پاکستان

مولوی (برقعہ ) کے دہشتگردوں نے جبران ناصر کے خلاف سوشل میڈیا مہم شروع کردی

اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت میں قائم لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز اور سول سوسائٹی کے اراکین کے مابین تنازع نے ایک تشویش ناک رخ اختیار کرلیا ہے اورعسکریت پسند گروپوں کی جانب سے دھمکیاں دیئے جانے کے بعد اب ان مظاہروں کے منتظمین کے خلاف سماجی ویب سائٹس پر بھی ایسی مہم کا آغاز کردیا گیا ہے، جو ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔

لال مسجد کو مولانا عبدالعزیز سے خالی کروانے کی مہم کے روح رواں اور ہیومن رائٹس کے حوالے سے سرگرم کارکن محمد جبران ناصر کو سوشل میڈیا پر غیر مسلم اور احمدی کہہ کر بلایا جارہا ہے۔

اور فیس بک اور ٹوئٹر جیسی سماجی ویب سائٹس پر جبران ناصر کی ایسی تصاویر پوسٹ کی جارہی ہیں، جن میں انھیں ہندوؤں کےمذہبی تہوار ‘ہولی’ میں شریک دکھایا گیا ہے تاکہ ان کے اینٹی مسلم (مسلمان مخالف) ہو نے کا ‘ثبوت’ پیش کیا جا سکے۔

تاہم دوسری جانب کراچی سے تعلق رکھنے والے وکیل جبران ناصر اپنے موقف پر قائم ہیں اورٹوئٹر پر اپنے خلاف الزامات کا جواب انھوں نے کچھ یوں دیا ہے۔

‘میں انسانی حقوق کے لیے اپنی تابعداری کو قبول کرتا ہوں اور سنی، شیعہ، احمدی، عیسائی، ہندو، پارسی یا چاہے کوئی بھی ہو، انسانی حقوق کے لیے میری وکالت جاری رہے گی’۔

لال مسجد کے خلاف مظاہروں کے منتظمین، جن کی پیر کو وفاقی کابینہ کے رکن سے اپنے مطالبات سامنے رکھنے کے حوالے سے ملاقات متوقع تھی، اب اپنے خلاف لگائے الزامات کا جواب دینے کے لیے ایک پریس کانفرنس پر غور کر رہے ہیں۔

کچھ حلقے اس خدشے کا بھی اظہار کر ہے ہیں کہ جبران ناصر کے خلاف لگائے گئے الزامات ان کی زندگی کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں، کیونکہ ہمارے معاشرے میں کسی کو احمدی کہہ دینا لوگوں کو اس شخص کے خلاف تشدد پر اکسانے کے مترادف ہے۔

حال ہی میں لقمان احمد شہزاد نامی ایک احمدی شخص کے قتل نے جبران ناصر کی سیکیورٹی کے حوالے سے تحفظات میں اضافہ کردیا ہے، جسے گجرانوالہ کے ایک گاؤں میں سر پر گولی مار کر قتل کردیا گیا تھا۔

اس تشویش میں جبران کے ایک اور ٹوئٹر پیغام سے مزید اضافہ ہوگیا ہے، جس میں ان کا کہنا ہے کہ ‘لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی پوری انتظامیہ ہمارے خلاف سوشل میڈیا مہم کے لیے اپنے تمام وسائل استعمال کر رہی ہے۔ کیا آپ سب لوگ ردعمل ظاہر کرنے کے لیے ہماری مدد کریں گے’؟

یاد رہے کہ 16 دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں طالبان کی دہشت گردی اور معصوم جانوں کی ہلاکتوں کے حوالے سے مولانا عبدالعزیز نے اپنے ایک متنازع بیان میں کہا تھا کہ وہ نہ تو اس واقعے کی مذمت کریں گے اور نہ انھیں ‘شہید’ کہیں گے۔

مولانا کے اس بیان کے بعد سول سوسائٹی کے اراکین نے ان کے خلاف احتجاج کا آغاز کیا اور دو دن تک مظاہرین لال مسجد کے باہر جمع رہے جس کے دوران مولانا عبدالعزیز کی جانب سے انھیں مبینہ طور پر دھمکیاں بھی دی گئیں۔

نتیجتاً دونوں پارٹیوں (مولانا عبدالعزیز اور سول سوسائٹی اراکین) کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔

جبکہ 26 دسمبر کو اسلام آباد کی مقامی عدالت کے سینیئر سول جج ثاقب جواد نے مولانا عبد العزیز کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے ، تاہم مولانا نے گرفتاری نہ دینے کا فیصلہ کیا ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button