مقالہ جات

گلگت بلتستان الیکشن کے تاریک پہلو

گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کی 24 نشستوں پر انتخابات اختتام پذیر ہوئے، 24 نشستوں کے لئے 266 امیدوار میدان میں اترے اور انہوں نے اپنی قسمت آزمائی کی۔ نادرا ریکارڈ کے مطابق رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 6 لاکھ 18 ہزار 364 تھی، ان میں 3 لاکھ 29 ہزار 475 مرد ووٹرز جبکہ 2 لاکھ 88 ہزار 889 خواتین ووٹرز شامل ہیں۔ ملک بھر کی نسبت یہاں پر ٹرن آون مثالی رہا اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 60 سے 65 فی صد ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ انتخابات کا اختتام وفاقی حکومت کی واضح برتری کے ساتھ ہوا، انہوں نے 24 میں سے 14 نشستیں حاصل کیں جبکہ انکے بعد اسلامی تحریک نے 2، مجلس وحدت مسلمین نے 2، پاکستان پیپلز پارٹی نے ایک، پاکستان تحریک انصاف نے ایک، جمعیت علمائے اسلام نے ایک، مقامی قوم پرست جماعت نے ایک جبکہ دو آزاد امیدواروں نے بھی ایک ایک نشست حاصل کی۔ یوں مجموعی طور پر جی بی میں مسلم لیگ نون کی حکومت بن گئی۔ گلگت بلتستان میں کن کن حلقوں میں کس طرح وفاقی حکومت نے نشستیں حاصل کیں، وہ ایک الگ موضوع ہے، تاہم پورے ملک کے لئے مثالی اور منظم انتخابات کے ان تاریک پہلووں پر روشنی ڈالتے ہیں جو اب تک دنیا کی نظروں سے اوجھل رہے۔

پرامن ترین الیکشن کو ختم ہوئے ایک ہفتہ گزر گیا ہے لیکن اب تک سرکاری طور پر کامیاب ہونے والے امیدواروں کے ناموں کا اعلان نہیں ہوا۔ آج گلگت میں چیف ایپلٹ کورٹ تک جانا ہوا تو معلوم ہوا کہ اب تک 13 مضبوط امیدوار جن کا تعلق مختلف جماعتوں سے ہے، ہاتھوں میں درخواستیں لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے میں مصروف ہیں اور وہ نتائج تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ان میں اکثر درجنوں ووٹس یا چند سو ووٹس سے ہارنے والے ہیں اور تقریباََ سب مسلم لیگ نون، چیف الیکشن کمشنر اور آر اوز کے خلاف کیس کر رہے ہیں۔ ان عدالتوں سے رجوع کرنے کا نتیجہ سعد رفیق کے نااہل قرار دینے کے بعد جو کچھ ہوا وہی ہوگا یا اس سے مختلف وہ وقت ہی بتائے گا، تاہم یہ بات مسلمہ ہے کہ انتخابات میں تیسری طاقت کی موجودگی سے چشم بینا رکھنے والے انکار نہیں کرسکتے۔ عجیب اتفاق ہے کہ جب نگران حکومت بنی تھی اور چیف الیکشن کمشنر کا قیام عمل میں لایا گیا تھا تو دو جماعتیں انکے حق میں دلیلیں دے رہی تھیں، وہی جماعتیں یعنی مسلم لیگ نون اور اسلامی تحریک پاکستان نے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کر لیا ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، ایم ڈبلیو ایم سمیت دیگر جماعتوں نے انتخابی نتائج کو مسترد کر دیا ہے اور اسے بدترین دھاندلی سے تعبیر کیا ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ مذکورہ جماعتون نے عام تجزے اور توقع سے بڑھ کر نشستیں حاصل کر لی ہیں۔ بعض جگہوں پہ ہارنے کے بعد آدھی رات یا بعض حلقوں میں چار مرتبہ گنتی کے بعد امیدوار فاتح ٹہرے ہیں۔ ان جزیات پر جانے سے پہلے الیکشن سے قبل، دوران انتخابات اور بعد از انتخابات پیش آنے والے واقعات کا ذکر ضروری ہے، تاکہ انتخابات حقیقی بنیادوں پر شفاف انداز میں ہوئے یا کچھ اور اس سے اندازہ ہوسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انتخابات سے قبل نگران حکومت کی کابینہ نواز لیگ کی پسند کے مطابق تشکیل دی گئی، نگران وزیراعلٰی بھی چیف سیکرٹری کے ملازم کو بنایا گیا، حد تو یہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر بھی سابقہ مسلم لیگ نون کے چیف آرگنائزر کو مقرر کیا گیا۔ اس کے علاوہ چیف سیکرٹری کو ہٹایا گیا، گلگت بلتستان میں وفاقی وزیر کو گورنر کے طور پر تعینات کیا گیا، انہوں نے تمام حلقوں میں دورہ جات کئے، اعلانات کئے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم پاکستان نے بھی جی بی کا دورہ کیا، اربوں کے منصوبہ جات کے اعلانات کئے اور نفسیاتی طور دیگر تمام جماعتوں کو روند دیا، بلتستان میں یونیورسٹی کا قیام، شگر کھرمنگ اور ہنزہ نگر کو ضلع بنانے کا اعلان کیا، گلگت اسکردو روڈ کی تعمیر و توسیع کا اعلان کیا، یوں عوامی رائے عامہ کو تبدیل کیا گیا، جبکہ دوسری جماعتیں اسے قبل از انتخابات دھاندلی سے تعبیر کرتی اور چیختی چلاتی رہی لیکن نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف سطح پر افسران کا تبادلہ کیا گیا، یہ سب جی بی کے غیر مقامی گورنر کی نگرانی میں ہوتا رہا۔

ان تمام باتوں سے قطع نظر جن کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا اور نہ ہی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اگر قبل از انتخابات دھاندلی کسی چڑیا کا نام نہیں تو یہی کچھ ہے۔ انتخابات سے صرف دو روز قبل گندم سبسڈی خاتمے اور بعد میں اس کی تردید کی خبر چلا کر آخری کاری ضرب لگائی گئی۔ انتخابات سے دو روز قبل تمام اضلاع میں موجود صحافیوں کو بلانے کے بعد باقاعدہ طور پر آگاہ کیا گیا کہ خبر دار ایسی ویسی خبر نہیں چلانی، جس سے دنیا کو یہ پیغام جائے کہ انتخابات میں دھاندلی ہو رہی ہے، حد تو یہ ہے کہ پولنگ کے کمرہ میں بھی داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ کس نے خبردار کیا اور دوران بریفنگ کس لہجے میں بات کی، ہمارے نمائندے کی حفاظت کے پیش نظر منظر عام پر لایا نہیں جاسکتا۔ بظاہر اس دوران میڈیا بھی کوریج دیتا رہا، لیکن میرا آزاد میڈیا سے سوال ہے کہ اسکردو کے حلقہ چار میں ایک جوان کے مارے جانے کی خبر کو کسی ٹی وی نے کیوں بریک نہیں کیا اور اسکے ساتھ دیامر کے ایک حلقے میں ڈھائے جانے والے درجنوں گھروں کی کہانی کیوں سامنے نہیں آئی اور پولنگ بکس لے کے غائب ہونے اور ایک اور مقام پر اسلحہ چھینے کا واقعہ کیا تھا اور چلاس میں آرمی جوان کو خون آلود کرنے اور بلتستان میں ڈیوٹی پر مامور آرمی جوان کے زخمی ہونے کا واقعہ کیا تھا۔

اسی طرح یہ سوال کرنے میں لوگ حق بجانب ہیں کہ بقول وفاقی وزیر اطلاعات گلگت بلتستان متنازعہ ہونے کے ناطے انتخابات عالمی اداروں اور عالمی مبصرین کے زیر نگرانی ہونا ضروری تھا لیکن ایسا کیوں نہیں ہوسکا۔ نواز لیگ کے علاوہ کسی بھی جماعت کے فاتح یا شکست خوردہ امیدوار یا رہنما سے پوچھا جائے تو یہ سب کی مشترکہ بات ہوگی کہ پولنگ پرامن رہنے کے باوجود شدید سست روی اور تعطل کا شکار رہی۔ میڈیا پر گلگت بلتستان کے انتخابات کو آرمی کی نگرانی میں کرانے کا ڈھونگ تو رچایا گیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انتخابات میں آرمی نے سکیورٹی فراہم کی تھی جبکہ اسکی نگرانی میں نہیں ہوئے، انہیں کسی بھی قسم کی اٹارنی پاور کے ساتھ نہیں بھیجا گیا۔ ایک سوال جو کہ بہت اہم ہے وہ یہ ہے کہ انتخابات کے دو ہفتہ بعد تک پورے خطے میں دفعہ 144 نافذ کیوں کیا گیا اور اب بھی آرمی کا گشت جاری ہے، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جو لوگ انتخابات کو تسلیم نہیں کرتے ہیں، وہ اپنا جمہوری حق استعمال کرکے احتجاج بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی چار نفر سڑکوں پہ نکل آئیں تو انکا پالا آرمی سے ہی پڑنا ہے اور اسکے بعد کیا ہونا ہے کچھ نہیں بتا سکتا۔

انتخابات کے دوران گلگت بلتستان کی قوم پرست شخصیت کرنل نادر کیساتھ جو ناروا سلوک پیش آیا، اس واقعے کو لاکھوں روپے کی رقوم خرچ کرکے جی بی آنے والی DCNG,S نے جگہ کوریج اور نہ ہی کسی اخبار نے۔ انکے علاوہ بلتستان کے ایک کمزور مگر بڑے ارادے کے مالک قوم پرست رہنما شریف کاکڑ بھی انتخابات کے تین دن نظر بند رہے۔ اسکے علاوہ اطلاعات کے مطابق اسلامی تحریک کے ایک امیدوار، پیپلز پارٹی کے دو امیدوار، ایم ڈبلیو ایم کے ایک امیدوار پر جسمانی تشدد جبکہ چند ایک کو ذہنی تشدد کرنے کی اطلاعات بھی ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جو ہم تک پہنچ چکے ہیں، رات کی تاریکی میں کیا کچھ ہوا اور جو حقائق چھپائے گئے، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ ان حالات میں غیر جانبدار قارئین نے فیصلہ کرنا ہے کہ گلگت بلتستان میں الیکشن ہوئے یا سلیکشن۔ یہ انتخابات کن مقاصد کو سامنے رکھ کر کرائے گئے اور مطلوبہ نتائج سامنے لائے گئے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button