مقالہ جات

داعش نشیب وفراز کے دہانے پر

داعش کے بارے میں متضاد خبرین موصول ہوتی رہتی ہیں بعض کا کہنا ہے کہ یہ گروہ مختلف ممالک میں اپنے نفوز میں اضافہ کررہا ہے بعض اسکو ایسے گروہ سے تعبیر کرتے ہیں جسکے مصرف اور استعمال کا وقت اہستہ آہستہ ختم ہورہا ہے ۔شام کے حالات پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شام کے مختلف سنی گروہ داعش کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں دوسری طرف عراق کی شیعہ اکثریت داعش کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے اور تکریت پر قبضے کے بعد رمادی اور فلوجہ بھی جلد ہی عراقی فوج اور رضاکار دستوں کے کنٹرول میں آیا چاہتے ہیں تاہم گذشتہ دنوں خبریں موصول ہورہی تھیں کہ داعش نے افغانستان میں اور اس سے متصل پاکستان افغانستان سرحد پر اپنی وحشیانہ کاروائیاں تیز کردی ہیں، واضح رہے کہ تکفیری دہشتگرد گروہ داعش نوجوانوں کو اپنے گروہ کی طرف راغب کرنے کے لئے سائبر اسپیس سے استفادہ کرتا ہے جس کی بناء پر ان کے مکر و فریب کے بارے میں بہت زيادہ تشویش پائی جارہی ہے ۔ بلکہ یہاں تک کہا جارہا ہے کہ داعش افغانستان میں بھی سوشل نیٹ ورک اور سائبر اسپیس استعمال کررہا ہے کہ جسے کنٹرول کرنے کے لئے علاقائي ملکوں کو فورا توجہ دینے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ادھر افغانستان میں نیٹو کے میڈیا سربراہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کا وجود ایک سنگین خطرہ ہے لیکن یہ اس ملک کے لئے کوئي بڑا خطرہ شمار نہیں ہوتا ۔یہ ایسی حالت میں ہے کہ ابھی کچھ دنوں پہلے ہی افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ ان کا ملک دہشتگردوں کی آمد و رفت کے اڈے میں تبدیل ہوگيا ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دہشتگرد گروہ داعش نے افغانستان میں داخل ہوکر نہ صرف اس ملک کے امن و سکون کو خطرے میں ڈال دیا ہے بلکہ وہ اس ملک کو اپنا مرکزی اڈہ بناکر دوسرے ملکوں کی سیکورٹی کے لئے بھی خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں روس کی جانب سے پے در پے انتباہات اور تاجیکستان کی طرف سے افغانستان کی سرحد کو استحکام بخشنے کا عمل قابل غور اقدام ہے ۔
سیاسی مبصرین کے مطابق علاقائی ملکوں کا تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے سنگین خطروں کا ادراک کرلینے کے بعد تمام ملکوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہیں کہ وہ اس دہشتگرد گروہ کی بیخ کنی کے لئے متحد ہوکر ایک دوسرے سے تعاون کریں۔کیونکہ امریکی فوج اور نیٹو کی چودہ سال سے افغانستان میں موجودگی اور ان کے ماضی کے تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ نہ صرف حکومت افغانستان علاقے کے تمام ممالک بھی داعش سے مقابلے کے بارے میں نیٹو کے دعوؤں اور وعدوں پر اعتماد نہیں کرسکتے ۔
٥٧ مسلم ممالک کے لگ بھگ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مستقبل کو آج جو سب سے بڑا خطرہ درپیش ہے وہ ہے مذہبی انتہا پسندی۔ مذہبی انتہا پسندی کسی نہ کسی شکل میں اگرچہ مسلم ممالک میں موجود رہی ہے لیکن ٩/١١ کے بعد مذہبی انتہا پسندی میں جس شدت سے اضافہ ہوا ہے، اس سے مسلم ملک ہی نہیں بلکہ ساری دنیا خوفزدہ ہے، مذہبی انتہا پسندی کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک انتہا پسندی وہ ہے جو مسالک کے حوالے سے مسلمانوں کو خاک وخون میں نہلا رہی ہے جس کا مشاہدہ ہم پاکستان، عراق اور شام میں کرسکتے ہیں۔
پاکستان میں شدت پسندی کی خوفناک جنگ میں ٥٠ہزار سے زیادہ بے گناہ پاکستانی مسلمان مارے گئے ہیں۔ خودکش حملے دہشت گردی کا سب سے مہلک ہتھیار بنے ہوئے ہیں۔
یہ مذہبی انتہا پسند تنظیم مسلم دنیا میں خلافت کے قیام کی دعویدار ہے بلکہ اس تنظیم نے اپنا ایک خلیفہ چن لیا ہے لیکن دنیا حیرت سے دیکھ رہی ہے کہ اس تنظیم کے مجاہدین آئے دن مسلمانوں کو ذبح کر رہے ہیں۔
مسلم عوام اس تنظیم کے بے رحمانہ قتل و غارت پر حیران ہیں کہ دنیا بھر میں اسلام کو سربلند کرنے کی دعویدار یہ تنظیم مسلمانوں کو کس بے دردی سے ذبح کر رہی ہے۔ اسی تناظر میں کہا جا رہا ہے کہ اسے اسرائیل کی حمایت حاصل ہے جس کا مقصد دنیا میں مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنا ہے۔
یہ صورتحال ٥٧ مسلم ممالک میں رہنے والے ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمانوں کے مستقبل پر موت کی طرح منڈلا رہی ہے اور کسی ملک کو اس صورتحال پر نہ تشویش ہے، نہ اس صورتحال کو بدلنے کے لیے کوئی آگے آتا نظر آتا ہے۔
بہرحال داعش کے ان حربوں سے جن سے وہ نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں سے آگاہی اور اسے ناکام بنانے کے حوالے سے علاقائی ملکوں کا باہمی تعاون تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کا عرصہ حیات تنگ کرسکتا ہے اور اس میں سب سے بڑی ذمہ داری اسلام کا درد رکھنے والے علما اور دانشوروں کی ہے کہ وہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کو نوجوان نسل تک پہنچانے کے لئے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لائیں تاکہ نوجوان نسل کو اسلام کے نام پر اس انتہا پسندی سے بچایا جاسکے۔
رائے

متعلقہ مضامین

Back to top button