سعودی عرب

سعودی عرب میں قرآن مجید کی توہین اور وہابی مفتیوں کی مجرمانہ خاموشی

quran behurmatiرپورٹ کے مطابق حجاز کے شہر طائف میں ایک سڑک کے کنارے گندے نالے کی صفائی کے دوران 50 سے زائد قرآنی نسخے برآمد ہوئے ہیں جس پر معمولی سی بات پر انسانوں کا گلا کاٹنے کا فتوی دینے والے مفتی ہائے اعظم خاموش ہیں اور ان کے پیروکار تکفیری بھی ـ جو دنیائے اسلام میں خون کی ہولیاں کھیل رہے ہیں اور یہودی ریاست کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہیں ـ اس غفلت یا پھر ارادی فعل پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
ذیل کی تصویر ایک سماجی نیٹ ورک پر شائع ہوئی اور صارفین نے تکفیریوں سے کہا ہے کہ وہ اگر اپنے دعوؤں میں سچے ہیں تو اٹھتے کیوں نہیں ہیں اور اس توہین پر احتجاج کیوں نہیں کرتے اور آل سعود کے اس بھونڈے فعل کی مذمت کرکے خاموش مفتیوں کے خلاف نعرے نہیں لگاتے اور اگر پھر وہ احتجاج نہیں کرنا چاہتے تو اسلام کی ٹھیکیداری کے دعویدار کیوں ہیں؟ کیا سعودیوں کو توہین قرآن کی اجازت ہے؟

تفصیلی رپورٹ:
سرزمین وحی میں ایک بار پھر آل سعود کی توہین قرآن
سعودی سرکاری اداروں نے قرآن مجید کے دسوں نسخے طائف شہر کے ایک گندے نالے پانی میں پھینک کر اس آسمانی کتاب کی بےحرمتی کی ہے۔
اس توہین آمیز اقدام پر خاموشی اختیار کرنے والے وہابی مفتیوں کی مسلح فورس "امر بالمعروف و نہی عن المنکر کمیٹی” کے اہل اہلکار کہا ہے کہ ایک اسکول کے طالبعلم نے اسکول سے گھر لوٹتے ہوئے قرآنی نسخے اس گندے نالے میں پڑے دیکھے تھے اور اس نے اپنے والدین کو اس توہین آمیز اقدام سے آگاہ کیا تھا جس پر بچے کے باپ نے سیکورٹی گشت پر مامور اہلکاروں کو اس اقدام کی اطلاع دی۔
اس اقدام کے محرکات کا ابھی تک کوئی پتہ نہ چل سکا تاہم لگتا ہے کہ سعودی حکومت کے حلقے قرآن کے حوالے سے اس ملک کے عوام کی حساسیت کم کرنے کے لئے اس گناہ عظیم کے مرتکب ہوئے ہیں؛ اور پھر مسجد الحرام اور مسجد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ میں قرآن کے ساتھ سعودیوں کے رویے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں سرزمین قرآن میں قرآن کا اس طرح سے احترام نہیں کیا جاتا جیسا کہ قرآن کا حق ہے۔
واضح رہے کہ سعودی حکومت میں توہین قرآن کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی سیاسی قیدیوں کے اذیتکدے "الحائر جیل” کے زنداں بانوں نے بھی کلام وحی کی بےحرمتی کی تھی جس پر حجاز کے شہریوں نے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ اس بےحرمتی کی تصاویر سائبر اسپیس پر وسیع سطح میں شائع ہوئی ہے اور صارفین نے اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے آل سعود اور وہابیت کی انتہاپسندانہ اور تشدد پسندانہ تکفیری رویوں کو اس کا اصل محرک قرار دیا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button