پاکستان

کراچی میں طالبان کے زیر اثر’نو گوزونز ‘ آزاد کرا لئے گئے

کراچی میں طالبان کے زیر اثر (طالبانائزڈ) علاقوں میں سے ایک علاقے کی بالکل اندرونی گلیوںمیں کھلے عام گھومتے ہوئے ایک پولیس افسر نےکہا کہ یہ علاقے ’وار زون‘ (جنگی علاقے) کہلاتے تھے لیکن اب یہ ’نو گو زونز‘ آزاد کرالئے گئے ہیں۔کچھ سال پہلے ایک لفظ ’طالبانائزیشن‘ ہر کسی کی زبان پر تھا ، اگر پاک افغان سرحدی علاقہ دہشتگردگروپس کیلئے کھیل کا میدان رہا تو پاکستان کا کمرشل حب کراچی ان دہشتگردوکیلئے چھپنے کی جگہ اور سونے کی کان بنا ہوا ہے ۔ طالبان گنجان آباد پشتون علاقوں میں چھپ گئے ، انہیں عملی طور پر ’نوگو زونز‘ بنا دیا اور اپنے مجاہدین کو فنڈز دینے کیلئے مقامی آباد کو بھتے اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں سے ہراساں کیا ۔ لیکن اب پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اب سب تبدیل ہوگیا، ’کراچی میں طالبانائزیشن دم توڑ چکی ہے‘۔ پولیس افسر اظفر مہیسر نے کہا کہ ’میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کی 70سے 80فیصد جنگجوؤں کا صفایا ہوچکا ہے ، کراچی میں کچھ باقی رہ گئے ہیں لیکن وہ اس قابل نہیں کہ مؤثر طریقے سے منظم ہوسکیں جیسا کہ چند سال قبل ہوجاتے تھے۔ پولیس افسر نے کہا کہ سانحہ پشاور نے دنیا کی آنکھیں کھول دیں اور ہمیں سخت کارروائی کرنی ہی تھی ۔ کراچی میں سیکورٹی ماہر ضیاء الرحمٰن کا کہنا تھا کہ کراچی اور میرانشاہ کے مابین روابط کے خاتمے نے قانون نافذ کرنے والوں اداروں کی انتہائی مدد کی ہے کہ وہ شہر کے پشتون اکثریتی علاقوں کو عسکریت پسندی سے پاک رکھیں۔ کراچی کے علاقے منگھوپیر کی رہائشی ضعیف خاتون فاطمہ نے کہا کہ ’خدا کا شکر ہے کہ طالبان چلے گئے ۔ لوگ بہت خوفزدہ تھے ، وہ بازار اور مارکیٹوں میں نہیں جاسکتے تھے‘۔ منگھوپیر میں پیر حاجی منگھو کے مزار کے متولی خلیفہ سجاد کا کہنا ہے کہ جب طالبان نے علاقے میں اپنا اثر قائم کیا تو مزار سے ملحق تالاب میں موجود مگر مچھوں کو بمشکل ہی کچھ کھانے کو ملتا تھا کیونکہ لوگوں نے یہاں آنا چھوڑ دیا تھا تاہم اب لوگوں نے دوبارہ آنا شروع کردیا ہے اور مگر مچھوں کو کھانے کیلئے مناسب غذا مل جاتی ہے ۔ مقامی رہنما وں کا کہنا تھا کہ  طالبان مخالف آپریشن کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’خدا جانتا ہے کہ وہ کہاں چلے گئے ، ہوسکتا ہے وہ یہیں چھپے ہوئے ہوں یا واپس وہیں چلے گئے جہاں سے آئے تھے اس کا جواب کوئی نہیں دے سکتا‘۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے روپ میں شہر کے جرائم پیشہ عناصر طالبان اس گروپ سے کئی گنا بڑا خطرہ ہیں ۔ اے این پی کے رہنما رؤف خان کا کہنا تھا کہ کئی چیزیں شدت کے ساتھ تبدیل ہوچکی ہے ، ’اب ہم ذہنی طور پر آزاد ہیں جسے ہم نے گزشتہ 15یا 20 برس سے محسوس نہیں کیا تھا ، گزشتہ روز میں سینما گیا اور رات کو دیر سے آیا یہ وہ کام تھا جو میں نے برسوں سے نہیں کیا تھا‘۔ –

متعلقہ مضامین

Back to top button