پاکستان

طالبان دہشت گردوں نے پاراچنار میں5 شیعہ نوحوانوں کو شہید کر دیا۔ جنگ دوبارہ شروع ہونے کا امکان

shiite_taliban_kill

وہابی طالبان دہشت گردوں نے پاراچنار کے علاقے "بغدی” میں شیعہ نوجوانوں پر حملہ کرکے 5 شیعہ جوانوں کو شہید اور متعدد کو زخمی کردیا۔شیعت نیوز کے نمائندے کے مطابق وہابی طالبان دہشت گردوں نے پاراچنار سے 15 کلومیٹر دور شمال مغربی علاقے "بغدی” میں واقع "دلاسا” گاؤں، ـ جو طالبان دہشت گردوں کا مورچہ سمجھا جاتا ہے ـ کے قریب کئی شیعہ نوجوانوںکو فائرنگ کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 5 شیعہ نوجوان شہید اورمتعدد زخمی ہوگئے۔دہشت گردی کی اس کاروائی کے بعد سرحد پار کے پہاڑی علاقے میں واقع اڈے سے دہشت گردوں نے ارد گرد کے شیعہ علاقوں پر میزائل برسانا شروع کئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حملہ پیشگی منصوبے کے تحت کیا گیا۔ شیعہ مدافعین نے بھی علاقے میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کئے اور اس علاقے میں زبردست جھڑپیں شروع ہوگئی ہیںجبکہ طالبان دہشت گردوں کی کھلی دہشت گردی پرسرکاری فورسز بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی تھیں مگر شہر میں شیعہ عمائدین کے مطالبے پر حکومت نے آج شام کو سیکورٹی فورسز کے دستے علاقے میں روانہ کئے گئے ہیں۔ اطلاع کے مطابق اس علاقے میں ـ کل سے شروع ہونے والی ـ جھڑپیں آج شام کو بظاہر رک گئی ہیں۔ علاقے کے مبصرین کا خیال ہے کہ یہطالبان دہشت گردوں کی یہ دہشت گردانہ کاروائی علاقے میں جنگ کے شعلے کودوبارہ بھڑکانے کی غرض سے کی گئی ہے کیونکہ سرحد پار افغانستان پر قابض نیٹو افواج اس علاقے میں جنگ جاری رکھنے کی خواہاں ہیں اور اس علاقے میں امن و امان کے قیام سے ہرگز متفق نہیں ہیں۔ افغانستان میں سمندرپار کی قابض فوجیں کرم ایجنسی سے ملحقہ 470 کلومیٹر کی سرحدی پٹی کے امن و امان کو کرم ایجنسی میں ناامنی اور جنگ و خونریزی پر منحصر سمجھتی ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اگر تین سال سے کشت و خون کے گواہ اس جنت نظیر خطے میں امن اور صلح و آشتی بحال ہوجائے تو لوگوں کی آمد و رفت بھی بحال ہوجائے گی اور نیٹو و امریکہ مخالف گروہ بھی سرحدوں پر سرگرم ہوجائیں گے چنانچہ وہ اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے اس علاقے میں جنگ جاری رکھنا چاہتی ہیں اور جمعرات کے روز ہونے والی دہشت گردی کی کاروائی کا نیٹو اور امریکہ کے ان اہداف و مقاصد سے بھی تعلق ہوسکتا ہے کیونکہ اس جنگ کا فائدہ صرف اور صرف امریکہ اور نیٹو کو مل رہا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ پاراچنار کی نئی ناکہ بندی کا جنوری 2009 سے شروع ہوئی تھی جو ایک سال تک جاری رہی اور اس سال محرم میں علاقے کے عوام کے زبردست دباؤ کے نتیجے میں قومی شاہراہ کھول دی گئی گوکہ آمد و رفت ایف سی کی نگرانی میں ہوتی تھی اور شیعہ مسافرین کو ـ جو بچوں، عورتوں، بیمار افراد پر مشتمل ہوتے تھے ـ قافلوں کی صورت میں پشاور لے جایا جاتا اور لوٹایا جاتا تھا مگر یہ سلسلہ بھی گذشتہ منگل کے روز کوہاٹ کے نواح میں نصرت خیل نامی گاؤں میں موجود دہشت گردوں نے بند کردیا۔ انھوں نے راستہ بند کردیا اور ایف سی، پولیس اور اعلی حکام راستہ نہ کھلوانے میں تاحال ناکام ہیں۔گویا یہ طالبان دہشت گردوں کی طرف سے حکومت کے ان دعؤوں کی عملی تردید تھی کہ طالبان بیت اللہ اور حکیم اللہ کی ہلاکت کے بعد کمزور پڑ گئے ہیں کیونکہ طالبان دہشت گردوں نے اس مقام پر حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نام نہاد قومی شاہراہ کا امن چیلنج کیا اور شیعہ مسافرین کو 9 گھنٹے بے پناہ رہنے کے بعد ـ پاراچنار روانہ کئے جانے کی بجائے پشاور واپس کردیا گیا اور یوں تین سال قبل ربیع الاول 1428 ( بمطابق اپریل 2007) سے شروع ہونے والی ناکہ بندی کا ایک بار پھر آغاز کردیا گیا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button