مقالہ جات

سیدحسین الحوثی کون ہیں؟

’’ہم امریکہ اوراسرائیل سے جنگ کرناچاہتے ہیں،ہم خداکے دشمنوں کے ساتھ جنگ کرناچاہتے ہیں،ہم دیکھ رہے ہیں وہ مسلم ممالک میں گھومتے گھومتے اب ہمارے پاس پہنچ گئے ہیں، جی ہاں!وہ اب ہماری سرحدپرپہنچ چکے ہیں،ہم ان کے خلاف اپناموقف واضح رکھناچاہتے ہیں‘‘۔
’’اللہ اکبر،امریکہ مردہ باد،اسرائیل مردہ باد،یہودی پرخداکی لعنت ہو،اسلام زندہ باد‘‘۔
17جنوری2002ء کی بات ہے یمن کے صوبہ صعدہ کے علاقے مران میں واقع ایک مدرسے کے ہال میں یہ نعرے سنے گئے،یہ نعرے دراصل ایک سخت جنگ میں فائرنگ کرنے والوں کے خلاف لگائے جارہے تھے،یہ جنگ دراصل امریکہ نے سابق صدرعلی عبداللہ صالح کے ذریعے تھوپ دیاتھا،جس میں سعودی عرب حزب اصلاح(سلفی اوراخوان المسلمون) کے ذریعے عسکری کرداراداکررہاتھا۔
یمن میں حوثیوں کے خلاف6جنگیں مسلط کئے گئے،جن میں پہلی جنگ میں حوثیوں کے بانی سیدحسین الحوثی شہیدہوئے،اس پارٹی کوان کے ساتھ نسبت کی وجہ سے حوثی کہاجاتاہے،ان کی شہادت کے بعدایک جماعت نکل آئی جس نے اپنانام انصاراللہ رکھا،جواس کے بعد ہرآنے والے جنگوں میں مضبوط سے مضبوط ترہوتی گئی یہاں تک کہ وہ یمن کی سیاست کے ایک بہترین کھلاڑی کے طورپرابھرکرنکلی۔
انصاراللہ کون لوگ ہیں؟
جماعت انصاراللہ دراصل سیدحسین بدرالدین کے صوبہ صعدہ کے علاقے میں واقع مدرسہ الامام الہادی میں دیئے گئے لکچرزکے نتیجے میں وجودمیں آئی تھی،عبدالملک العجری اسٹراٹیجک ریسرچ سنیٹر کے ایک یمنی اکالر کے مطابق ’’ان کے لیکچرزکامقصد شروع میں توصرف ایک اصلاحی منصوبہ تھا لیکن بعدمیں آہستہ آہستہ فکری اور سیاسی تنظیم بن گئی۔
اسی لئے کہاجاسکتاہے کہ جماعت انصاراللہ نے سیدحسین الحوثی کے افکارکانچوڑہے جومختلف نشیب وفرازسے گزرتے ہوئے ان کی2004ء میں شہادت کے بعدختم ہونے کے بجائے ان کی ذات سے نکل کرمعاشرے میں مزیدپھیل گئی،جس کی بنیادپرسابقہ یمنی حکومت اوراس کے حلیفوں کی جانب سے پیش کئے جانے والے بیانات ہیں جوان پرالحوثی کے نام پڑنے کے مخالفت کرتی ہے،یہاں تک الحوثی کی شہادت ،وہ اس بات کونہیں مانتے تھے، اس لئے کہ وہ اس وقت ایک منظم جماعت بھی نہیں تھی جیساکہ آجکل تحریک انصاراللہ ہے،اس حوالے سے خود شہیدالحوثی کہتے تھے،’’ہماری کوئی جماعت نہیں ہے،نہ ہماری کوئی سیاسی جماعت ہے،ہم توچندمسلمانوں کےایک گروہ ہیں‘‘۔
اس حوالے سے انہوں نے مزیدکہاکہ ’’یہ جوجنگ ہمارے اوپرتھوپی گئی ہے وہ ہمارے امریکہ اور اسرائیل کے مخالفت اوران کی چیزوں کی بائیکاٹ کرنے،لوگوں کوقرآنی تعلیمات یاددلانےکی وجہ سے ہیں،جبکہ وہ امرایکہ کی احکامات کی نفاذچاہتے ہیں۔
سیدحسین الحوثی کون ہیں؟
سیدحسین الحوثی1959ء میں صوبہ صعدہ کے شہرالرویس میں پیداہوئے،اورانہوں ایک علمی ماحول میں پرورش پائی،اس لئے کہ ان کے والدسیدبدرالدین امیرالدین الحوثی یمن کے اندرزیدیوں کے ایک نمایاں مراجع علمی میں شمارہوتے تھے،یوں وہ ایک طرف توایک علمی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جبکہ دوسری جانب وہ سیاست سے بھی جدانہیں تھے۔
ان کے دادا علامہ امیرالدین ہمیشہ طاغوت کے ساتھ سخت مقابلہ کرتے رہتے تھے،یہاں تک کہ وہ اس نمازجمعہ کو ظالم جمعہ کہتے تھے جہاں ظالم حکام کے لئے دعائیں کی جاتی تھی،جیساکہ ان کے بہنوئی ڈاکٹر عبدالرحیم الحمران نے المنارٹی وی کوایک انٹرویومیں کہاتھا کہ ’’وہ کہتے تھے کہ اس دعاسے دراصل ظالموں کے چہرے پرخوشی کے آثارنمودارہوتے تھے‘‘۔لیکن الحوثی کے والدبڑی سختی کے ساتھ سیاسی امورمیں حصہ لیتے تھے،یہاں تک کہ وہ وضوکرتے وقت بھی ریڈیوسنتے رہتے تھے،ان کے چچا عبدالکریم الحوثی جو1962ء کے حادثے کے نتیجے میں مسجدمیں شہیدہوئے ہیں۔
ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعدحوثی باپ بیٹے کے اندرامام خمینی (قدس سرہ)کی محبت داخل ہونے لگی،جیساکہ دیگریمنیوں کے اندرہوتی تھی،امام خمینی نے دراصل یمن کے زیدیوں کی حقیقی ترجمانی کیے تھے،’’یہاں تک کہ بہت سارے یمنی علماء اس بات کے قائل ہیں کہ امام خمینی دراصل زیدی ہی ہیں‘‘،اس لئے کہ زیدیوں کی سوچ انقلابی ہے،ڈاکٹر الحمران کے مطابق جس کی اہم بنیاد ظالم حکمران کے خلاف خروج کرنا،اورمعاشرے میں امربالمعروف اورنہی عن المنکرکاقیام ہے۔
اسی لئے یمنی اوران میں سے خاص طورسے حوثی خاندان امام خمینی(قدس سرہ)کواس امت کے نجات دہندہ کہتے ہیں،اس لئے کہ انہوں نے ہی لوگوں کے قرآنی مصادیق کااحیاء کیا،اورامت کے لئے مشرق ومغرب کی سپرپاورحکومتوں کے مقابلے میں ایک اسلامی حکومت قائم کرکے ان کی امیدوں کوجلا بخشا ۔ ’’ہم نے دیکھاکہ امام خمینی کے زمانے میں جوممالک بھی اسلامی انقلاب ایران کے مقابلے میں آگئے وہ اپنے کیے کامزہ چکھ چکے ہیں،اوراسلامی جمہوری ایران کے مقابلے میں عراق کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے وہ آج تک امریکہ واسرائیل کے سخت دشمن بنے ہوئے ہیں،جبکہ امام خمینی (قدس سرہ) کی یہ دیرنہ خواہش تھی کہ وہ عربوں اورتمام مسلمانوں کوامریکہ اورمغربی چنگل سے آزاد کریں،وہ اسرائیل کوصفحہ ہستی سے مٹاناچاہتے تھے،لیکن یہاں سارے جاکراس کی دفاع کرنے لگتے ہیں،اورہم نے یہ بھی دیکھا کہ جوبھی جاکراسرائیل کے گودمیں بیٹھتاہے تووہ کس طرح اسے ڈھستا ہے، اورجواس کی مددکرتے ہیں وہ انہی کے ساتھ جنگ کرتے ہیں،مثال کے طورپرکیاکویت نہیں پِٹا؟ ،کیا عراق پرنہیں ماراگیا؟،اسی طرح سعودی عرب بھی عراق کے ہاتھوں پِٹ گیا،اوریہ کہ امریکہ کی طرف سے تواقتصادی حوالے سے بہت پِٹ گیاتھا،یہاں تک یمن سے بھی بہت سارے فوج ایران کے ساتھ لڑنے گئے تھے۔
امام خمینی ایک عادل امام تھے،ایک متقی امام تھے،اورحدیث نبوی ﷺکے مطابق امام عادل کی دعوت کبھی بھی ردنہیں ہوتی۔توقع ہے کہ یمنی صدراورفوج بھی عنقریب اپنے کیے کامزہ چکھ لیں گے۔
ایران کی طرف روانگی:
1986ءمیں سیدحسین الحوثی اپنے سسرکے ساتھ اسلامی جمہوی ایران کی طرف سفرکیے،اس حوالے سے ڈاکٹر عبدالرحیم الحمران بیان کرتے ہیں کہ’’سیدالحوثی اسلامی جمہوری ایران کی طرف پہلی بارایک انقلابی بن کرگئے،وہ بڑی مشکل کے بعد سرزمین ایران میں داخل ہوئے اس لئے کہ ایران وعراق جنگ کی وجہ سےمشکلات زیادہ تھے،امن وامان کی صورت حال ٹھیک نہیں تھی، اور سید اس وقت اتنازیادہ مشہوربھی نہیں تھے،سووہ ایک ماہ سوریامیں رکنے کے بعد بالآخرایران میں داخل ہونےمیں کامیاب ہوئے‘‘،جہاں انہوں نے وہاں پر18دن تک قیام کیاجس دوران انہوں نے عراقی اورایرانی بڑی بڑی شخصیات سے ملاقاتیں کی۔
ڈاکٹرالحمران سیدالحوثی سے نقل کرتے ہیں کہ’’ یہ جھنڈا دراصل امام خمینی(قدس سرہ) کا ہے کبھی بھی نہیں جھکےگا‘‘،یہاں تک کہ انہوں نے صدام حسین کی جانب سے تھوپی گئی جنگ سے اسلامی جمہوری انقلاب کی حفاظت کے لئے ایک مخصوص’’ بدرفورس‘‘ بنایا۔
1990میں سیدحسین الحوثی اوران کے والدنے چندزیدی قیادت سے ساتھ مل ایک ’’الحق پارٹی‘‘ بنائی لیکن بعدازآں یمنی اورسعودی حکومت نے اس پارٹی کی قیادت کے اندر پھوٹ ڈال دیا لیکن انہوں نے پارٹی کے اندراصلاح کرنے کی بھرپورکوشش کی لیکن جب انہیں اس میں کوئی امید نظر نہیں آئی جس کے نتیجے میں یہ دونوں باپ ،بیٹے پارٹی سے چنداہم قیادت سمیت ایک ہی دفعے میں 3ہزارافرادکولے کرعلیٰحدہ ہوگئے۔
اس کے بعد سیدحسین الحوثی ڈاکٹر عبدالرحیم الحمران سمیت ایک جماعت تنظیم’’ الشباب المؤمن‘‘ کے ساتھ مل گئے جس کوان کے بھائی محمدالحوثی اورچنددیگرجوانوں نے بنایاتھا،’’انہوں نے ہم سے مطالبہ کیا میں اورسیدحسین الحوثی اوردیگرافرادان کی تنظیم بنانے میں مددکریں،جن کے مقاصدمیں عوام کوانقلاب کے لئے آمادہ کرنا اوریمن میں ان کے خلاف اٹھنے والی وہابی افکارکاخاتمہ تھا‘‘۔
سیدحسین الحوثی نے صنعاءیونیورسٹی سے گریجویشن کیااور1993ءسے1997ءکے دوران یمنی پارلیمنٹ کے رکن مقررہوئے۔سیدحسین الحوثی کے عراق میں عتبات عالیہ کی زیارت کے دوران عراقی فوج کے کویت پرحملے کی وجہ سے طویل عرصے سرزمین عراق میں قیام کرناپڑا۔
1994ءمیں یمنی فوج اور سوشلسٹ پارٹی کے درمیان جنگ سے قبل علی عبداللہ صالح نے یمن کے علمائوں کوجمع کرکے ان سے سوشلسٹ پارٹی کے خلاف لڑنے کاموقف کامطالبہ تھاتاکہ ان کے خلاف عسکری آپریشن کیاجائے،اس موقع پر اصلاح پارٹی کی قیادت میں سے عبداللہ الاحمر کے مطابق عبداللہ صالح نے سوشلسٹ کے خلاف کاروائی کی پوری ذمہ داری ہی ان کے حوالے کیاتھاکیونکہ وہ مارکسی اورملحدتھے۔
عبداللہ صالح نے یمن کے جن علماءکے پاس گیاتھا ان میں سے ایک شیخ بدرالدین الحوثی بھی تھے جنہوں نے انکارکیاتھااورکہاتھاکہ سوشلسٹ کے خلاف جنگ کرنا ظلم ہے،سوادھروہ روزانہ اپنے اس موقف کااعادہ کرتے تھے تودوسری جانب سیدحسین الحوثی پارلیمنٹ کے اندرسے ان کی مخالفت کرتے ہوئے اس جنگ کوظلم گردانتے تھے،پھر آخرمیں علی عبداللہ صالح اپنے موقف سے پیچھے ہٹا اور ملحدسوشلسٹوں کے ساتھ اتحادقائم کیا۔
جب جنگ ختم ہوگئی توپھریمنی حکومت نے علامہ الحوثی کو قتل کرنے کی کوشش کی جس کے لئے انہوں نے ان کے سونے کمرے میں فائرنگ کی،حمید رزق کے مطابق علامہ بدرالدین کویہ معلوم ہو چکاتھاکہ ان کی زندگی کے لئے خطرہ لاحق ہوچکاہے لہٰذا ان کے قریبی ساتھیوں نے انہیں یمن سے نکلنے کامشورہ دیا،یوں علامہ الحوثی یمن سے سیدھاسعودی عرب کی طرف ہجرت کیا،لیکن وہاں کے شاہ فہدبن عبدالعزیزنے انہیں وہاں 10دن سے زیادہ قیام کرنے کی اجازت نہیں دیا،تووہاں سے اردن سے ہوتے شام ،پھروہاں ایران نکل گئے جہاں انہوں تقریباایک سال تک قیام کیا۔
1995ءکے اواخرمیں سیدحسین الحوثی اپنے والدکو صعدہ واپس لانے کے لئے دوبارایران گئے،لیکن خلاف معمول وہ کبھی لبنان نہیں گئے،اس کے بعدڈاکٹر عبدالرحیم الحمران کی ہمراہی میں مصرچلے گئے جہاں ان کی ملاقات اخوان المسلمین کے بانی سیف الاسلام شیخ حسن البناء کے فرزندسے ہوئی،جس نے انہیں جامعہ الازہرلے گئے جہاں پر صاحب کتاب (الفریضۃ الغائبۃ) شیخ محمد عبدالرحمٰن سے ملاقات ہوئی۔
اس کے بعدوہ الحمران کی ہمراہ حصول علم اپنے ماسٹرکی ڈگری مکمل کرنے کے لئے سوڈان چلے گئے جہاں ڈاکٹر الحمران کے مطابق انہوں نے مختلف اسلامی ممالک سے آئے ہوئے بہت سارے مشائخ اورطلاب سے استفادہ کیا۔
امریکہ مردہ باد:
11ستمبر2011ءسے کچھ عرصہ پہلے سیدحسین الحوثی اپنے والد کی بیوی (سیدعبدالملک الحوثی کی والدہ)کی بیماری کی وجہ سے دوبارہ مران واپس آگئے۔
امریکی صدرجارج بش کی جانب سےجب یہ اعلان کیا کہ دنیایاہمارے ساتھ ہوجائے یاہمارے مخالف ہوجائے ،توانہوں نے اس موقف کی اسی وقت فوراً ببانگ دہل مخالفت کی تھی اورکہا’’اسلام کے مرکز کے اندر کفر کا مرکزنہیں ہوناچاہیے‘‘۔اس دوران پھرحوثی نے بہت سارےاجتماعی کام کیے اور عوام الناس کی خوب خدمت کی،خاص طورسے اس وقت علاقے میں پسماندگی عروج پرتھی۔
پھرانہوں نے مدرسہ الامام الھادی کے ہال میں مختلف لیکچرزدینے لگے،خاص طورسے اس وقت جب امت اسلامی کے اندر سب سے بڑی بیمادی مسلمان ایک پلیٹ فارم میں جمع نہیں تھے،جس کی بنیادی وجہ ان کاقرآن کریم کی ےتعلیمات سے دوری تھی،سوانہوں نے لوگوں کو قرآن کریم کی طرف دعوت دیناشروع کیا،اس لئے کہ مسلمانوں کے درمیان نصوص قرآنی میں کوئی اختلافات نہیں تھے، حمیدرزق کے مطابق لہٰذا مسلمانوں کونصوص قرآنی سکھانے چاہیئے اورتفاسیرکے لئے انہیں خود محنت کرنی چاہیئے۔اس کے بعدنام نہاددہشت گردی کے نام پر امریکی حملوں کے بعد جہاں وہ افغانستان اورعراق میں اسی بہانے داخل ہواتھا،توسیدالحوثی اوران کے پیروکاروں نے’’ اللہ اکبر،امریکہ مردہ باد،اسرائیل مردہ با،یہودی پرلعنت ہو،اسلام زندہ باد‘‘،کے نعرے بلندکیے تھے۔
یہ سن کراسی وقت فوراً یمنی صدرنے پیغام بھیجا کہ وہ ان نعروں کوفوری طورسے بند کریں ورنہ وہ ان کے ساتھ اچھاسلوک نہیں کرےگا،سیدحسین الحوثی سمجھ گئے تھے صدرجنرل محسن الاحمرکے ذریعے ان کویہ دھمکیاں دے رہے تھے،جس کے بارے میں مشہورتھا کہ سعودی وہابی افکارسے زیادہ متأثر تھا، عبدالرحیم الحمران کے مطابق ادھرسیدالحوثی اس کے جواب میں فوراً کہا کہ ’’میرالوگوں پر کنٹرول تھوڑاہے جومیں ان کوروک دوں،لیکن اگرتم کرسکتے ہوتواس نعرے کوجرم قراردینے کے لئے کوئی قانون بنائو‘‘۔
پھرسیدالحوثی نے ان نعروں کوترک کردیا،اس کے بعد بلاواسطہ امریکہ اورسعودی عرب کی مدد سے یمن پرجنگ کی ابتداء کردی گئی ،اس وقت صدرعبداللہ صالح نے سیدالحوثی کے پاس ایک وفدبھیجا تاکہ وہ صنعاء میں آکران سے ملاقات کریں، لیکن انہوں نے منع کیااورکہلابھیجا کہ’’ ہم عنقریب انشاءاللہ مفاہمت کے لئے کسی مناسب وقت پرآئیں گے‘‘، اب چونکہ جنگ کافیصلہ پہلے ہی سے ہو چکاتھا سوعبداللہ صالح نے یہ پروپیگنڈاپھیلادیاکہ سیدالحوثی کسی بھی صورت ان کے ساتھملاقات کے تیارنہیں ہیں، یوں2004ء کی جنگ کاعلان ہوگیا۔
اس موقع پر عبداللہ صالح نے امریکہ کوراضی کرنے کے لئے حوثیوں کوختم کرنے کاارادہ کرلیا اور دوسری جانب سعودی عرب کی رضایت حاصل کرنے کے لئے صدام حسین کی خوب مدد کی،اس طرح ایک طرف امریکہ نے اسرائیل کی مددسے یمن پرحملے کیا اگرچہ ان کوپتاتھا کہ حوثی اتنی آسانی سے جھکنے والے نہیں ہیں،دوسری جانب سعودی عرب کوتوپہلے سے ہی انتقامی سوچ تھا اس لئے کہ شاہ فہدنے سیدحسین الحوثی کے والدکووہاں قیام کی اجازت نہیں دی تھی۔
پہلی جنگ:2004ء:
حوثیوں کے خلاف ہونے والی اس پہلی جنگ میں شمالی علاقوں میں یمنی فوج کی قیادت اس وقت کے جنرل محسن الاحمرکررہاتھا جس کے کمانڈمیں فوج کاایک بہت بڑادستہ تھا،ڈاکٹر عبدالرحیم الحمران کے مطابق اس وقت 12 امریکی آفیسروں کے پاس کا آپریشن رومزموجودتھے۔
انہوں نے اس علاقے کااس طرح سے محاصرہ کیاہواتھا کہ 82دن تک وہاں پرایک دوھ کاپیکٹ بھی داخل ہواتھا ، اگران کے بس میں ہوتاتووہ وہاں سے قدرتی ہواکوبھی کاٹ دیتے ،انہوں نے وہاں پرکسی میڈیاکوبھی جانے کی اجازت نہیں دی،اس دوران جوسب سے قریب ترین میڈیااگرکوئی تھا توہ العربیہ ٹی وی تھا،جو مران سے 50

کلومیٹر کے فاصلے پرسے رپورٹ کرتاتھا۔
اس پہلی جنگ میں یمنی حکومت نے حوثیوں کے قتل وغارت گری ایک بہت بڑابازارگرم دیاتھا،جیساکہ اس وقت بی بی سی کے رپورٹرنے بڑی مشکل سے سیدحسین الحوثی سے جب رابطہ کرکے ان کاایک انٹرویولیاتوانہوں نے کہا’’ انہوں نے ہمارے اوپرایک دن اتنے حملے کیے ہیں کہ جتنے امریکہ نے بغداد اورفلوجہ میں نہیں کیاتھا‘‘ لیکن اس وقت زیادہ امکانیات نہ ہونے کے باوجود حوثی مجاہدوں نے بہادری کے اعلیٰ مثال قائم کیے۔
ایک دفعہ یمنی فوج نے سیدحسین الحوثی کوشہیدکرنے کے لئے رات کوایک بڑامنصوبہ بنالیا جہاں وہ ان پیچھا کر کے ان کے ٹھکانے’’جرف سلمان‘‘ پہنچ گئی وہاں پرانہوں نے ایک بہت بڑادھماکہ کیاجس کے نتیجے میں بہت سارے افرادشہیدہوئے اس دوران سیدحسین الحوثی کے بھی سر،ٹانگیں اوردونوں آنکھوں میں شدیدچوٹ آگئی ، اس کے علاوہ سیدکے چچازادبھائی عبدالحکیم بھی اس حملے میں شہیدہوئے، اس کے بعدجب سیدالحوثی کو فوج نے وہاں سے گرفتارکیا،سیدکے دامادکے مطابق ایک فوجی آفیسرجوآج بھی منصورہادی کی قیادت میں شامل ہے نے کسی نامعلوم شخص سے ٹیلیفون پرگفتگوکرنے کے بعداپناپستول نکال دیااورسیدالحوثی کے سینے کی طرف کیااورفائرکھول دیا یوں سیدالحوثی نے جام شہادت نوش کیا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button