پاکستان

ہمارا بھائی محبت اہلبیت (ع) میں اگر پھانسی بھی چڑھ جائے تو افسوس نہ ہوگا، نزاکت جعفری

liyaqatسزائے موت کے منتظر شیعہ قیدی لیاقت حسین جعفری کے بھائی کا کیساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران کہنا تھا کہ میرا بھائی اہل بیت (ع) کے راستے پر چلتے ہوئے اگر شہید بھی ہوجائے تو ہمیں افسوس نہیں ہوگا۔ اگر ہمیں تکلیف ہو بھی تو ہم کربلا کی طرف دیکھتے ہیں، میرا بھائی ان عظیم ہستیوں سے زیادہ عزیز نہیں ہے۔ امام سجاد (ع) سے زیادہ میرا بھائی عزیز نہیں۔ امام موسٰی کاظم (ع) سے زیادہ میرا بھائی عزیز نہیں۔ اگر میرا بھائی قید میں ہے تو انہی عظیم ہستیوں کی خاطر قید میں ہے۔ وہ میرا بھائی ہے وہ تکلیف میں ہے، ٹھیک ہے بھائی ہونے کی وجہ سے اسے دیکھ کر ہمیں بھی تکلیف ہوتی ہے، وہ ہمارا خون ہے، لیکن پھر جب ہم کربلا کی طرف دیکھتے ہیں تو تسکین ملتی ہے کہ وہاں پر تو اس سے کئی گنا زیادہ ظلم ہوا تھا۔ میری ملت کے اکابرین سے گزارش یہ ہے کہ شہید فاونڈیشن کی طرح اسیروں کے لئے بھی ادارہ قائم ہونا چاہئے۔

لیاقت حسین جعفری جن کا بنیادی تعلق جھنگ کے علاقہ بستی سلطان سے ہے، جون 1992ء میں انہیں مولوی مختار سیال قتل کیس میں گرفتار کیا گیا، اور پھر عدالت نے انہیں سید اسحاق کاظمی سمیت سزائے موت سنا دی۔ 23 اکتوبر 2001ء کو ہائی کورٹ اور 15 جون 2009ء کو سپریم کورٹ نے سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا۔ 10 جولائی کو سپریم کورٹ نے بھی نظرثانی کی اپیل خارج کرتے ہوئے سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا۔ لیاقت جعفری کے اہلخانہ نے 8 اگست 2012ء کو صدر پاکستان کے پاس رحم کی اپیل دائر کی۔ لیکن اس پر اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ لیاقت جعفری اس وقت فیصل آباد جیل میں قید ہیں اور سید اسحاق شاہ عرف ساقی کاظمی کے ہمراہ پاکستان کی تاریخ میں ملت تشیع کے طویل ترین قید کاٹنے والے قیدی ہیں۔ لیاقت جعفری کا گھرانہ اس وقت انتہائی کسمپرسی کی حالت میں وقت گزار رہا ہے۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے لیاقت جعفری کی اسیری اور ان کے خانوادے کے حالات زندگی سے آگاہی کیلئے لیاقت جعفری کے چھوٹے بھائی نزاکت جعفری کیساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ ان کے خانوادے کی خواہش پر انٹرویو کیساتھ تصویر لیاقت جعفری کی شائع کی جا رہی ہے۔ (ادارہ)

سوال : سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ لیاقت جعفری کے کیس کی موجودہ پوزیشن کیا ہے۔؟

نزاکت جعفری: سب سے پہلے تو ہم آپ کے مشکور ہیں کہ آپ ہم غریبوں کے پاس تشریف لائے اور آپ وہ واحد شخص ہیں جو ہماری خبر گیری کیلئے آئے ہیں۔ کیس کے حوالے سے میں یہ کہوں گا کہ اس وقت ہماری رحم کی اپیل صدر زرداری کے پاس ہے۔ عدالت میں دائر کردہ ہماری تمام اپیلیں خارج ہوگئی ہیں۔ اب صدر زرداری کے پاس رحم کی اپیل ہے۔ دعا کریں کہ پنجتن پاک (ع) کے صدقے اللہ تعالٰی کوئی سبب بنا دے۔

سوال : 1992ء کا یہ واقعہ ہے، اس واقعہ کے بعد ہی کیس کی پیروی شروع کردی گئی تھی یا اس سلسلے میں کوئی تاخیر ہوئی۔؟

نزاکت جعفری: پہلے فیصل آباد کی خصوصی عدالت میں کیس چلا، اس میں سزاء ہوئی، پھر ہم نے ہائیکورٹ میں اپیل کی۔ وہاں خواجہ شریف صاحب جج تھے، ان کے پاس کچھ عرصہ کیس چلا۔ انہوں نے ہماری اپیل مسترد کر دی۔ پھر ہم نے 8 سال قبل سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔ وہاں سے بھی مسترد کر دی گئی اور سزائے موت کا فیصلہ برقرار رہا۔ میں اس کیس میں جاتا رہا اور اسحاق کاظمی کا بھائی علی حسین بھی میرے ساتھ جاتا رہا ہے۔ ہمارے حالات ایسے تھے کہ کیس کے سلسلے میں عدالت جانے کیلئے پیسے تک نہیں ہوتے تھے۔ 21 سال ہوگئے ہیں، ہم اسی بحران کا شکار ہیں۔ کوئی پوچھنے تک نہیں آیا کہ ہم کس حال میں ہیں اور لیاقت کیسا ہے۔

سوال : ملت کی جانب سے آپ کے گھرانے کیساتھ کسی قسم کا تعاون کیا گیا۔؟

نزاکت جعفری: ملت کا یہ تعاون رہا ہے کہ ماہانہ طور پر تھوڑا بہت خرچہ وغیرہ بھیج دیتے ہیں، اس کے علاوہ کوئی تعاون نہیں ہے۔ بھائی کے اس کیس میں ہم نے سارے زیور، گھر کا سامان حتٰی کہ سب کچھ بیچ دیا۔ اب اللہ تعالٰی کی آس پر بیٹھے ہیں۔ کچھ مومنین ہیں جو مدد کر دیتے ہیں، جس سے بھائی کا کیس کسی حد تک چل جاتا تھا، تین بہنوں کی ہم نے شادی کر دی ہے۔ کوئی باقاعدہ سپورٹ کا سلسلہ نہیں ہے۔ یہ کیس امجد کاظمی صاحب نے لڑا۔ ہم آج تک وکیل سے بھی نہیں ملے۔ وہ کہتے ہیں کہ وکیل کو اتنے پیسے دے دیئے ہیں، ہمیں بتایا گیا کہ شیخ طاہر نے اس کیس میں 11 لاکھ روپے لئے ہیں، لیکن جب وہ عدالت میں پیش ہوئے تو جج نے انہیں بولنے کیلئے کہا تو انہوں نے کہا کہ میری تیاری نہیں ہے، مجھے کچھ وقت دیا جائے۔ جس پر جج نے کہا کہ یہ کیا بات ہے، آپ عدالت میں آئے ہیں اور آپ کی تیاری نہیں ہے۔؟ جس پر جج نے فوری طور پر اپیل مسترد کر دی۔ جو رحم کی اپیل ہم نے کی ہوئی ہے، اس کی فائل میں نے لاہور سے منگوائی ہے، اب ہم بہن بھائی اگلے منگل کو کراچی جا رہے ہیں۔ صدر زرداری کا ایک جاننے والا ہمارا بھی جاننے والا ہے، اس نے کہا ہے کہ میں تمہاری ملاقات کراسکتا ہوں۔ اسی امید پر ہم جا رہے ہیں کہ وہ ہماری زرداری صاحب سے ملاقات کروا دیں گے۔ دیکھیں جو اللہ کو منظور ہوا۔

سوال : لیاقت جعفری کی شخصیت کے حوالے سے ہمارے قارئین کو کچھ بتایئے گا۔؟

نزاکت جعفری: جب یہ واقعہ ہوا تو وہ اس وقت اسٹیٹ لائف میں کام کرتے تھے اور ان کی عمر 25 سال تھی۔ اب وہ 46 سال کے ہوچکے ہیں۔ ہم چھ بھائی تھے، ہمارے 4 بھائی جوانی میں ہی وفات پاچکے ہیں، ہم دو بھائی اب بچے ہیں۔ ایک جیل میں پڑا ہے اور ایک میں ہوں۔ میں تواتر کیساتھ بھائی کی تاریخوں پر جاتا رہا ہوں، اس سے ملاقات کیلئے بھی جاتا ہوں اور اس سلسلے میں لوگوں سے ملاقاتیں بھی کرتا رہتا ہوں۔ سارے معاملات کو میں ہی اکیلا ہینڈل کر رہا ہوں۔

سوال : ہماری اطلاعات کے مطابق 1993ء میں ٹریفک حادثہ میں آپ کی والدہ اور بھائی بھی جاں بحق ہوگئے تھے۔؟

نزاکت جعفری: جی ہاں۔ ایسا ہے کہ میری والدہ اور بھائی لیاقت سے ملاقات کیلئے لاہور جا رہے تھے، ٹریفک حادثہ میں ان کی وفات ہوگئی۔ واقعات تو بہت ہیں آپ کو کیا کیا بتائیں۔؟ جب ہمارا بھائی گرفتار ہوگیا تھا تو مجھ سمیت 3 بہنوں اور ایک دوسرے بھائی کا کوئی سہارا نہیں تھا۔ والد کا سایہ بھی سر سے اٹھ چکا تھا۔ بھائی سے ملاقات کرنے کیلئے بھی ہمیں اتنی مشکلات درپیش ہوتی تھیں کہ آپ کو بتا نہیں سکتے۔ کبھی عید یا کسی اور خوشی کے موقع پر کوئی ایسا وقت نہیں آیا کہ کسی نے ہمارے گھر کے دروازے پر دستک دیکر ہمارا حال احوال پوچھا ہو۔ یہ میں مومنین کی بات کر رہا ہوں۔ ہم وقت گزارتے رہے، ہم نے مقامی سطح پر بزرگان سے گلہ بھی کیا۔ لیکن کوئی ہمیں پوچھنے کیلئے نہیں آیا۔ ہمارے گھر کے مالی حالات آپ کے سامنے ہیں۔ ایک واقعہ آپ کو بتاتا چلوں کہ ایک مرتبہ لاہور کے ایک مومن نے اسیروں کیلئے دس، دس ہزار روپے بھیجے۔ انہوں نے پھر ایک آدمی بھیجا کہ آیا وہ رقم آپ کی ملی ہے یا نہیں؟ میں نے کہا ہمیں تو کچھ نہیں ملا۔ پھر انہوں نے کہا کہ فلاں آدمی کے پاس وہ پیسے آئے ہیں آپ جاکر لیں۔ جب میں ان صاحب کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ پیسے آئے تھے مگر میں نے کسی اور مستحق کو دے دیئے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس اسیروں یا شہداء کے لواحقین کیلئے کوئی امداد آجائے تو معلوم نہیں وہ ان مستحقین تک پہنچتی بھی ہے یا نہیں۔ لہذا میں درخواست کروں گا کہ مستحق افراد سے ایسے لوگ براہ راست خود رابطہ کریں تو زیادہ بہتر ہے۔

سوال : بھائی کی یاد تو ستاتی ہوگی۔؟

نزاکت جعفری: میرا بھائی اہل بیت (ع) کے راستے پر چلتے ہوئے اگر شہید بھی ہوجائے تو ہمیں افسوس نہیں ہوگا۔ اگر ہمیں تکلیف ہو بھی تو ہم کربلا کی طرف دیکھتے ہیں، میرا بھائی ان عظیم ہستیوں سے زیادہ عزیز نہیں ہے۔ امام سجاد (ع) سے زیادہ میرا بھائی عزیز نہیں۔ امام موسٰی کاظم (ع) سے زیادہ میرا بھائی عزیز نہیں۔ اگر میرا بھائی قید میں ہے تو انہی عظیم ہستیوں کی خاطر قید میں ہے۔ وہ میرا بھائی ہے وہ تکلیف میں ہے، ٹھیک ہے بھائی ہونے کی وجہ سے اسے دیکھ کر ہمیں بھی تکلیف ہوتی ہے۔ وہ ہمارا خون ہے۔ لیکن پھر جب ہم کربلا کی طرف دیکھتے ہیں تو تسکین ملتی ہے کہ وہاں پر تو اس سے کئی گنا زیادہ ظلم ہوا تھا۔ میری ملت کے اکابرین سے گزارش یہ ہوگی کہ شہید فاونڈیشن کی طرح اسیروں کے لئے بھی ادارہ قائم ہونا چاہئے، یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ہم جن حالات سے دوچار ہیں انہی حالات سے کئی دیگر خاندان بھی گزر رہے ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ جو وقت ہمیں دیکھنا پڑا ہے وہ کسی اور کو بھی دیکھنا پڑے۔

سوال : آخر میں کچھ بھی کہنا چاہیں تو ”اسلام ٹائمز” کا فورم حاضر ہے۔؟

نزاکت جعفری: میرا اپنی قوم کے نام بس اتنا ہی پیغام ہے کہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، ورنہ یہ دشمن تمہارے انتشار کا فائدہ اٹھا کر مار دے گا۔ اسیران کی قانونی مدد کرنا ہر پاکستان کے شہری کا آئینی حق ہے۔ لہٰذا اسیران کسی بھی قوم کی عزت ہوتے ہیں، ان کے مقدمات میں دلچسپی لیں۔ شہداء کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کریں اور ان کے بچوں کو بھی اپنے بچوں کی طرح سمجھیں۔ ہم آپ کے ادارے کے بے حد مشکور ہیں کہ آپ ہمارے دکھوں میں شریک ہوئے، اللہ تعالٰی آپ کو کوئی غم نہ دے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button