پاکستان

دیوبندی دہشتگرد عصمت اللہ معاویہ تاحال دہشت گردوں کی فہرست میں شامل

اگرچہ اعلیٰ حکام پشاور سانحے کے بعد اچھے اور برے طالبان میں فرق ختم کرنے کے دعوے دہرا رہے ہیں تاہم لگتا ہے کہ پنجابی طالبان کے امیر کمانڈر عصمت اللہ معاویہ کو دہشت گردانہ سرگرمیوں سے علیحدگی کے اعلان کے بعد معاف کیا جا چکا ہے اور ان کے درجنوں دہشت گرد حملوں میں ملوث ہونے جس میں سینکڑوں مسلمان و عیسائی لقمہ اجل بنے کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ حکومت پاکستان نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کو حالیہ دورہ پاکستان کے دوران یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اچھے اور برے طالبان میں فرق نہیں کریں گے۔ اس سے قبل بھی وزیراعظم نوازشریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنے الگ الگ بیانات میں اچھے اور برے طالبان میں تمیز نہ کرنے سے متعلق بیانات دیئے اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا لیکن ایسے واضح اشارے مل رہے ہیں جو واضح کرتے ہیں کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے چند جہادی عناصر تاحال ’’گڈ‘‘ طالبان کے طورپر لئے جارہے ہیں اور ان کے ساتھ ترجیحی سلوک کیا جارہا ہے۔ دراصل عسکری سرگرمیاں ترک کرنے اور امن معاہدے کے بعد پاکستانی حکام نے عصمت اللہ معاویہ کو پنجاب کے ضلع وہاڑی میں رہنے کی اجازت دے دی حالانکہ انہوں نے 22 ستمبر 2013ء کے چرچ پر حملے جس میں 80 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے تھے اور لاہور میں احمدیوں کی 2 عبادگاہوں جن میں 100 سے زائد افراد نے جان گنوائی سمیت متعدد خونخوار حملوں کی ذمہ داری قبول کرچکا ہے نومبر 2007ء میں آئی ایس آئی کی بسوں پر خودکش حملے جن میں 38 افراد، 2008ء میں میریٹ ہوٹل پر بمباری جس میں 58 افراد، مارچ 2009ء میں لاہور میں مناواں ٹریننگ اسکول حملہ جس میں 22 افراد، اکتوبر 2009ء میں راولپنڈی میں جی ایچ کیو پر حملہ جس میں 13 افراد، دسمبر 2009ء میں لاہور کی مون مارکیٹ میں ہونے والا خودکش بم حملہ جس میں 54 افراد، دسمبر 2009ء میں پریڈلین مسجد راولپنڈی حملہ جس میں 36 افراد اور جولائی 2010ء میں داتا دربار پر خودکش حملہ جس میں 51 افراد جاں بحق ہوئے۔ علاوہ ازیں جولائی 2012ء میں کے پی کے کے لاہور میں زیرتربیت 10 پولیس اہلکاروں کا ذبح کئے جانا، جولائی 2012ء میں وزیرآباد میں آرمی کیمپ پر حملے میں 7 افراد کا قتل اور جون 2013ء میں نانگا پربت پر 10 غیر ملکی کوہ پیمائوں کا قتل وہ نمایاں واقعات ہیں جن کا معاویہ کو ماسٹر مائنڈ قرار دیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے فوجی عدالتوں میں اس کے کسی جرم کا ٹرائل نہیں ہورہا۔ معاویہ جو کہ لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کا قریبی سمجھا جاتا ہے کوئی معمولی شدت پسند نہیں بلکہ ایک بے رحم رہنما ہے جو 2007ء میں ہونے والے لال مسجد آپریشن کے بعد پاکستان میں ہونے والی خونریزی پھیلانے کا تن تنہا ذمہ دار ہے۔ دراصل وہ پنجابی طالبان کیلئے سکیورٹی فورسز اور انٹیلی جنس اداروں پر حملوں کیلئے نظریاتی منصوبہ بندی کرتا ہے اس نے مولانا مسعود اظہر کی سربراہی میں چلنے والی جیش محمد (جے ای ایم) سے کیا۔ جے ای ایم کے برطرف ہونے کے بعد معاویہ نے پہلے سپاہ صحابہ پاکستان اور بعد ازاں اس کے مسلح ونگ لشکر جھنگوی میں شمولیت اختیار کر لی۔ جنود حفصہ کی بنیاد رکھی اور آخر میں پنجابی طالبان کا امیر بن گیا۔ جنود حفصہ کو 2007ء میں لال مسجد کیخلاف ہونے والے آپریشن کے بعد خصوصی طور پرتیار کیا گیا۔ جنوبی پنجاب کے ضلع وہاڑی سے آنے کے بعد معاویہ ان چند رہنمائوں میں شریک ہو گیا جن کے القاعدہ کے ساتھ قریبی روابط تھے اور تاحال عسکریت پسندوں کے حلقوں میں کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ پنجابی طالبان کے سربراہ معاویہ نے کشمیر اور افغان جہاد میں جیش محمد کے پلیٹ فارم سے سرگرم کردار ادا کیا۔ معاویہ فروری 2013ء میں جامعہ حفصہ کے اردو فورم پر جاری ہونے والی اس پراپیگنڈہ ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد منظرعام پر آیا جس میں اس نے لشکر طیبہ کے اجمل قصاب اور لشکر جھنگوی کے افضال گروو کو ممبئی حملوں اور بھارتی پارلیمنٹ حملوں میں ملوث ہونے پر پھانسی کی سزا ملنے کے بعد خراج تحسین پیش کیا تھا۔ معاویہ کا کہنا تھا کہ ’’یہ پھانسیاں بھارت پر حملوں اور کشمیر کی آزادی کیلئے جہادی کوششوں کو مضبوط کریں گی‘‘۔ دوسری جانب اس نے دھمکی دی کہ مستقبل قریب میں بھارت پر حملوں میں اضافہ ہو گا اور امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے بعد جہادیوں کی توجہ ایک بار پھر کشمیر کی طرف ہو گی۔ لال مسجد آپریشن کی پیروی کرتے ہوئے معاویہ کی سربراہی میں پنجابی طالبان کے خودکش بمباروں اور فدائی حملہ آوروں نے پاکستان کے کونے کونے میں تباہی مچاتے ہوئے خون کی ہولی کھیلی۔ اس دوران انہوںنے سکیورٹی فورسز، جاسوس اداروں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، پاکستان میں امریکی مفادات، اقلیتوں خصوصاً عیسائیوں، احمدیوں، شیعہ برادری، بریلیوں اور صوفیوں کو بطور خاص نشانہ بنایا۔ افغانستان تک آزادانہ رسائی رکھنے کے باعث اس نے تحریک طالبان پاکستان اور القاعدہ کے ساتھ اس قدر قریبی تعلقات پیدا کر لئے کہ بعد ازاں طالبان کا پنجابی باب کھولنے کے قابل ہو گیا۔ اعلیٰ تربیت یافتہ مبلغ اور برین واشنگ میں مہارت کے باعث وہ مرکزی ایجنٹ بن گیا جس کا کام پنجاب میں ٹی ٹی پی کے لئے بھرتیاں کرنا تھا۔ پنجاب میں وہ طاقتور انٹیلی جنس اور حمایتی نیٹ ورک رکھتا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کا میڈیا ونگ اپنی ویڈیوز میں اس کے خطاب کو ترجیحی بنیادوں پر شامل کرتا ہے کیونکہ اس کی تقاریر کو نوجوانوںکی برین واشنگ کرنے کے حوالے سے کافی اثر انداز سمجھا جاتا ہے۔ معاویہ ہی نے 2009ء میں سوات میں جاری آپریشن راہ راست میں پاکستانی فورسز کیخلاف لڑنے کیلئے اپنے کارندے بھیجے۔ 2009ء میں راولپنڈی میں جی ایچ کیو میں طوفان برپا کرنے والے فدائی حملہ آوروں کا لیڈر ڈاکٹر عثمان معاویہ کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا تھا جس کی 2013ء میں اس لئے پھانسی روک دی گئی تھی کہ طالبان نے بدلے میں شریف خاندان پر حملے کی دھمکیاں دی تھیں۔ سانحہ پشاور کے بعد دسمبر 2014ء کو معاویہ کی تائید اس وقت کے امیر جماعت اسلامی منور حسن کے اس متنازع بیان سے ملی جس میں انہوں نے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کو بے دین فورسز کی کارروائی میں عظیم شہادت قرار دیدیا۔ معاویہ کی مزید تائید کرتے ہوئے منور حسن نے یہ کہہ بھی دیا کہ طالبان کیخلاف لڑائی میں جاں بحق ہونے والے پاکستانی فوجی شہید نہیں ہیں۔طویل خونی جرائم کے بعد معاویہ کو ایسے وقت میں چھوڑ دیا گیا جب پاکستانی فوج وزیرستان میں طالبان مافیا کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ لڑ رہی ہے۔ معاوضہ نے شمالی وزیرستان میں ہونے والے ملٹری آپریشن کے تین ماہ بعد ہی 12 ستمبر 2014ء کو عسکری سرگرمیاں ترک کرنے اور دعوت و تبلیغ کا کام شروع کرنے کا اعلان کردیا۔ اس کا کہنا تھا کہ خطے کی صورتحال کے باعث ہم تحریک کی عسکری سرگرمیاں افغانستان منتقل کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا گروپ افغانستان میں ملا عمر کی ہدایات کے مطابق کارروائیاں کرے گا جبکہ پاکستان میں اس کی سرگرمیاں صرف اسلام اور شریعت کی تبلیغ تک محدود ہوں گی۔ غیرملکی فورسز کے خلاف جہاد کا دفاع کرتے ہوئے معاویہ کا کہنا تھا کہ وہ افغانستان پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں۔ مسلح جدوجہد ترک کرنے کے اعلان کے ایک دن بعد 13 ستمبر 2014ء کو معاویہ نے اپنے اعلان کی پیروی کرتے ہوئے میرانشاہ میں سرنڈر کیا۔ معاویہ کے ساتھ ہونے والے معاہدے سے متعلق کوئی خبر نہیں ہے کہ کس معاہدے کے تحت وہ اچھے طالبان میں شامل ہوا جس سے اسے اس بات کی اجازت مل گئی کہ وہ بغیر کسی رکاوٹ کے ملک بھر میں آزادانہ گھوم سکتا ہے۔ معاویہ کی جانب سے پاکستان میں مسلح جدوجہد کے خاتمے اور افغانستان میں شروع کرنے کے اعلان پر اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں کافی تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ ایسی اطلاعات سننے کو مل رہی ہیں جن کے مطابق پنجابی طالبان سرحد کے آر پار کارروائیوں کیلئے حقانی نیٹ ورک سے منسلک ہورہے ہیں۔ 24 اکتوبر 2014ء کو جب خبرنگار نے سرتاج عزیز سے معاویہ کے افغانستان پر توجہ مرکوز کرنے کے اعلان سے متعلق موقف پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت کسی بھی عسکریت پسند گروپ کی نہ تو سرپرستی کرتی ہے نہ ہی دفاع۔ معاویہ کے اعلان کے ایک دن بعد افغان وزارت خارجہ نے 13 ستمبر 2014ء کو کابل میں پاکستانی سفیر معظم شاہ کو طلب کرکے شدید تحفظات کا اظہار کیا لیکن ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم باجوہ نے سفارتی حلقوں کے تحفظات پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہشت گرد گروپ ہونے کے باعث شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک بھی فوجی کارروائیوں کا نشانہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سکیورٹی فورسز کیلئے ٹی ٹی پی یا حقانی نیٹ ورک میں کوئی فرق نہیں ہے۔ تمام دہشت گرد گروپوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے جی ایچ کیو سب ملٹری آپریشن سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا تھا۔ اسلام آباد میں باخبر مغربی سفارتی حلقوں کو اب بھی یقین ہے کہ ملٹری آپریشن شروع ہونے سے قبل اپریل اور مئی 2014 میں حقانی نیٹ ورک کے متعدد رہنما اور جنگجو فاٹا میں کرم ایجنسی کے علاقوں شالوزان، نارائی، مقبل اور شاپو میں فرار ہوگئے تھے۔ 1980ء میں افغانستان میں سوویت یونین کیخلاف جنگ کے دوران کرم ایجنسی سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کیلئے مرکزی اور محفوظ ترین پناہ گاہ تھی جہاں سے وہ افغانستان میں موجود روسی فوجوں پر حملہ کرتے تھے۔ حقانی نیٹ ورک کی اس وقت سے ہی یہاں مضبوط جڑیں ہیں جب پاکستان آرمی نے شیعہ مخالف کارروائیاں بڑھنے پر جولائی 2011ء میں کوہ سفید کے نام سے آپریشن کیا تھا۔ پاک افغان سرحد پر واقع ہونے کے باوجود کرم ایجنسی امریکی ڈرون حملوں کا عام ٹارگٹ نہیں ہے۔ جہاں ڈرون حملوں میں حقانی نیٹ ورک کے کی رہنما مارے گئے ہیں۔ کرم ایجنسی کا شالوزان علاقہ حقانی نیٹ ورک کا نیا ہیڈ کوارٹر ہو سکتا ہے کیونکہ اسٹریٹجک لحاظ سے یہ کوہ سفید کے دامن میں ہے اور جنگجوئوں کو کابل تک فوری رسائی دیتا ہے لیکن پاکستان کے ملٹری حلقے میں کرم ایجنسی میں حقانی نیٹ ورک کی موجودگی کو مسترد کیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ آپریشن ضرب عضب پاکستان کی بقاء کی جنگ کہتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پاکستانی فوج تمام مسلح گروپوں کیخلاف کارروائی کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 13 جنوری کو امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے ملاقات کے دوران آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ان سے افغانستان میں عسکریت پسندوں کےمحفوظ ٹھکانوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ ان حلقوں کا مزید کہنا ہے کہ آرمی چیف نے جان کیری پر واضح کر دیا ہے کہ پاکستان نے اپنے علاقوں میں سے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ کر دیا ہے اور اب سرحد پار ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button