ملت کی شھید پرورش کرنے والی دلیر ماؤں کے نام
میرا نام ’’ماں‘‘ ھے
میں ایک کردار ہوں لیکن مجھے ادا کرنے والے اداکار بہت سے ہیں!
میرا نام تو ایک ھے لیکن میرے مظہر و مصداق بہت ہیں!
کوئی کسی خطے میں ملے گا، کوئی کسی خاص زبان کو بولنے والا ھو گا،
کوئی کسی خاص قبیلے سے تعلق رکھتا ھو گا،
کوئی کسی خاص مذھب و دین پر چلتا ہوا ملے گا۔
تاریخ میں تم کو بہت سی مائیں ملیں گی لیکن سب میں ایک ہی روح کار فرما ھے اور سبھی ایک ہی مقصد کی جانب گامزن ہیں۔
سب میں ایک ہی چیز مشترک ھے اور وہ ھے ’’ممتا‘‘!
تاریخ کے مختلف ادوار میں تم کو یہ مائیں مختلف کردار کی صورتوں میں نطر آئیں گی۔
کوئی محل کے اندر تو کوئی محل کے باھر۔
کوئی دھڑکتے دل کے ساتھ اپنے شیر خوار کو دریائے نیل کی بے رحم موجوں کے سپرد کرنےو الی۔
تو کوئی اپنے شیر خوار کی تشنگی کی سیرابی کیلئے سنگلاخ چٹانوں کے درمیان اضطراب و پریشانی میں سعی کرنے والی۔
نرغہ اعدا میں گھری ہوئی کوئی عورت اپنے شیر خوار کیلئے ایک قطرہ آب کیلئے ترستی ہوئی۔
کوئی اپنے شوھر کیلئے غار حراء میں کھانا لے جاتی ہوئی۔
تو کوئی اپنے شوہر کے حق کے دفاع میں جلتے ہوئے دروازے کی آگ کو برداشت کرتی ہوئی۔
کوئی ایسا کردار بھی ملے گا تم کو جو تن تنہا اپنے پیاسے بھائی کے گلے پر چھری چلتی ہوئی دیکھے گی تو کوئی اپنے باپ کے لاشے کو پامال ہوتا ہوا!
مختلف زمانے، مختلف کردار اور مختلف عورتیں……
ایک چیز تم کو سب کرداروں میں نظر آئے گی اور وہ ھے ایثار و فدا کاری!
ھر زمانے کی عورت سے جب دریافت کرو گے تو وہ یہی کہے گی:
ایک عورت ہونے ے ناطے میرا ایک گھر ھے جو میرے لئے کسی جنت اور کائنات سے کم نہیں!
وہاں میری دنیا آباد ھے!
تم کو معلوم ھے کہ میری دنیا کیا ھے؟
دیکھو جب سے میں نے اپنے شوہر کے گھر میں قدم رکھا ھے میں نے صبر و شکر کے ذریعے زندگی گزاری، مصائب و مشکلات میں ہنس بول کر گزارا کیا۔
اچھے برے حالات میں شوہر کا ساتھ دیا۔ شیریں و تلخ کو دل و جاں سے قبول کیا اور اچھے مستقبل کی آرزو میں دن دیکھنے اور گننے لگی!
خود بھوکی رہی اولاد کو کھلایا،
خود پیاسی رہی مگر اولاد کی تشنگی دور کی،
سردی کی ٹھنڈ میں کپکپانا گوارا کیا مگر بچوں کو گرمی دی!
خود گرمی میں اپنے پسینوں میں شرابور رہی مگر بچوں کو ہوا جھل کر ان کے پسینے خشک کرتی رہی۔
خود پرانا پہنا مگر بچوں کو اچھا پہنایا،
خود کھردرے فرش پر سو کر سختیاں برداشت کیں مگر لختان جگر کو آرام پہنچایا،
کیوں؟!
اس لئے کہ ایک دن اولاد جواں ہو اور وہ میرا سہارا بنے!
جب مجھے سردی لگے تو مجھے گرم کپڑے پہنائے!
جب مجھے بھوک لگے تو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلائے!
جب میں پیاسی ہوں تو مجھے پانی لا کر دے!
اور اسی طرح کی اور دوسری چھوٹی چھوٹی خواہشات میری زندگی کا سرمایہ ہیں!
لیکن جان لو کہ
میری خواھشات، میرے رجحانات، میرے میلانات، میرے احساسات، میرے غرائز، میری توجہ اور دل کا چاھنا اور ھر وہ احساس جو دل مین جنم لے اور زباں پر آںے سے قاصر ہو میرے عقیدے و آئیڈیالوجی پر حاکم نہیں ہو سکتا!
میں احساس ہوں، درد ہوں، تڑپ ہوں، توجہ ہوں، میلان ہوں، میں ’’دل ‘‘ ہوں لیکن سب سے بڑھ کر ایک با عقیدہ انسان بھی ہوں!
جب بھی دین پر وقت آتا ھے تو جسے میں سنبھال کر رکھتی ہوں، جس کی حفاظت کیلئے شب و روز ایک کرتی ہوں، جس کے دیر سے گھر آنے پر مضطرب و پریشان ہو جاتی ہوں اُس کو اپنے ہاتھوں سے تیار کر کے میدان جھاد پر بھیجتی ہوں!
جاؤ بیٹا! اپنی جاں کو قرباں کر کے دین کا قرض اتارو!
بیٹا!
تو دیر سے گھر آتا تھا تو میں روتی تھی اب تو دین کی حفاظت کیلئے جا میں پریشان نہیں ہوں گی!
اے دنیا کے باسیو، سنو!
جب دین و دنیا کا تصادم ہوتا ھے تو میری خواھشات مجھ پر غلبہ نہیں کرتیں، جب عقیدے سے جنگ کی بات آتی ھے تو میں خواھشات کے ہاتھوں اسیر نہیں ہوتی!
میری ممتا میرے قدموں کی زنجیر نہیں بنتی!
ایسے وقت میں میں خود کو سر بلند ہوتی ہوں، میں کامیابی و سر افرازی سے خود کو قریب محسوس کرتی ہوں!
میں اپنی کائنات کو خود قربان کر دیتی ہوں، اپنا گلشن خود اجاڑ دیتی ہوں اور اپنے گھر و گھرانے کو فدا کر دیتی ہوں،
کیوں؟
اس لئے کہ یہ میرا فرض ھے !
یہ میرا عقیدہ ھے اور مین اس طرح اپنے دیں کا قرض اتارنے کی کوشش کروں گی!!
جاؤ بیٹا! خدا حافظ، اللہ تمھارا حافط و نگہبان ہو،
لیکن بیٹا یاد رکھنا یہ تمھارے جسم کی سلامتی کی دعا نہیں دے رہی ہوں بلکہ یہ تمھارے عقیدے اور ایمان کی سلامتی کی دعا ھے!
اللہ تمھارے ایمان کا محافظ ہو تا کہ تم اپنے وظیفے کو کما حقہ ادا کرنے میں کامیاب ہو سکو!
یہ اللہ کو نگہبان قرار دینا اس لئے ھے کہ تم اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی و سستی نہ کرو!!
اِس لئے کہ
میں بنت حوا ہوں،
مجھ میں ھاجرہ کا جذبہ ھے!
میں مادر موسیٰ (ع) کے احساسات کی امین ھوں!
میں خدیجہ کبریٰ (س) کے عقائد کی امانتدار ہوں!
میں فاطمہ زھرا (س) کی ایثار و فداکاریوں کی پاسدار ہوں۔
میں زینب بنت علی(س) کی شجاعت کی راز دار ہوں!
میں رقیہ و سکینہ بنت الحسین (س) کے سینے میں دھڑکنے والے دلوں کی آواز ہوں!
میں یہ بھی ہوں….
میں وہ بھی ہوں!
میں صنفِ نازک سہی
مگر ھر سورما کی سورمائی و شجاعت کی داستانوں کے پیچھے ایک عورت ھے!
ھر کامیاب شوھر کی عظمتوں کی بنیادوں میں تم کو ایک پوشیدہ عورت کا کردار نظر آئے گا!
تم کامیاب بہن کر دیکھو گے تو میری تربیت بولتی نظر آئے گی!
تم کسی بیٹی کے روپ میں مجھے دیکھ سکو گے!
جاؤ بیٹا!
خدا حافظ
تم کو دودھ اُسی وقت بخشوں گی کہ جب تم اپنے وظیفے کو ادا کرو گے
یا شھید ہو کر
یا غازی بن کر
میں یا شھید کی ماں کہلاؤں گی یا غازی کی!!
میں دونوں صورتوں میں کامیاب ہوں،
اس لئے کہ میں ایک ماں ہوں!!