پاکستان

جے یو آئی ف کی حمایت پر پی پی رہنماءفکرمند

اسلام آباد : پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماﺅں کی اکثریت اپنی قیادت کی جانب سے مولانا عبدالغفور حیدری کو سینیٹ کا ڈپٹی چیئرمین بنائے جانے کے فیصلے پر ناخوش ہے۔

پس منظر میں کی جان والی گفتگو میں پارٹی رہنماﺅں کی بڑی تعداد نے اس فیصلے کو ” حیران کردینے والا قرار دیا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ مولانا کو ووٹ دینا ان کی پارٹی کے لیے مستقل داغ بن کر رہ جائے گا ۔

پی پی کے ایک سنیئر رکن پارلیمنٹ نے ڈان کو بتایا ” یہ اقدام آصف علی زرداری کے ایک اور برے فیصلے کے طور پر یاد رکھا جائے گا، جو ہوسکتا ہے کہ اس انداز سے طاقت تو حاصل کرلیں مگر اسسے پارٹی کی بنیادوں کو طاقتور دھکا لگا ہے”۔

مگر سوال اب بھی باقی ہے ، وہ کیا وجہ تھی جس نےپی پی پی کو دائیں بازو کے جے یو آئی ف کے امیدوار کو ووٹ دینے پر مجبور کیا؟

پی پی پی ذرائع کے مطابق یہ آصف علی زرداری اور جے یو آئی ف کے سرباہ مولانا فضل الرحمان کے درمیان ایک غیرتحریری معاہدے کا نتیجہ ہے، اس معاہدے کی شرائط کے مطابق اگر مولانا پی پی پی کو سینیٹ کا اعلیٰ ترین عہدہ جیتنے میں مدد فراہم کریں گے تو جواب میں پیپلزپارٹی جے یو آئی ف کے ڈپٹی چیئرمین کے امیدوار کی حمایت کرے گی۔

پی پی پی کے ایک اندرونی ذرائع کے مطابق سابق سینیٹر ڈاکٹر قیوم سومرو نے دونوں رہنماﺅں کے درمیان ‘ ہینڈلر’ کا کردار ادا کیا۔

پارٹی ذرائع کے مطابق دونوں رہنماﺅں نے سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات کے دوران ایک سے زائد بار ملاقاتیں کیں جس کے دوران اس منصوبے کو تیار کیا گیا۔

پی پی کے ایک ذرائع کے مطابق ” گیارہ مارچ کو وزیراعظم نواز شریف اور جے یو آئی ف کے سربراہ کے درمیان ون آن ون ملاقات کے بعد، جب وزیراعظم نے پی پی پی امیدوار کی غیرمشروط حمایت کا اعلان کیا، یہ بات واضح ہوگءتھی کہ مولانا فضل الرحمان سینیٹ کی ڈپٹی چیئرمین شپ سے کم پر نہیں مانے گے”۔

پی پی پی کی جانب سے مولانا عبدالغفور حیدری کی حمایت کے فیصلے پر جو دوسری پارٹی سرپرائز کا شکار ہوئی وہ مسلم لیگ قائداعظم ہے۔

ق لیگ کے سیکرٹری اطلاعات کامل علی آغا نے ڈان کو بتایا ” ہم نہیں جانتے کہ پردے کے پیچھے کیا ہوا مگر آخری لمحے تک پی پی پی کی جانب سے ہمیں یقین دلایا جارہا تھا کہ اس کی جانب سے ہمارے امیدوار کی حمایت کی جائے گی”۔

بلوچستان کے کسی رکن کو ڈپٹی چیئرمین شپ کے لیے منتخب کرنے کے فیصلے کے مطابق ق لیگ اپنے امیدوار کو مقابلے میں لانا چاہتی تھی۔

کامل علی آغا نے ڈان کو بتایا ” پی پی پی قیادت نے بدھ کی رات کسی وقت یہ خبر دی تھی کہ حکومت کی جانب سے جے یو آئی ف کے امیدوار کی حمایت کی جارہی ہے لہذا پارٹی نے بھی اسی لائن پر چلنے کا فیصلہ کیا”۔

یہ مسلم لیگ ق کے لیے مکمل سرپرائز تھا، کامل علی آغا نے کہا کہ تاہم دو بڑی جماعتوں کی جانب سے جے یو آئی ف کے پشت پر کھڑے ہونے کے بعد ” ہمارے پاس اس آپشن کو اپنانے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا تھا”۔

انہوں نے کہا کہ یہ وقت ہی بتائے کہ پی پی پی کے جے یو آئی ف کو ووٹ دینے کے فیصلے کا کیا نتیجہ سامنے آتا ہے۔

ان تمام سرگرمیوں سے واقف ذرائع کے مطابق بدھ کی رات خاص طور پر پرجوش وقت تھا اور اس جے یو آئی ف کو ڈپٹی چیئرمین شپ دینے کے فیصلے کے بعد پی پی پی کے اندر کچھ افراد نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان اس پوزیشن کے لیے کس کو منتخب کریں گے۔

اس بحث کے شرکاءکے مطابق جے یو آئی ف کے سربراہ نے ابتدائی طور پر حافظ حمداللہ کا نام دیا، ان موقع پر اعتزاز احسن اور شیری رحمان نے جے یو آئی ف کے رہنماءسے کہا کہ خواتین مخالف نظریات کے باعث حافظ حمد اللہ کی بجائے کسی اور امیدوار کو سامنے لایا جائے۔

خطرے کا احساس کرتے ہوئے جے یو آئی ف نے مولانا عبدالغفور حیدری کا نام پیش کردیا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button