مقالہ جات

امامیہ مسجد پشاور پر دہشگردانہ حملے کی کہانی

13 فروری 2015ء کو امامیہ مسجد حیات آباد میں نماز جمعہ ادا کی جا رہی تھی، مسجد میں چار سو کے لگ بھگ نمازی خداوند کریم کی بارگاہ میں نماز کی آخری رکعت میں سربسجود تھے کہ اچانک فائرنگ کی آواز آئی، پیش امام علامہ نذیر حسین مطہری نے نماز جاری رکھی، اسی دوران فائرنگ کی آواز میں مزید شدت آگئی، اور دھماکہ (ہینڈ گرنیڈ حملہ) کی آواز سنائی دی، نماز ختم ہوتے ہی نمازیوں کو معلوم ہو چلا تھا کہ خدا کے دشمنوں نے خدا کے گھر پر دہشتگردانہ حملہ کر دیا ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق 3 دہشتگرد مسجد کی پچھلی طرف سے زیر تعمیر عمارت کی دیوار سے خار دار تار کاٹنے کے بعد داخل ہوئے، تینوں نے خودکش جیکٹس بھی پہن رکھی تھیں، انہوں نے سب سے پہلے فائرنگ کی اور پھر مسجد کی دیوار کیساتھ ہینڈ گرنیڈ کا دھماکہ کیا، ایک دہشتگرد (بعض عینی شاہدین کے مطابق ایک سے زائد) مسجد کے ساتھ واقع زیر تعمیر عمارت سے مسجد کے مین گیٹ پر مسلسل فائرنگ کرتا رہا، تاکہ باہر موجود محافظین مسجد کے اندر داخل نہ ہوسکیں۔

دہشتگردوں کے پاس چھوٹے راکٹ لانچر بھی موجود تھے، جو انہوں نے مین گیٹ کی طرف بھی داغے، اس دوران تینوں خودکش حملہ آور مسجد کے ہال میں پہنچ چکے تھے، اور نمازیوں پر فائرنگ کرنے لگے، اس موقع پر پاراچنار سے تعلق رکھنے والے نوجوان عباس علی اور لیہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان کاشف علی نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک خودکش حملہ آور کو قابو کرلیا، کاشف علی نے خودکش کو قابو کیا، اور عباس علی نے خودکش دہشتگرد کی گردن مروڑ کر اسے واصل جہنم کردیا، اس دوران باقی دو دہشتگرد گھبرا گئے، وہ کبھی مسجد کے ہال میں داخل ہوتے تو کبھی صحن میں آجاتے، کیونکہ ہال میں موجود باہمت اور شجاع نمازیوں کی جانب سے نہتے ہونے کے باوجود دہشتگردوں کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، جبکہ دوسری طرف عقبی عمارت سے دہشتگرد مسلسل مسجد کے مین گیٹ پر گولیاں برسانے میں مصروف تھا۔

اس دوران ایک خودکش حملہ آور نے ہواس باختہ ہوکر مسجد کے برآمد میں خود کو اڑا دیا، اس دہشتگرد کے خود کو ہلاک کرنے کے نتیجے میں کوئی نمازی شہید نہیں ہوا، تاہم تیسرے خودکش حملہ آور نے مسجد کے ہال میں آکر دھماکہ کر دیا، اس دھماکہ کے باعث زیادہ جانی نقصان ہوا، دہشتگردوں کا یہ حملہ لگ بھگ 25 منٹ سے زائد جاری رہا، حملہ میں 22 نمازی خدا کے گھر کو اپنے پاک لہو سے رنگین کرتے ہوئے درجہ شہادت پر فائز ہوگئے، جن میں ایک دہشتگرد کو ہلاک کرنے والا نوجوان عباس علی بھی شہید ہوا، جبکہ دوسرا بہادر نوجوان کاشف علی شدید زخمی ہوا، جس نے اگلے روز زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جام شہادت نوش کیا، بعض عینی شاہدین کے مطابق زیر تعمیر عمارت سے فائرنگ کرنے والے دہشتگرد کو ایف سی اہلکاروں نے حراست میں لے لیا تھا، تاہم اس دہشتگرد کی مبینہ گرفتاری کو منظر عام پر نہیں لایا گیا۔

جامع مسجد امامیہ کے خطیب علامہ نذیر حسین مطہری کے مطابق آخری رکعت کے دوران دہشتگرد مسجد پر حملہ آور ہوئے، میں نے نماز جاری رکھی، اس کے بعد بلند حوصلہ نمازیوں نے نعرہ بازی شروع کردی، مجھے بتایا گیا کہ مسجد کے اوپر کمرے میں موجود میرے بیٹے محمد حسین کو گولی لگی ہے، میں نے دیکھا تو وہ شہید ہوچکا تھا، جب اسے نیچے لائے تو دوسرا بیٹا مہدی حسین خودکش حملہ کا نشانہ بنتے ہوئے زخمی ہوگیا، انہوں نے کہا کہ نمازیوں نے جس ہمت اور استقامت کا مظاہرہ کیا، اس کے نتیجے میں دہشتگرد اپنے ہدف کو سو فیصد حاصل نہیں کرسکے، میرا ایک بیٹا نہیں بلکہ 22 بیٹے اور بھائی شہید ہوئے ہیں، دشمن کی یہ خواہش ہے کہ ہم مسجدوں اور امام بارگاہوں کو ویران کر دینگے، لیکن آپ نے دیکھا کہ اس سانحہ کے بعد آنے والے جمعہ کو اور پھر اب گذشتہ روز نماز جمعہ نمازیوں کی پہلے سے کہیں زیادہ شرکت نے دہشتگردوں کے عزائم خاک میں ملا دیئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button