دنیا

میانمار ریفرنڈم: مسلمانوں کی شرکت غیر یقینی

میانمار میں ہونے والے ریفرنڈم میں روہنگیا مسلمانوں کی شرکت پر مبنی پارلیمانی فیصلے کے خلاف اس ملک کے بعض سیاسی رہنماؤں نے احتجاجی مطاہرے کرنے کی دھمکی دی ہے-
میانمار کی پارلیمنٹ نے روہنگیا مسلمانوں کو بنیادی آئین میں ترمیم کیلئے ہونے والے ریفرنڈم میں عارضی شناختی کارڈ پر شرکت کرنے کی منظوری دی ہے تاہم اس ملک کے بعض سیاسی رہنماؤں نے پارلیمنٹ کے اس فیصلے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کرنے کی دھمکی دی ہے- میانمار کے صوبے راخین میں گیارہ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان، سخت حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں- میانمار کے بودھ انتہا پسند مذہبی و سیاسی رہنما، ملک میں روہنگیا مسلمانوں کے وجود کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں جبکہ مسلمان، میانمار کی اقلیتی برادری شمار ہوتی ہے- گذشتہ چند برسوں کے دوران بودھ انتہا پسندوں کے دباؤ اور مسلمانوں پر ہونے والے حملوں کے نتیجے میں روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا ہے جبکہ ہزاروں دیگر نقل مکانی کرکے پڑوسی ملکوں ميں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں- میانمار میں جو مسلمان باقی بچے تھے حکومت نے انھیں وائٹ کارڈ دیا تھا جس کی بنیاد پر انھیں سنہ دو ہزار آٹھ کے ریفرنڈم میں شرکت کی اجازت بھی دی گئی تھی اور اب میانمار کی پارلیمنٹ نے اسی کارڈ کی بنیاد پر بنیادی آئين میں ترمیم کیلئے، ہونے والے ریفرنڈم میں شرکت کی اجازت دی ہے کہ جس پر انتہا پسند بدھسٹوں نے احتجاج کیا ہے- ببتایا جاتاہے کہ آئین میں ممکنہ تبدیلی کے بعد حزب اختلاف کی رہنما آنک سان سوچی کو صدارتی انتخابات میں شرکت کرنے کا حق حاصل ہوجائے گا- موجودہ آئین میں بیرون ملک پیدا ہونے افراد یا ایسے کسی بھی فرد کو صدارتی انتخابات میں امیدوار کی حیثیت سے شرکت کرنے کا حق حاصل نہیں ہے کہ جس نے کسی غیر ملکی فرد کے ساتھ شادی کی ہو- اس سے قبل اعلان کیا گيا تھا کہ ریفرنڈم مئی میں کرایا جائےگا جبکہ اسی سال نومبر کے مہینے میں میانمار میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں-

متعلقہ مضامین

Back to top button