مقالہ جات

بھکر کا ضمنی الیکشن اور اصل حقائق،

ضلع بھکر میں حال ہی میں ہونے والے ضمنی الیکشن کے حوالے سے آج کل بہت سے افراد اپنی نامکمل معلومات کی بنیاد پر تجزیہ و تحلیل کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کو مورد الزام ٹھہرایا ہے، ان میں سے اکثر افراد وہ ہیں جو ضلع بھکر کے حالات سے واقف ہی نہیں ہیں اور نہ ہی انہیں حقیقت حال معلوم ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس حلقے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے۔

کالعدم جماعت سپاہ صحابہ کا سیاسی عروج:
ضلع بھکر میں سپاہ صحابہ کو سیاسی عروج اس وقت ملا جب نوانی برادران کے سعید اکبر خان نوانی نے اپنی سیٹ چھوڑ کر شہباز شریف کو پی پی48 سے بلامقابلہ منتخب کروایا ۔ شہباز شریف جلاوطنی کے بعد 2008 میں پہلی بار االیکشن میں کھڑے ہورہے تھے تو نوانیوں نے یہ قربانی دے ڈالی ، شہباز شریف کی دلی خواہش تھی کہ وہ الیکشن میں بلامقابلہ منتخب ہوں اور اس کیلئے خواہ کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ شہباز شریف سمجھتے تھے کہ بلامقابلہ منتخب ہونے سے صوبے میں نون لیگ کے حوالے سے اچھا پیغام جائے گا ۔ اس صورتحال کو بھاپتے ہوئے نون لیگ میں موجود سپاہ صحابہ کے ہمدردوں نے سپاہ صحابہ کے حمید خالد کے کاغذات نامزدگی فارم جمع کروا دئیے تاکہ شہباز شریف کوبلیک میل کیا جاسکے اور مذاکرات کی میز پر بیٹھایا جاسکے، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ شہباز شریف بلامقابلہ منتخب ہونے کیلئے کوئی بھی شرط ماننے کیلئے تیار ہوجائیں گے۔ یوں شہباز شریف اور سپاہ صحابہ کے درمیان ایک ڈیل کرائی گئی اور شہباز شریف کو کہا گیا کہ اگر آپ نے اس حلقہ سے بلامقابلہ منتخب ہونا ہے تو آپ کو سپاہ صحابہ کے مطالبات ماننا پڑیں گے۔ یوں بلامقابلہ منتخب ہونے کی دھن میں شہباز شریف نے سپاہ صحابہ کیساتھ ایک ڈیل کرلی۔ اس ڈیل تحت دہشتگردوں کے سرغنہ اور سینکڑوں شیعوں کا قاتل ملک اسحاق کی رہائی ممکن ہوئی، ڈیرہ اسماعیل خان سے دہشتگردوں کو رہا کیا گیا، مالی معاونت دی گئی اور سپاہ صحابہ کے مولوی حمید خالد کو انتظامیہ کی طرف سے مکمل سپورٹ کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔ لیکن اہم بات یہ کہ شہباز شریف جب سپاہ صحابہ سے ڈیل کر رہا تھا تو اس وقت نوانی برادران نے شہباز شریف سے ایک لفظ تک نہ کہا کہ حضور والا سیٹ ہم دے رہے ہیں،قربانی ہم دے رہے ہیں تو یہ ڈیل کیوں انجام پا رہی ہے اور کیوں سینکڑوں شیعوں کے قاتل کو رہا کرنے کے پروانہ پر دستخط کیے جارہے ہیں۔؟، لیکن سلام ہو نوانیوں پر جنہون نےپارٹی کی اطاعت میں اس حد تک گئے کہ اس حساس معاملے پر منہ تک نہ کھولا۔ یوں یہ ڈیل منتطقی انجام تک پہنچی اور اس حوالے سے میڈیا پر خبریں بھی نشر ہوئیں۔ یہی وجہ بنی کہ ایک صوبےکا وزیرقانون رانا ثناء اللہ کالعدم جماعت کی ریلی کو لیڈ کرتا ہوا پایا گیا۔

اس ڈیل کے بعد بکھر کی سرزمین پر مومنین کے خلاف ناختم ہونے والے مقدمات کا سلسلہ شروع ہوگیا اور بھکر پر بلا شرکت غیر حکومت کرنے والے نوانی خاندان نے انتظامیہ کے شیعہ دشمن رویہ پر مکمل سکوت آختیار کیے رکھا۔ حتیٰ کہ نوانی برادران کے گھر پر خودکش حملہ کے باوجود ان کے لب سپاہ صحابہ کے خلاف نہ کھل سکے۔حتیٰ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ وہ درپردہ سپاہ صحابہ کو سپورٹ کرتے رہے ہیں تاکہ اس طرح شیعہ ووٹ بن مانگے ان کی گود میں آکر گرے، یہ باتیں بھکرمیں زبان زدِ عام ہیں کہ اگر نوانیوں کے پاس کوئی شیعہ ووٹرچلا جائے تو وہ اسے دھکے دیکر اپنے ڈیرے سے نکال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم شیعہ ووٹوں سے تھوڑے منتخب ہوئے ہیں، جاو دفعہ ہو جاو، ضمیر حسن شاہ شہید کے لواحقین کو بھی یہی جواب دیا گیا، اگر کسی کو یقین نہ آئے تو وہ خود رابطہ کرکے اس بات کو کنفرم کرسکتا ہے۔

الیکشن دو ہزار تیرہ کی صورتحال اور کچھ حقائق:
قومی انتخابات 2013ء میں بھی نوانی برادران نےالیکشن لڑا،ان پر کرپشن چارجز اور جعلی ڈگری کے الزامات تھے۔ رشید اکبر خان نوانی نے الیکشن کے دنوں میں جامعہ المنتظر کی جعلی ڈگری جمع کرائی تھی جسے جامعہ المتنظر نے تصدیق کرنے سے انکار کردیا تھا ، یوں تینوں بھائی الیکشن کی دوڑ سے باہر ہوگئے تھے اور عدالت نے انہیں جعلی ڈگری کیس میں جیل بھیج دیا تھا۔ اس قومی انتخاب میں مجلس وحدت مسلمین کے احسان اللہ خان بلوچ نے صرف اس وجہ سے قومی اسمبلی سے مجلس وحدت کی ٹکٹ سے الیکشن لڑا کیوں کہ صوبایی اسمبلی کی سیٹ سے سعید اکبر خان نوانی الیکشن لڑرہے تھے جو بعد ازاں نااہل ہوکر باہر ہوگئے تھے۔احسان اللہ بلوچ کا صوبائی سیٹ پر کھڑے نہ ہونے کی وجہ ہی صرف شیعہ امیدوار کا کھڑا ہونا تھا لیکن اس کے باوجود قومی اسمبلی کی سیٹ سے نوانی گروپ کے عبدالمجید خان خنان خیل (دیوبندی ) انتخاب میں میدان میں اترے ۔قومی اسمبلی کے اس حلقے سےاحسان اللہ خان نے غیر سرکاری نتائج کے مطابق اٹھارہ ہزار اور الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق دس ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے۔

حالیہ ضمنی الیکشن:
حالیہ ضمنی الیکشن میں تین مضبوط امید وار حصہ لے رہے تھے۔ ایک نوانی برادران کے بیٹے احمد نواز نوانی جنہیں تقریر تک کرنا نہیں آتی۔دوسرے انعام اللہ نیازی اور تیسرے عوامی تحریک کے نذر عباس (شیعہ ہیں) ہیں۔ نوانی برادران عرصہ دراز تک حکومت کرنے کے باوجود علاقہ کی ترقی کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ تحریک جعفریہ کے عروج کے دور میں وزارت نقوی جو اس وقت بھی تحریک کے اہم ذمہ دار ہیں، کو اس شرط پر دستبردار کروایا گیاکہ وہ انہیں سینیٹر کے لیے حمایت کریں گےلیکن بعد میں تحریک جعفریہ کی بات تک سننا گوارا نہ کی گئی۔شیعہ ووٹ بنک کو اپنی جیب کا ووٹ سمجھنے والوں نے آج تک کبھی شیعہ حقوق کا تحفظ نہیں کیا۔ حالیہ الیکشن میں نہ تو تحریک جعفریہ کی طرف نوانی امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا گیا، نہ ہی کوئی اخباری بیان جاری کیا گیا اور نہ ہی کسی جلسہ میں کسی رہنما نے شرکت کرکے انہیں سپورٹ کیا۔ وزارت حسین نقوی جیسی شخصیت حلقہ میں موجود ہونے کے باوجود نوانی نہ تو ان کے پاس گئے اور نہ سپورٹ کرنے کے حوالے سے کوئی پیغام بھجوایا گیا اور نہ ہی شیعہ علماء کونسل کی طرف سے ان کی سپورٹ کی گئی اورنہ ہی نوانیوں کو یہ معلوم ہوا کہ ایس یو سی کی طرف سے انہیں سپورٹ کیا گیا ہے۔حتیٰ الیکشن کے دن تک۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ اس حلقے میں تحریک جعفریہ نوانیوں یعنی نون لیگ کو سپورٹ کرنے کے بجائے پیپلزپارٹی کو سپورٹ کرتی آئی ہے اور اس کی مثال گذشتہ الیکشن بھی ہیں جس میں شیعہ علماء کونسل پیپلزپارٹی کی اتحاد ی جماعت بنی اور اسے سپورٹ کیا۔ یوں پاکستان کی دوسری بڑی جماعت کہلانے والی پیپلزپارٹی کے امیدوار کو اُس الیکشن میں فقط تین ہزار ووٹ پڑ سکے۔ جبکہ مجلس وحدت کے امیدوار کو دس ہزار سے زائد ووٹ پڑے۔یوں اس وقت ایم ڈبلیو ایم کسی رہنما ء یار کارکنوں نے یہ الزام نہیں لگایا کہ ایس یو سی نے پی پی پی کو سپورٹ کرکے شیعہ ووٹ تقسیم کیا اور نہ ہی اس پر کوئی سیاست چمکانے کی کوشش کی۔

اس ضمنی الیکشن میں جب مجلس وحدت کے احسان اللہ خان بلوچ نے اعلان کیا کہ وہ ضمنی انتخاب حصہ لیں گے تو اس وقت تک عوامی تحریک نے اپنا امیدوار میدان میں لانے کا اعلان نہیں کیا تھا ۔ احسان اللہ خان رشید اکبر خان نوانی سے ملنے گئے اور انہیں پیغام دیا کہ اگر آپ ہم (مجلس وحدت) سے اپنی حمایت کی توقع رکھتے ہیں تو پھر آپ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سے فوری رابطہ کریں لیکن نوانی برادران اپنے تکبر میں اتنے غرق تھے کہ بارہا کہنے کے باوجود وہ نہ تو شیعہ علماء کونسل کے پاس حمایت کیلئے گئے اور نہ ہی ایم ڈبلیو ایم سے اس معاملے پر کوئی رابطہ کیا، الٹاایم ڈبلیو ایم ضلع بھکر کی ضلعی قیادت کو دھمکیاں دینے پر اتر آئے۔اسی روش کے باعث نوانی گروپ مستی خیل، کہاوڑ، جھمٹ، کڑکلی، و دیگر برادریو ں کو بھی اپنے سے دور کرچکے اور یہی چیز ان کی شکست کا موجب بنی ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ ایم ڈبلیو ایم احسان اللہ بلوچ جھوٹ الزام کی پاداش میں جیل کی ہوا کھا چکے ہیں اور انہیں عدالت باعزت بری کرچکی ہے لیکن نوانی گروپ نے اس حوالے سے کوئی بھی آواز بلند کرنے میں اپنی توہین سمجھی۔ اسی حلقہ میں علامہ ساجد نقوی، حامد علی شاہ موسوی سمیت اہم شخصیات کے داخلے پر تو پابندی ہے لیکن اہل سنت والجماعت کے احمد لدھیانوی، اورنگزیب فاروقی اور خادم حسین ڈھلوں پر کوئی پابندی نہیں ہے، وہ کھلے عام بھکر کی سرزمین پر آکر فتنہ بازی کرتے رہتے ہیں لیکن انہیں کوئی روکنے والا نہیں، کیوں کہ ڈیل کے مزے ہی کچھ اور ہیں۔

ضمنی الیکشن کے دوسرے امیدوار انعام اللہ خان نیازی تھے۔ان کا تعلق میانوالی سے ہے۔ یہ سیٹ انعام اللہ خان نیازی کے بھائی نجیب اللہ نیازی کی وفات کے باعث خالی ہوئی تھی جس پر الیکشن لڑا گیا اور بھائی کیوفات کے باعث خالی ہونے والی سیٹ انعام اللہ نیازی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یاد رہے کہ عام انتخابات میں بھی سپاہ صحابہ نے نجیب اللہ کو سپورٹ کیا تھا، اس وقت ایم ڈبلیو ایم کا کوئی امیدوار اس حلقہ سے کھڑا نہیں ہوا تھا لیکن اس کے باوجود نوانی گروپ کا امیدوار ہار گیا تھا، لیکن منفی پرپیگنڈا کرنے والے نوانی کی اس شکست پر خاموش رہے، کیوں اس وقت ایس یو سی پیپلزپارٹی کی حمایت کررہی تھی۔ اس ضمنی الیکشن میں جو شیعہ گروپس اور افراد انعام اللہ کو سپورٹ کررہے تھے ان میں علمدار جھمٹ جو کہ اسی حلقہ سے صوبائی اسمبلی کا الکشنش لڑ چکا ہے اور دلیوالہ کا بااثر اور سابق نوانی گروپ کا ممبر رہا ہے، اسی طرح پنج گرائیں کی بالی برادری اور سید برادری، بستی احمد شاہ والی کی کڑکلی برادری اور کئی دیگر شیعہ برادریاں انعام اللہ کی الاعلان سپورٹر تھیں۔ اس کے علاوہ ثنا اللہ مستی خیل (سابق ایم این اے اور ایم پی اے اور بریلوی) ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ (موجودہ ایم این اے)، عامر عنایت شہانی، غضنفر عباس چھینہ(ایم پی ایز)، سپاہ صحابہ، جماعت اسلامی، سنی اتحاد کونسل بھکر(انہوں نے حامد رضا سے بغاوت کی)،جمیعت علمائے اسلام، جماعت اہل حدیث اور دیگر باثر گروپس شامل ہیں جنہوں نے انعام اللہ نیازی کو سپورٹ کیا ہے۔

فتح کس کی ہوئی:؟
انعام اللہ نیازی عمران خان کے کزن ہیں ،تحریک انصاف میں اہمیت نہ ملنے کی وجہ سے باغی تھا جسے شہباز شریف نے سازش سے حالیہ ضمنی الیکشن لڑوایا۔ نوانی ،ڈھانڈلہ اور مستی خیل گروپ کا تعلق کیوں کہ نون لیگ سے تھا اس لئے شہباز شریف نے دونوں گروپس کو ٹکٹ نہیں دیا اور حلقہ اوپن چھورڑدیا۔ نون لیگ نے اعلان کیا کہ دونوں گروپس میں جو بھی جیتے گا جماعت کا ٹکٹ اسے ملے گا۔ یوں ضمنی الیکشن کے دونوں امیدوار نون لیگ سے ہی تھے اور نون لیگ کا ہی حمایت یافتہ امیدوار ہی کامیاب ہوا۔ اس لئے ایم ڈبلیو ایم کو نوانیوں کی شکست کا ذمہ دار ٹھہرانا درست نہیں ہے، خود تحریک جعفریہ دوہزار تیرہ کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کے امیدوار کی حمایت کرچکی ہے، حالانکہ اس الیکشن میں بھی نوانی گروپ کا بندہ الیکشن میں موجود تھا اور ایم ڈبلیو ایم کا امیدوار بھی، لیکن حمایت فقط پی پی پی کے امیدوار کی گئی۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایم ڈبلیو ایم نے منتشر شیعہ ووٹ کو مجتمع کیا ہے اور اس حوالے سے ان کی سیاسی کامیابی ہے کہ بہت کم وقت وہ اٹھارہ ہزار ووٹوں کو اپنی جماعت کی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ اب سیاسی جماعتوں کی آنکھوں سے یہ پٹی اترے گی کہ شیعہ ووٹ ہماری جیب کا ووٹ نہیں ہے اور ہماری جیت اس وقت تک یقینی نہیں ہوسکتی جب تک شیعہ جماعتوں کو اہمیت نہ دی جائے۔

نوٹ: ساتھ شئیر کیا گیا یہ لنک نون لیگ اور سپاہ صحابہ کے کٹھ جوڑ سے متعلق ہے۔ اسے بھی ضرور پڑھیں۔
http://www.thenews.com.pk/Todays-News-13-21277-Shahbaz-beca…

متعلقہ مضامین

Back to top button