نیوکلیئر معاہدہ اور مرگ بر امریکا کا نعرہ
تحریر: عرفان علی
جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ایران اور ای تھری پلس تھری (E3/Eu+3) کے مابین نیوکلیئر معاہدہ پر اتفاق ہوگیا ہے۔ اس کے تحت 159 صفحات پر مشتمل ایک مشترکہ جامع منصوبہ عمل میں تفصیلات بیان کی جاچکی ہیں۔ 20 جولائی 2015ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل نے بھی 14 جولائی 2015ء کے ویانا معاہدہ کی توثیق کر دی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے بھی اسی دن یہ تفصیلات قانون ساز ادارے کانگریس کو ارسال کر دی ہیں اور وہ 2 ماہ تک اس پر غور و خوض کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں گے۔ ایرانی پارلیمنٹ اور سپریم نیشنل سکیورٹی کاؤنسل کو ایرانی حکومت نے مشترکہ منصوبہ عمل کا تفصیلی متن فراہم کر دیا ہے اور وہ بھی اس کے بغور مطالعے کے بعد اس کی توثیق کا فیصلہ کریں گے۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے اس معاہدے کے بارے میں اپنی تفصیلی رائے بیان کی، جس میں انہوں نے کہا کہ 14 جولائی ’’یوم مشترکہ بیانیہ‘‘ تھا اور تقریباً 2 ماہ بعد ’’یوم توافق‘‘ ہوگا۔ ان کی حکومت کے اس بار ے میں چار اہداف تھے۔ پہلا یہ کہ ایران کے اندر ہی ایٹمی توانائی کے منصوبوں کو جاری رکھا جائے۔ دوسرا ہدف تھا کہ ایران پر ظالمانہ اقتصادی پابندیوں کو ختم کروایا جائے، تیسرا ہدف تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کی غیر قانونی قراردادوں کو منسوخ کروایا جائے اور چوتھا ہدف تھا کہ ایران کا نیوکلیئر کیس سلامتی کاؤنسل سے خارج کروایا جائے۔ ان کے مطابق یہ چاروں اہداف حاصل ہوچکے ہیں۔ سکیورٹی کاؤنسل کی 20 جولائی والی قرارداد کے متن کی بعض شقوں پر ایران کے اندر اعتراضات کئے جا رہے ہیں مگر ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف اور مذاکرات کار عراقچی کا کہنا ہے کہ اول تو یہ شقیں non-binding ہیں اور دوم یہ کہ اس میں کوئی punitive measures نہیں ہیں کہ اسے نہ مانا تو سزا ملے گی۔
ایران کے میزائل پروگرام کے خلاف قرارداد میں موجود نکات پر سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ محمد علی جعفری نے شدید اعتراض کیا ہے اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کے مشیر اعلٰی ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے کہا ہے کہ ایران اپنے دفاع و سلامتی کے ہر منصوبے کو جاری رکھے گا اور اس پر کوئی پابندی قبول نہیں کرے گا۔ ایرانی نیوکلیئر پروگرام پر 12 سالہ مذاکرات کے دوران ایران مخالف فریقین نے ایران کی ثابت قدمی کے باعث قدم بہ قدم خود کو پیچھے ہٹنے پر مجبور پایا۔ اگر اس 12 سالہ دور کے آغاز میں ان کے اہداف کا موازنہ اس معاہدہ کے متن سے کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ ایران کے نیوکلیئر حقوق کے عملاً مخالف تھے اور ماضی کی طرح اسے اپنا دست نگر بنانے پر کمربستہ تھے، لیکن اب ایران نے اپنی نیوکلیئر خود مختاری کو تسلیم کروالیا ہے۔
ایرانی حکومت نے وقتی طور پر بعض حقوق پر عمل نہ کرنے کی کڑی شرط تسلیم کی ہے لیکن دائمی دستبرداری سے انکار کر دیا ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک اس حد تک مجبور ہوئے کہ کڑی شرائط کو نرم کرتے رہے۔ پہلے وہ ایران سے 35 سال تک کی پابندی کروانا چاہتے تھے اور آئی اے ای اے کی رپورٹ سے اس کو مشروط کر رہے تھے۔ لیکن اب ان کا نیوکلیئر کیس رپورٹ کے بغیر ہی 10 سال بعد سکیورٹی کاؤنسل سے مکمل طور پر خارج ہوجائے گا، جبکہ مشترکہ منصوبہ عمل میں لکھا ہے کہ 15 دسمبر سے یہ عمل شروع ہوجائے گا۔ ایران اپنا ایٹمی ایندھن خود تیار کرے گا اور اضافی مواد دیگر ممالک کو فروخت کرسکے گا۔ یقیناً اس معاہدہ میں کچھ ضعیف نکات بھی ہیں، لیکن اس پر بھی ایران کی سلامتی کاؤنسل اور مجلس شورائے اسلامی خود ہی اپنی رائے کا اظہار کر دیں گی، مجموعی طور پر بات کی جائے تو 12 سالہ طویل مذاکرات میں ایران نے دشمن کو 17 قدم پیچھے دھکیلا ہے، یعنی ان کے 17 مطالبات کو مسترد کرکے اپنے حق کو ان سے منوایا ہے اور 12 سالوں میں وہ ایران کو کتنے قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور کرسکے ہیں، اس کا جائزہ لے لیں۔ (انشاءاللہ بہ توفیق الٰہی اس موضوع پر آئندہ بھی بات ہوگی)۔
اگر گروپ ای تھری پلس تھری (یا پانچ جمع ایک) کے کسی ملک نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی تو ایران کو حق حاصل ہے کہ وہ جوائنٹ کمیشن تک اپنی شکایت پہنچائے، پھر وزرائے خارجہ سطح تک بھی یہ معاملہ اٹھایا جاسکتا ہے اور اگر خلاف ورزی جاری رہے تو ایران اس معاہدہ سے باہر ہوسکتا ہے اور یہی حق فریق مخالف کو بھی حاصل ہے کہ وہ بھی اس معاہدہ کو ختم کرسکتے ہیں۔ ایران کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جعلی ریاست اسرائیل اور اس کا ہم فکر سعودی عرب اس معاہدہ پر بلبلا رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ وہ جو چاہ رہے تھے، ویسا معاہدہ نہیں ہوسکا۔ نیتن یاہو خودکشی کے موڈ میں ہے اور ان کے ابا حضور امریکی صدر براک اوبامہ نیویارک ٹائمز کے تھامس فریڈ مین سے کہہ رہے ہیں کہ (سعودی و صہیونی سرپرست امریکا و یورپی ممالک کے پاس) اس معاہدے کا کوئی متبادل نہیں تھا۔ اوبامہ نے قبول کیا کہ معاہدہ سے نہ تو ایرانی نظام حکومت کی تبدیلی ممکن ہے اور نہ ایران کے رویے (یعنی استکبار مخالف خارجہ پالیسی) میں تبدیلی آسکے گی اور نہ ہی وہ اس نیوکلیئر ڈیل کو اس پیمانے سے ناپ رہے ہیں۔ براک اوبامہ نے تو یمن کی صورتحال پر بھی امریکی اتحادی عرب ممالک پر تنقید کی ہے اور تسلیم کیا ہے کہ وہاں ایران کی مداخلت کے شواہد نہیں ملے۔
سعودی عرب کے بدنام زمانہ سابق انٹیلی جنس چیف بندر بن سلطان نے لندن کی ایک عربی ویب سائٹ ایلاف میں ایک مقالہ میں ایران نیوکلیئر ڈیل کی شدید مخالفت کی۔ ابتدائی ردعمل میں سعودی حکومت کے عہدیدار نے نام نہ بتانے کی شرط پر رائے دی اور اس ڈیل پر تنقید کی تھی، لیکن اب امریکی وزیر دفاع نے سعودی عرب کے دورے کے بعد کہا ہے کہ بعض خدشات کے ساتھ سعودی بادشاہت نے یہ معاہدہ قبول کرلیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکا نے نیتن یاہو اور سعودی حکام کو اس معاہدے سے پہلے آگاہ نہیں کیا تھا کہ وہ یہ معاہدہ کرنے جا رہے ہیں؟ جب پہلے سے ہی انہیں اعتماد میں لیا جاچکا تھا تو امریکی وزیر دفاع کو یہاں جاکر صہیونی و سعودی حکام کو جاکر بریفنگ دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یقیناً اس ڈیل کے ذریعے بھی وہ ایران کو ایک اور مرتبہ دھوکہ دینے کی خواہش رکھتے ہیں، لیکن اب اس معاہدے کے مشترکہ منصوبہ عمل میں تفصیل کے ساتھ پورا میکنزم تحریری صورت میں موجود ہے کہ فریقین نے کب کب کیا کیا کرنا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جون کیری نے سینیٹ کی فارین ریلیشنز کمیٹی کو بتا دیا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی متبادل نہیں تھا۔ جو الفاظ انہوں نے استعمال کئے اس کا اردو مفہوم ہے کہ امریکی سینیٹرز جو بہتر متبادل چاہ رہے ہیں وہ ان کی خام خیالی ہے اور با الفاظ دیگر افسانوی نوعیت کے ناقابل عمل تصورات کی بجائے اسی معاہدہ کو قبول کرلیں۔
جو لوگ اس معاہدہ کو ایران کی پسپائی قرار دے رہے ہیں، ان کے پاس کیا دلیل ہے کہ جس کی بنیاد پر یہ کھوکھلا دعویٰ کر رہے ہیں۔ کیا پچھلے 12 سالوں میں ایران نے یوم القدس اور امریکی سفارتخانہ میں قائم جاسوسی کے اڈے پر قبضے کی سالگرہ منانا چھوڑ دی ہے؟ کیا فلسطین، شام، یمن، بحرین کے بارے میں ایران کی خارجہ پالیسی امریکا جیسی ہوگئی ہے؟ کیا معاہدے کے بعد ایسا ہوجائے گا یا کوئی امکان ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ مرگ بر امریکا کے نعروں کی گونج میں امام خامنہ ای خود عیدالفطر کے دوسرے خطبے میں وضاحت کے ساتھ اپنا موقف پیش کرچکے ہیں، اگر ان کے موقف پر بھی کسی کو اعتماد نہیں تو پھر یہ دیکھیں کہ ’’مرگ بر امریکا‘‘ کے نعرے سمیت ایرانی خارجہ پالیسی اور داخلی سیاسی نظام میں تبدیلی تو خود شیطان بزرگ امریکا کے صدر کو بھی نظر نہیں آرہی، دوسرے کیوں ہلکان ہو رہے ہیں!