریاں کر رہی ہے۔ سینئر حکومتی عہدیدار نے میڈیا کو بتایا کہ جنوبی پنجاب میں اس آپریشن کو وسعت دینے اور اسے مزید موثر بنانے کا فیصلہ گزشتہ مہینے ہونے والے اعلی ترین سول و فوجی حکام کے اجلاس میں کیا گیا۔ اپنے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس عہدیدار نے آپریشن کی تفصیلات یہ کہہ کر نہیں بتائیں کہ اس سے حکومتی منصوبے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

جنوبی پنجاب میں فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ انٹیلی جنس رپورٹوں کے بعد کیا گیا جن میں وارننگ دی گئی تھی کہ یہ علاقہ داعش جیسے گروپوں کی طاقتور نرسری بن سکتا ہے۔ رحیم یار خان، جھنگ، چنیوٹ، ڈیرہ غازیخان اور بہاولپور کے علاقے ان فرقہ وارانہ تنظیموں کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں جو نظریاتی طور پر داعش سے متاثر ہیں۔ سینئر حکومتی عہدیدار نے کہا کہ سکیورٹی ایجنسیوں نے حال ہی میں درجنوں ایسے مشتبہ افراد کو حراست میں لیا ہے جو ممکنہ طور پر داعش کیلیے نوجوانوں کو بھرتی کر رہے تھے۔

پاکستان اگرچہ اپنی سرزمین پر داعش کی موجودگی سے انکار کرتا ہے تاہم وہ یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ دہشت گرد گروپوں کے خطرے اور دھمکیوں سے غافل نہیں رہا جا سکتا۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی اپنے حالیہ دورہ برطانیہ میں علاقے میں نئے دہشت گرد گروپوں کے قیام اور داعش کی طرف سے اپنے قدم جمانے کے خطرے سے آگاہ کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان ان تمام خطرات سے آگاہ ہے اور ملک میں کسی نئے گروپ کو ابھرنے کی اجازت نہیں دے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ سکیورٹی ایجنسیوں نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ جنوبی پنجاب ایسا طاقتور خطہ ہو سکتا ہے جہاں داعش کو مدد مل سکتی ہے اور اسی وجہ سے حکومت نے یہاں فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف تمام اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس آپریشن کے تناظر میں ہزاروں مدرسوں کی گذشتہ چند مہینے سے کڑی نگرانی کی جا رہی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق 2 ہزار میں سے 7 ہزار مدرسے جنوبی پنجاب میں واقع ہیں اور ان میں سے اکثر کے بارے میں خیال کیا جاتاہے کہ ان کو عرب ممالک سے فنڈز ملتے ہیں۔

حکومت مدرسوں کے تخریبی کارروائیوں میں ملوث نہ ہونے کو یقینی بنانے کے حوالے سے پہلے ہی نئی پالیسی کا خاکہ بنا چکی ہے۔ اسی تناظر میں گزشتہ چند ماہ کے دوران جنوبی پنجاب میں فرقہ وارانہ تشدد اور منافرت کو ہوا دینے والے چند مدرسوں کو بند کیا جا چکا ہے۔ فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف یہ آپریشن پاکستان کی پالیسی میں بڑی تبدیلی ہے کیونکہ ماضی میں ان کے خلاف کارروائی سے احتراز برتا جاتا رہا ہے۔

کالعدم لشکر جھنگوی کے اہم ترین رہنما ملک اسحاق کی پولیس مقابلے میں ہلاکت بھی ممکنہ طور پر فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف حکومتی پالیسی میں تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔ فوجی عدالتوں نے بھی پہلی مرتبہ اہل تشیع مکتبہ فکر کے افراد کی ہلاکت میں ملوث دہشت گردوں کو سزائیں سنائیں۔ حکومتی عہدیدار نے کہا کہ آنیوالے ہفتوں میں آپ اس حوالے سے مزید ایکشن دیکھیں گے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button