مقالہ جات

خلیجی ممالک کا اندورنی خوف!

دل بوجھل ہے۔ آواز وہاں سے آئی جہاں سے قطعاً توقع نہ تھی۔ لہجے میں دھمکی، نفرت اورناراضی سب کچھ ہے۔ طالبعلم کے ذہن میں بارہا سوال اٹھتا ہے، کیسے، بلکہ کیوں! مجھے اپنے ملک کے ذرے ذرے سے عشق ہے۔ نکتہ وہی، ڈاکٹر انور محمد گرگاش کا انتہائی غیرمناسب بیان۔ صاحبان، ایسا رویہ تو ہمارے دشمن ملک کی قیادت نے اختیار نہیں کیا۔ مگرصاحبان زیست! پاکستان اپنی تمام ترخامیوں کے باوجود اسلامی ممالک میں ایک طاقتورعسکری قوت کا حامل واحد ایٹمی طاقت ہے۔

اس سے پہلے کہ میں متحدہ امارات کے وزیرمملکت برائے خارجہ امورکے بیان کی طرف جاؤں،ضمناًکچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ نیشن اسٹیٹ(Nation State) کا سیاسی فلسفہ اس وقت زمین پرموجود ہرتھیوری سے زیادہ طاقتور ہے۔ پہلی اوردوسری جنگ عظیم نے پوری دنیاکی جغرافیائی حدود کو تبدیل کردیاہے۔تمام ممالک اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہرقربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ دوصدیاں قبل ملکوں کی جغرافیائی حدودکی تقسیم قطعاًاہم نہیں تھی۔ دنیامیں متعدد مسلمان ممالک موجود ہیں۔ ان کی سوچ، تہذیب، رہن سہن ،زبان اورطرزِ حکومت ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
تمام دانشوراور لکھنے والے جو جذباتیت کو ہتھیارکے طور پر استعمال کرتے ہیں، ان کے لیے بھی مقام فکرہے جو بتاتے ہیں کہ ہم مذہب اورعقیدہ کی بنیادپر یک جان ہیں، اب انھیں ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے بلکہ انھیں ہم پررحم کرنا چاہیے!نیشن اسٹیٹ حقیقت ہے اور اسے تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اگر آپ اس سے متفق نہیںتو ویزہ کے بغیرکسی برادراسلامی ملک میں جانے کی ہمت کریں،پتہ چل جائیگاکہ اس حماقت کی قیمت کیا ہے۔
ہفتہ کے دن کے بیان کوغورسے پڑھیے۔یہ انٹرنیٹ اور تمام اخبارات میں موجودہے۔انگریزی سے اردوترجمہ کرکے عرض کرونگا”پاکستان اورترکی کے مبہم اورمتضادطرزِعمل،اس اَمرکامکمل ثبوت ہیں کہ خطہ عرب،یعنی لیبیاسے یمن تک کی حفاظت صرف اورصرف عرب ممالک کی ذمے داری ہے” تواتر سے کہاگیا”پاکستان پرلازم ہے کہ وہ چھ رکنی جی سی سی(Gulf Cooperation Council) کے حق میں ایک واضح پوزیشن اختیارکرے”۔آگے کہاگیا،”عرب ممالک کی جنگ انتہائی خطرناک موڑ پر آچکی ہے۔یہ سچ کالمحہ ہے،جوعرب ممالک کے اصل دوست اورمیڈیاکی حدتک بیانات دینے والوں کی تفریق کریگا”۔ آگے کہا گیا،”پاکستان اورانقرہ کے لیے تہران،عرب ممالک سے زیادہ اہم ہے”۔اس سے آگے بیان ہے”کہ پاکستان کواپنے مبہم طرزِعمل کی بھاری قیمت چکانی پڑیگی”۔یہ ہے وہ ردعمل جوہمارے لیے دوررس فیصلوں کی بنیادبن سکتاہے۔
ڈاکٹرانورگرگاش تعلیم یافتہ انسان ہیں۔ وہ جارج واشنگٹن یونیورسٹی،امریکا کے فارغ التحصیل ہیں۔یوکے میں کیمرج کے کنگز کالج سے انھوں نے ڈاکٹریت کی ڈگری حاصل کی ہے اور2008سے وہ امورِخارجہ کے وزیرمملکت کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ عرض کرنے کامقصدیہ ہے کہ ان کابیان وقتی جذباتیت کے تحت نہیںدیاگیابلکہ یہ ایک پالیسی بیان ہے لہذااسے جاری کرنے سے پہلے ہرزاویہ سے سوچا گیاہوگا۔وزیرخارجہ سے یہ بیان شائداس لیے نہیں دلوایاگیاکہ وہ ہمارے ملک کی حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے ایک فورم(Forum)چھوڑناچاہتے ہیں۔ ایک اورنکتہ بھی غور طلب ہے کہ کیایہ بیان سعودی عرب اور تمام عرب دنیاکے ان ممالک کی ترجمانی کرتاہے جویمن سے برسرِبیکارہیں،یایہ محض ایک ملک کی سرکاری پوزیشن ہے۔
اب ظلم ہے اس خاطرتاغیربھلا مانے
بس ہم نہ بُرامانے تو کون بُرا مانے
(میرتقی میر)
تلخ حقیقت کاایک رخ یہ بھی ہے، کہ U.A.E کو ترقی یافتہ سطح پرکون ساملک لے کرآیا؟کس ملک کے جفاکش لوگوں نے صحرا کو بین الاقوامی سطح کے شہروں میں تبدیل کردیا؟ شائد کئی لوگوں کے علم میں یہ بات نہ ہو،کہ جدیدطریقے سے اس ملک کی بنیاداستوارکرنے کامشورہ،ذوالفقار علی بھٹوکاتھا۔ پاکستان کی افرادی قوت نے ان ممالک اور خصوصاً U.A.E میںہروہ کام کرکے دکھایا، جویہاں کے مقامی لوگ خودنہیں کرپائے تھے۔یواے ای میںچالیس سال پہلے مٹی تک پاکستان کے بحری جہازوں میں لیجائی گئی۔
سب کو معلوم ہے کہ ہماری سرکاری فضائی کمپنیP.I.Aکے ماہرین نے ان کی ائیرلائن کوزمین سے اٹھا کرآسمان تک پہنچادیا۔ہماری فضائیہ نے اماراتی ہوابازوں کو تربیت دی۔ہماری بری فوج نے ان کو بے مثال تربیت دی۔یہ محض U.A.Eکی بات نہیں۔ سعودی عرب کی عسکری قوت کا بیشتر حصہ صرف اورصرف پاکستانی فوج کی ماہرانہ تربیت کانتیجہ ہے۔احسانات کی ایک طویل فہرست ہے۔تمام احسانات کومحض ایک ماہ کی عرب ممالک کی آپس کی بے مقصدجنگ میں بھلا دیا گیا۔ صاحب! یقین نہیں آتا۔
دوسال پہلے جب ابوظہبی جانے کاسرکاری سطح پراتفاق ہواتوکئی پنہاں گوشے نظرکے سامنے آئے۔ایک سرکاری میٹنگ میں ایک اماراتی افسر نے ہمارے لیے”سیاسی اسلام” (Political Islam)کالفظ استعمال کیا۔میں نے یہ لفظ پہلی بارسناتھا۔اماراتی افسران کے نظام میں بلندترین سطح پر براجمان تھا۔یہ لفظ اس نے دوگھنٹے میں کم ازکم دس سے بارہ بار استعمال کیا۔میں سوچ میں پڑگیاکہ”سیاسی اسلام” کیا ہے اورپاکستان کے لیے یہ صیغہ کیوں استعمال کیا گیا۔
میں نے جب وضاحت کے لیے ان صاحب سے سوال کیا، تو انھوں نے جواب دینے سے یکسرانکارکردیا۔آج تک میرے ذہن میں یہ گرہ موجودہے اور میرے پاس اس اصطلاح کی کوئی وضاحت نہیں ہے۔میں نے اس سرکاری دورہ میں یہ بھی محسوس کیا،کہ اماراتی حکومت پر سعودی اثرانتہائی گہراہے۔ مجھے ان لوگوں میں سعودی عرب سے ایک پوشیدہ خوف سا محسوس ہوا۔ اگرآپ بے تکلف مکالمہ کریں،تویہ بات کھل کرسامنے آجاتی ہے کہ وہ سعودی عرب کے دباؤ سے ہرگز باہرنہیں ہیں۔
ایک اہم نکتہ یہ بھی تھاکہ تمام عرب ممالک پاکستان کی افرادی قوت کی وہ قدرنہیں کرتے،جو اسکاحق ہے۔مجھے U.A.Eمیں محسوس ہواکہ ایک بغیرلکھی ہوئی پالیسی کے تحت ہندوستان سے آئے ہوئے لوگوں کوہم پرفوقیت دی جارہی ہے۔شام کوایک عشائیہ میں ایک ایسے پاکستانی سے ملاقات ہوئی،جوچالیس برس سے ابو ظہبی میں قیام پذیرتھا۔اللہ نے اسکوبہت خوشحالی عطا کی تھی۔ شکوہ کرنے لگاکہ اماراتی حکومت پاکستانیوں کو دہشت گردی کے زاویہ سے دیکھتی ہے۔اس شخص نے اپنے بچوں کو ابوظہبی میں رہنے کے بجائے نیویارک منتقل کردیا تھا۔ ایک جگہ وہ جذباتی ہوگیا۔کہنے لگاکہ اس نے یہاں بہت دولت کمائی ہے۔ مگر اب ہجرت کرنا چاہتا ہے۔ کسی ترقی یافتہ ملک میں۔
یہ دوسال پہلے کی بات ہے جب یمن اورسعودی عرب میں جنگ ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اب کیاحالات ہیں، میںنہیں جانتا۔ اس بحث کاحصہ نہیں بننا چاہتاکہ ہمارے سیاستدانوں اورسرکاری اکابرین نے ناجائز طریقے سے کمایاہواکھربوںروپیہ خلیجی ریاستوں میں منتقل کیا ہے۔یہ نکتہ اہم ضرورہے مگریہ ایک جزو ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ قومی سرمایہ وہاں منتقل ہواہے۔وہاں کی بیشترعمارتوں اور گھروں کی ملکیت بے شک ہمارے صاحب ثروت لوگوں کے پاس ہے۔مگرآپ تصویرکادوسرارخ ضرور ملاحظہ فرمائیے۔کالے دھن کوسرکاری سرپرستی خلیجی ممالک نے دی کیونکہ اس سے ان کی خوشحالی میں اضافہ ہوتا ہے۔
اب آپکی توجہ ان ممالک کی عسکری قوت کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ مستند فوجی طاقت کوPower Index کانام دیا گیا ہے۔ یہ 126 ممالک کی طاقت کا غیر جذباتی موازنہ ہے۔U.A.Eکے پاس65,000فوجی ہیں۔ 545 ٹینک، 2204بکتربند گاڑیاں اور 54 راکٹ سسٹم (Multi Launch Rocket Systems)ہیں۔497 لڑاکا طیارے، 185 جنگی ہیلی کاپٹر ہیں۔75 بحری جہاز ہیں جن میں34جہازوں میں مکمل دفاعی قوت موجودہے۔ سعودی عرب کی فوج ڈھائی لاکھ ہے۔ 210ٹینک اور5472جدید ترین بکتربند موجود ہیں۔ راکٹ سسٹم322تک ہیں۔فضائیہ میں 675 جہاز ہیں۔بحریہ میں55بحری جہاز موجود ہیں۔مصرکے پاس پانچ لاکھ فوج ہے، فضائیہ اوردیگر ہتھیار بالکل الگ ہیں۔ اس کے برعکس یمن میںحوثی قبائل کے قبضہ سے پہلے کی فوجی قوت صرف 66000تھی۔یمن کے پاس 1260ٹینک اورتین ہزار بکتربندگاڑیاں تھیں۔ان میں اب کتنی استعمال میں ہیں،کسی کو کچھ پتہ نہیں۔یمن کی فضائی طاقت صفر ہے۔کیونکہ اس کے 180جہازوں کواڑانے والے نایاب ہوچکے ہیں۔
طاقت کاتمام توازن سعودی عرب اور اتحادی ممالک کی طرف ہے۔امریکی فضائیہ کی قوت بھی ان کے ساتھ ہے۔ میری سمجھ سے باہرہے کہ آٹھ لاکھ کے لگ بھگ عسکری قوت اور بہترین اسلحہ سے لیس ہونے کے باوجودتمام خلیجی ممالک یمن کے قبائلیوں سے اس قدر خوف ذدہ کیوں ہیں۔ دراصل خوف ان کے اندرموجود ہے۔ شائد جس طرزِحکومت سے چند خاندان اقتدار پر قابض ہیں، انھیں آزادی سے محروم عوام کی سرکشی سے ڈر لگتا ہے۔ اپنے ممالک میں جاری اس نارواظلم سے خوف ہے، جس کی آڑلے کرچندخاندان اپنے ملک کی تمام دولت پرقابض ہوچکے ہیں۔ یہ اپنی کمزوریوں کوفرقہ وارانہ چپقلش کا رنگ دیکر دوسرے ممالک سے ہمدردی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔مقام مقدسہ کی حفاظت ہمارے ایمان کاحصہ ہے،اس میں کوئی دوسری رائے نہیں مگریہ تمام عرب ممالک ہمیں کیوں اپنی لاحاصل جنگ کاحصہ بنانے پربضدہیں،شائدانھیں یمنی قبائل سے نہیں،اپنی ذاتی اور حکومتی کمزوریوں سے ڈرہے!

متعلقہ مضامین

Back to top button