پاکستان

پنجاب حکومت کالعدم دہشت گرد گروہوں کی سرپرست

Malik-Ishaqحکومت پنجاب کے اراکین انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی خاطر کالعدم تنظیموں کے جلسوں میں شریک نظر آئے تو کبھی میڈیا کی جانب سے دوطرفہ خفیہ رابطوں کے بھی انکشافات کئے گئے، اہل تشیع اور اہل سنت علماء کرام اس حوالے سے اپنی تشویش و خدشات ظاہر کرتے ہوئے اکثر دیکھے جا سکتے ہیں، اب تو وفاقی وزیر داخلہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ پنجاب میں لشکر جھنگوی کے لوگ سرکاری افسروں کیساتھ گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں، اس ساری صورتحال کے باوجود حکومت پنجاب نے تادم تحریر ان تمام خدشات، الزامات اور انکشافات کی کوئی پرواہ نہیں کی، جہاں یہ باتیں سننے میں آ رہی تھیں کہ بدنام دہشتگرد ملک اسحاق کو ایلیٹ فورس کا تحفظ اور کھلی چھٹی دینا حکومت پنجاب یا مسلم لیگ ن کی کسی خفیہ ڈیل کا نتیجہ ہے وہیں صوبائی حکومت نے کالعدم تنظیموں پر ایک اور مہربانی کرتے ہوئے ان تنظیموں سے تعلق رکھنے والوں کے مستقبل کا فیصلہ عدالتوں کے ذریعے کرانے کی بجائے ان کی اصلاحی تربیت کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ارکان کو زندگی کے دھارے میں واپس لانے کی غرض سے ابتدائی طور پر ان کی ٹریننگ ضلع راجن پور اور بہاولپور میں ہو رہی ہے، محکمہ داخلہ پنجاب کے ذرائع کے مطابق کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی ٹیکنیکل ٹریننگ کیلئے ضلع بہاولپور میں اٹھارہ جبکہ ضلع راجن پور میں سولہ افراد کا انتخاب کیا گیا، مذکورہ ٹریننگ کا آغاز دس جولائی 2011ء سے ہوا تھا اور یہ دس اکتوبر 2011ء کو اختتام پذیر ہو گی، پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرنے والوں میں کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ، جہاد الاسلامی، جیش محمد، حرکت الانصار اور حرکت الجہاد الاسلامی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ اس ٹریننگ پروگرام میں جو افراد حصہ لے رہے ہیں ان میں زیادہ تعداد نوجوان افراد کی ہے، شعبہ الیکٹریکل کی مفت تربیت دیے جانے کے ساتھ آٹھ سو روپیہ ماہانہ وظیفہ بھی مقرر کیا گیا ہے۔
اسلام ٹائمز اردو نے اس حوالے سے  چند روز قبل خبر جاری کی تھی، اس بارے میں ایک برطانوی نشریاتی ادارے نے بھی رپورٹ دی، جس میں بتایا گیا کہ اصلاحی تربیت حاصل کرنے والے تحصیل احمد پور شرقیہ کے ایک نوجوان نے کہا ہے کہ اسے تھانہ ڈیرہ نواب صاحب کے پولیس اہلکاروں نے بلایا اور کہا کہ فورتھ شیڈول میں شامل وہ لوگ جنہوں نے افغانستان سے جہاد کی تربیت لی ہوئی ہے اور انھوں نے افغانستان کے جہاد میں بھی حصہ لیا ہے وہ اس سولہ ہفتوں کی ٹریننگ میں حصہ لے سکتے ہیں، نوجوان کے مطابق اس کے لئے شعبہ الیکٹریکل کی مفت تربیت دیے جانے کے ساتھ ساتھ آٹھ سو روپیہ ماہانہ وظیفہ بھی مقرر کیا گیا ہے۔ 
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ضلع راجن پور کے ٹریننگ سینٹر سے تعلق رکھنے والے ایک اہلکار کے مطابق ان کے ادارے میں شعبہ الیکٹریکل بند ہو چکا تھا مگر پنجاب حکومت کے محکمہ داخلہ کے اس فیصلے کے بعد ان لوگوں کے لیے سات استادوں کو بھرتی کیا گیا ہے، تربیت لینے والوں کا مائنڈ سیٹ بدلنے کے لیے نہ صرف ماہرِ نفسیات کا بندوبست کیا گیا ہے بلکہ انھیں سرکاری مذہبی معلم دینی تعلیم بھی دیتے ہیں، کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی پیشہ وارانہ تربیت کے اس پروگرام کی تصدیق اور مزید معلومات کے لیے جب ضلع راجن پور میں تعینات سپیشل برانچ کے افسر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں اس امر کی تصدیق یا تردید سے گریز کیا۔
اس قسم کی ٹریننگ کا سلسلہ خیبر پختونخوا کے علاقہ سوات میں بھی شروع کیا گیا ہے لیکن اس کی نوعیت اس حوالے سے منفرد ہے کہ وہاں مشعال سنٹر میں تربیت حاصل کرنے والے تمام بچے ہیں جو طالبان کے خوف یا پھر زبردستی اغواء ہونے کے باعث عسکریت پسندی کی طرف گئے، اکثر بچے اپنے والدین کی ہدایت پر طالبان کیساتھ ملنے پر مجبور ہوئے، کم عمری کے باعث دہشتگردوں نے انہیں اپنا آسان ہدف سمجھا اور خودکش حملوں کی تربیت دی، لیکن سیکورٹی فورسز کے کامیاب آپریشنز کے باعث انہیں طالبان کے چنگل سے آزاد کروا لیا گیا اور پھر ان بچوں کے کچے ذہین جن میں طالبان نے دہشت اور عسکریت پسندی بھر دی تھی کو نکالنے کیلئے ان کی ذہنی تربیت کی گئی، اس اقدام کو اس لئے قابل قبول کہا جاسکتا ہے کہ یہ کوئی پیشہ ور دہشتگرد، ملک و اسلام دشمن، استعمار کے ایجنٹ یا شرپسند نہیں تھے بلکہ یہ مذکورہ بالا وجوہات کی بناء پر دہشتگردوں کا ساتھ دینے پر مجبور ہوئے، یہ قوم کا مستقبل تھے جنہیں ان کا حق دینا ریاست کا فرض تھا، کم عمری کے باعث ان پر مقدمات کا ندراج بھی نہیں ہو سکتا تھا۔
 لیکن اس کے برعکس اگر جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے کالعدم تنظیموں کے اراکین پر نظر ڈالی جائے تو وہ پختہ ذہنوں کے مالک اور بالغ ہیں اور ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان افراد پر ماضی میں مقدمات قائم ہو چکے ہیں، یہ لوگ یقیناً کسی خاص ایجنڈے کے تحت ہی ان کالعدم تنظیموں میں شامل ہوئے ہونگے، ایسی صورتحال میں حکومت کی جانب سے ان افراد کی اصلاح اور زندگی کے دھارے میں واپس لانے کی کوششوں پر کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔
امریکہ کی جانب سے افغانستان پر حملے کے بعد سے پاکستان دہشتگردی سے بری طرح متاثر ہوا اور بدقسمتی سے آئے روز ملک کے کسی نہ کسی حصے میں کوئی افسوسناک واقعہ پیش آتا رہتا ہے، ان حالات کے پیش نظر انسداد دہشتگردی ایکٹ میں ترامیم بھی کی گئیں اور اس قانون کو مزید سخت بنایا گیا لیکن اس کے باوجود حکومتوں کی جانب سے مناسب پراسکیوشن نہ ہونے کی وجہ سے دہشتگرد عدالتوں کی جانب سے رہا یا بری ہو جاتے ہیں۔ کالعدم تنظیموں کے وہ اراکین جو عدالتوں کی طرف سے ضمانتوں پر رہائی پا چکے ہیں لیکن ان کے مقدمات ابھی زیرالتواء ہیں ان کے حوالے سے انتظامیہ اور حکومت کی جانب سے کسی قسم کا نرم گوشہ یا اصلاحی تربیت کے نام پر رعایت دینے کا کوئی اقدام شدت پسندی کے شکار معاشرے میں قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ علماء متعدد بار حکومت پنجاب اور کالعدم تنظیموں کے روابط کے بارے میں اپنے خدشات و تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ 
حکومت پنجاب کو کالعدم تنظیموں کے افراد کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرنا ہو گی، ملک و قوم کے مفادات کیخلاف کام کرنے والوں کو سزائیں دلوانا اور ایسی تنظیموں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنا، معاشرے میں فرقہ وارنہ ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کو سبوتاژ کرنے والوں کی سازشوں کو پنپنے سے پہلے کچلنا اور عدالتوں سے بری یا ضمانتوں پر رہا ہونے والے کالعدم تنظیموں کے اراکین کے مستقبل کے حوالے سے تمام مسالک کے علماء اور سیاسی رہنمائوں کیساتھ مشاورت کے ذریعے مربوط حکمت عملی تشکیل دینا حکومت پنجاب کیلئے ناگزیر ہو چکا ہے۔ کالعدم تنظیموں کے اراکین کی حکومتی سطح پر اصلاحی تربیت ان حالات میں شاید کئی مکاتب فکر کیلئے قابل قبول نہیں ہو گی کیونکہ ان حالات میں کوئی ان کالعدم تنظیموں کے اراکین کے مستقبل کی ضمانت نہیں لے سکتا، اس حوالے سے سوچ وبچار کے بعد ہی کوئی ایسا قدم اٹھانے کی ضرورت ہے جو ملک و قوم کے مفاد میں ہو، حکمرانوں کو ایسے اسباب کا بھی تعین کرنا ہو گا کہ لوگ کالعدم اور دہشتگرد تنظیموں میں کیوں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button