پاکستان

تشیع کے وسیع تر مفاد کی خاطر صفوں میں اتحاد ضروری ہے، علامہ ساجد نقوی

اسلامی تحریک پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ تشیع کے وسیع تر مفاد کی خاطر صفوں میں اتحاد ضروری ہے۔ شہداء کی قربانیوں کی خاطر وحدت کو مزید فروغ دیا جائے۔ شہداء کے راستہ کو زندہ رکھنے کے لئے ہمیں نفسانی خواہشات کی قربانی دینا ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گلگت میں سانحہ شہدائے 1988ء و امام خمینی (رہ) کی برسی کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں کیا۔ اسلامی تحریک پاکستان کے سربراہ نے کہا کہ روز اول سے پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ پاکستان کی سرزمین کو بے آئین رکھا گیا، جب آئین بن گیا تو اسے آئین کے تحت چلنے نہ دیا گیا، آئین کی دفعہ 260 کے تحت مسلم و غیر مسلم کی تعریف کو آئین میں تکفیریوں کے سرپرستوں نے شامل کرایا۔ معزز ملت کے خلاف آئین کو پامال کرتے ہوئے غلیظ نعروں، فتووں اور گالیوں سے دیواریں بھری گئیں۔ لیکن اس سب کے باوجود ان عناصر کو گرفت میں نہ لیا گیا۔ سربراہ شیعہ علماء کونسل کا کہنا تھا کہ کوشش کی گئی کہ شریف لوگوں کو تیسرے درجے کا شہری بنا دیا جائے۔ شہری آزادیوں و عزاداری سیدالشہداء پر قدغن لگانے کی کوشش کی گئی۔ جسے ہم نے رد کیا، مجلس کے لئے اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ حسین حسین (ع) کرنے کے لئے کسی قسم کا پرمٹ درکار نہیں، ہم اس ملک کے مالک اور حصہ دار ہیں، ہم نے ایوانوں اور میدانوں میں تکفیری سازشیں ناکام بنائیں۔ اپریل 1988ء میں ابراہیم زئی اور کرم ایجنسی پر لشکر کشی ہوئی اور مئی میں گلگت پر لشکر کشی کی گئی، 5 اگست 1988ء کو علامہ عارف حسین الحسینی کو شہید کیا گیا، کوئی پرسان حال نہیں، جسٹس عثمان علی کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر کیوں نہیں لایا گیا۔ بیلنسنگ کی پالیسی کے تحت فرقہ وارانہ گروپوں کو تشکیل دیا گیا، پابندیاں لگائی گئیں۔

علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ حکومتیں بے بس ہیں، اختیار کسی اور کے پاس ہے۔ ملت کے اتحاد و اتفاق میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ہم نے امت واحدہ کا تصور دیا، تشیع میں وحدت کے لئے کوئی مشکل نہیں، میرا کسی عزیز سے کوئی جھگڑا نہیں، یہ اہل علم و محترم ہیں، گزری باتوں کو چھوڑ کر آئیں آگے بڑھتے ہیں، ایک ہفتہ قبل اتحاد کے لئے دی جانے والی تجویز قبول کی ہے۔ کوششیں ہوئی ہیں کہ شیعہ کو امت کے دائرہ سے خارج کرایا جائے، جس پر اردن کے بجٹ جتنا پیسہ خرچ کیا جاتا رہا، لیکن آج ہم مسند پر جبکہ تکفیری گندگی کے ڈھیر پر ہیں۔ علامہ ساجد نقوی کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے سوالات اٹھائے تو جواب کسی کے پاس نہ ہوگا۔ آج آمدہ انتخابات کے لئے ایک فارمولا آیا جس میں دوستوں کی رضامندی ضروری ہے۔ انتخابات میں لوگوں کو قائل اور مائل کرنا ضروری ہے۔ یہ مسائل کے حل کے لئے پہلا قدم ہوگا، ہم نے کبھی کسی کے خلاف بات نہیں کی۔ بے ہودگی، بدکلامی، جھگڑا اور لڑائی قرآن کی نظر میں درست نہیں۔ لڑائی اور توہین ممنوع ہیں۔ علماء کو ان باتوں کو زیادہ مدنظر رکھنا چاہیے۔ نقطہ نظر کا اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن تشیع کے وسیع تر مفاد کی خاطر صفوں میں اتحاد ضروری ہے۔ شہداء کی قربانیوں کی خاطر وحدت کو مزید فروغ دیا جائے۔ شہداء کے راستہ کو زندہ رکھنے کے لئے ہمیں نفسانی خواہشات کی قربانی دینا ہوگی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button