مولانا فضل الرحمان اور طالبان کا معاشقہ
اپنے تازہ بیان میں مولانا فضل الرحمان نے طالبان کے ساتھ اپنے تمام تعلقات کو بے نقاب کرتے ہوے اس بات کا کھلے عام اظہار کیا ہے کہ ہمارے دل طالبان کے ساتھ دھڑکتے ہیں مولانا کے اس کھلے عام اعتراف سے طالبان کے حامیوں اور مخالفوں میں تقسیم ایک بار پھر صاف طور پہ ظاہر ہوگیی ہے – مولانا نے جو طالبان سے اتنی محبت کا اظہار کیا ہے تو یہ اس بات کی گواہی ہے کہ طالبان کے حامی جو ان کے حملوں اور دہشت گردی کو پہلے یہودی سازش یا بیرونی ہاتھ کا کارنامہ کہتے تھے یہ لوگ دہشت گردی کے نہ صرف حامی ہیں بلکہ اس میں شامل بھی ہیں – طالبان نے جو ستر ہزار پاکستانیوں کا قتل عام کیا ہے اس میں نہ صرف طالبان بلکہ ان کی حامی بھی شامل ہیں ، مولانا فضل الرحمان صاحب سے ایک معصومانہ سوال ہے کہ اگر ان کے دل طالبان کے ساتھ دھڑکتے ہیں تو کیا وہ طالبان کے تمام خود کش حملوں اور دہشت گردی کی وارداتوں کی ذمہ داری بھی قبول کرنے پہ تیار ہیں؟ مولانا صاحب آپ کا دل تو طالبان کے ساتھ دھڑکتا ہے کیا آپ کے دل میں ان لوگوں کے لئے بھی کبھی درد کی لہر اٹھی ہے جن کو طالبان نے اپنی وحشیانہ دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہوے قتل کیا ہے؟ ان معصوم بچوں اور عورتوں کے لئے آپ کے دل میں کوئی ہمدردی نہیں جن کو طالبان نے مینا بازار ، مون مارکیٹ، قصّہ خوانی اور ان جیسے اور بہت سی جگہوں پہ اپنی وحشت اور بربریت کا نشانہ بنایا؟ مولانا صاحب کیا پاکستان کے آئین کا حلف اٹھا کے آپ پاکستان کی عوام کے پیسوں سے اس لئے تنخواہ لیتے ہیں کہ آپ اسی عوام کے قاتلوں کے ساتھ اپنی کھلے عام محبت کا اظہار کرتے پھریں؟ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کے طالبان اور ان کے حامیوں کے خلاف آئین پاکستان سے غداری کے جرم میں مقدمات قائم کیے جایں اور آرٹیکل چھ کے تحت ان پر غداری کے مقامات چلا کر جلد سے جلد قرار واقعہ سزا دی جائے