سعودی عرب

سعودی عرب میں اہل تشیع کی احتجاجی تحریک

saudia flaqسعودی عرب کے مشرقی صوبے میں شیعہ اقلیت سال 2011 سے صلاحات کے لیے احتجاج کر رہی ہے جس کے خلاف سعودی حکام کی کارروائیاں بھی جاری ہیں۔
سعودی ذرائع ابلاغ میں اس احتجاج اور مظاہروں کی خبریں شایع نہیں ہوتیں۔
سعودی صحافی صفا الاحمد کو قطیف میں رسائی ملی تو اُنھوں نے وہاں بعض ایسے لوگوں سے بات کی جو حکومت کو مطلوب افراد کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔
قطیف سعودی عرب کے مشرقی صوبے کا ساحلی علاقہ ہے جہاں کی آبادی شیعہ مسلمان پر مشتمل ہے جو سعودی عرب میں اپنے عقائد کے اعتبار سے اقلیت ہیں۔
اُن کا دعویٰ ہے کہ انھیں ملک کے سنی حکمرانوں کے فرقہ وارانہ امتیاز کا سامنا ہے اور علاقے کے قدرتی وسائل سے پیدا ہونے والی دولت کا فائدہ بھی انھیں کم پہنچتا ہے۔
قطیف میں شورش 2011 کے اوائل میں شروع ہوئی تھی۔ مظاہرین اُن نو افراد کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے جنھیں مقدمہ چلائے بغیر کئی برسوں سے قید رکھا گیا تھا۔
حکام نے فوری طور پر سکیورٹی فورسز کو بھیجا اور درجنوں افراد گرفتار بھی ہوئے مگر یہ احتجاج دبا نہیں اور تین سال گزر جانے کے بعد اب بھی علاقے کے اطراف چوکیاں بنی ہوئی ہیں۔
صفا الاحمد کہتی ہیں ’اس کے باوجود کہ میں سعودی تھی میرے لیے کیمرہ لے کر گھومنا پھرنا مشکل تھا اور مجھے گرفتار بھی کیا جا سکتا تھا۔
میں جاننا چاہتی تھی کہ مظاہرین اور احتجاج کیوں اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
میں نے چند نوجوانوں کو ڈھونڈا جو انٹرویو دینے پر تیار ہوگئے لیکن انھیں ڈر تھا کہ کہیں انہیں شناخت نہ کر لیا جائے اس لیے ان کی خواہش تھی کہ ان کی آوازیں بدل دی جائیں۔‘
ان نوجوانوں کے مطابق’سو سال سے ہم قطیف میں پسماندگی کا شکار ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ قدرتی دولت سے مالامال علاقہ ہے۔ دنیا میں تیل کاسب سے بڑا کنواں قطیف میں ہے لیکن ہمیں کیا ملا؟ خستہ حال گھر؟ غربت؟ بھوک اور پسماندگی؟‘
میں نے درجنوں مظاہرین سے خفیہ ملاقاتیں کیں جس کے بعد یہ واضح ہوگیا کہ علاقے کے لوگوں کے کوئی متفقہ مطالبات نہیں ہیں مگر وہ سب ملک میں بڑی اصلاحات چاہتے ہیں۔
چند افراد کمانے باہر جاتے ہیں باقی اپنے وقار اور حقِ آزادی کے لیے۔ میں نے دیکھا کہ یہی ساری باتیں قطیف یا دیگر علاقوں میں احتجاج کی وجہ تھیں۔
شورش کے آغاز میں مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ غیر مسلح تھے لیکن مجھے اس بات کا ثبوت ملا کہ کم از کم ایک شخص نے سکیورٹی فورسز کے خلاف آتشیں ہتھیار استعمال کیا۔ حکومت کا شروع سے یہ کہنا رہا ہے کہ سکیورٹی فورسز پر فائرنگ کی جاتی تھی۔
تفتیش سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ اِن لوگوں کو اسلحہ ہے جس کی تلاش کے لیے تفتیش جاری ہے۔
ٹوبی میتھیسن کی خلیجی ممالک میں ہونے والی شورشوں پر قریبی نظر رہی ہے۔
ٹوبی میتھیسن کے مطابق’سعودی عرب کا حکمراں خاندان یا صاحب اختیار افراد ملک میں سیاسی اصلاحات نہیں چاہتے اور اِس مسئلے سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہتے ہیں۔ اِس کا واحد ردِعمل بے حسی یا تشدد ہی ہو سکتا ہے۔ اگر آپ اصلاح پسند ہیں اور سعودی عرب رہتے ہیں تو حکومت کے خلاف آواز اُٹھانے کااِس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔‘
فروری میں مظاہرین کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں دو پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے تھے اور اب دونوں فریق مورچہ بند ہیں۔
شورش میں ہلاک ہونے والوں کے لیے عوامیہ قبرستان میں خصوصی پلاٹ مختص ہے۔ بی بی سی کی جانب سے اِس معاملے پر سعودی حُکام کا انٹرویو یا تحریری بیان حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے جو اب تک کامیاب نہیں ہو سکی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button