سعودی عرب

بندر بن سلطان نے جارح فوج تشکیل دی/ شام: 600 سعودیوں کا القاعدہ کے ساتھ تعاون

Bandar bin sultanرپورٹ کے مطابق الرأي نامی نیوز ویب سائٹ نے لکھا ہے کہ سعودی حکومت یمن کے شمالی صوبے الصعدہ میں شیعہ حوثیوں اور شام کی حکومت اور عوام کے خلاف لڑنے کے لئے محمد آرمی نامی فورس تشکیل دی ہے جس میں جنگجو جوانوں کو بھرتی کیا گیا ہے اور انہیں جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کیا گیا ہے۔ 

حال ہی میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق بندر بن سلطان کی درخواست پر 5 ہزار سے لے کر 50 ہزار تک افراد پاکستان میں پاک آرمی کے زیر تربیت ہیں جبکہ الرأي نے برطانوی عسکری اخبارات و رسائل اور دیگر یورپی ممالک کے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ سعودی عرب اب مصر کو پاکستان کے متبادل کے طور پر سامنے لا رہا ہے اور اس کے بعد پاکستان کے بجائے مصر کو ایک دوست فوجی قوت سمجھ کر اس کا سہارا لینے کا ارادہ رکھتا ہے۔
واضح رہے کہ مرسی کا تختہ الٹ جانے سے پہلے مصر اور سعودی حکومت کے درمیان فاصلے مسلسل بڑھ رہے تھے لیکن فوجی بغاوت کے نتیجے میں اخوانی حکومت کے خاتمے کے بعد سعودی عرب اب مصر کا پہلے درجے کا اتحادی بن کر سامنے آرہا ہے جبکہ اسرائیل کے ساتھ آل سعود کے روابط کے نئے نئے پہلے بھی سامنے آرہے ہیں جن کو چھپانے کی اب سعودی حکمران بھی کوشش نہیں کرتے۔
اس رپورٹ کے مطابق اگر سعودی عرب کو کسی بیرونی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا تو وہ مصری فوج کو اپنی سرزمین پر تعینات کرے گا گوکہ ابھی تک مصر کی حکومت نے اس حوالے سے کوئی موقف ظاہر نہیں کیا ہے؛ لیکن سعودی حکمران سمجھتے ہیں کہ تیل کی بےتحاشا آمدنی سے کسی کو بھی خریدا جاسکتا ہے حتی کہ بنی بنائی فوج تک کو۔
ان اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ 65 سالہ بندر بن سلطان (پیدائش 2 مارچ 1949) اور بندر کے نوجوان بھائی 33 سالہ نائب وزیر دفاع سلمان بن سلطان پیدائش 1976) ـ جو اپنے سوتیلے بھائی بندر کی طرح سیکورٹی اور انٹیلجنس معاملات کے ماہر اور کئی برسوں تک فرسٹ لیفٹننٹ کے طور پر (!) واشنگٹن میں سعودی سفارتخانے میں فوجی اتاشی رہ چکے ہیں جبکہ بندر اس وقت سعودی عرب کے سفیر تھے اور بندر اور سعود الفیصل کے ساتھ شام کو غیر مستحکم کرنے میں فعال کردار ادا کرتے آئے ہیں ـ سعودی عرب کے اس دو رخی منصوبے کی نگرانی کررہے ہیں۔ اور خاص طور پر یہ کہ 74 سالہ علیل وزیر خارجہ سعود الفیصل (پیدائش 2 جنوری 1940) کے ہوتے ہوئے سعودی خارجہ پالیسی کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں۔ ان دو بھائیوں نے "کئی ارب ڈآلر” کا فنڈ حاصل کیا ہے جس کے ذریعے وہ اردن میں اپنی نئی فوج کو تربیت دلوا رہے ہیں اور ساتھ ہی مصری ڈکٹیٹر جنرل عبدالفتاح السیسی کو بھی امداد فراہم کررہے ہیں جنہیں ہر ماہ ملکی اخراجات کے لئے ایک ارب ڈالر کی ضرورت ہے اور یہ دو سعودی بھائی اسرائیل اور امریکہ کے پسندیدہ السیسی کے بیرونی قرضہ جات کی ادائیگی میں بھی مدد دے رہے ہیں کیونکہ مصر کے بیرونی قرضے اس فی کس آمدنی کے اسی فیصد کے برابر ہیں۔
مغربی ذرائع کا کہنا ہے کہ میجر جنرل عبدالفتاح السیسی کافی عرصے تک ریاض میں مصری سفارتخانے کے فوجی مشیر کے طور پر کام کرتے رہے ہیں اور سعودی حکام کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات ہیں اور انہیں سعودی حکام کا پورا اعتماد حاصل ہے۔
ان ذرائع نے کہا ہے کہ السیسی نے حال ہی میں امریکہ کی طرف سے مصر کی فوجی امداد کی معطلی کے بعد روس سے مگ 29 طیارے اور میزائل سسٹمز خریدنے کا جو عندیہ دیا ہے اس کی ترغیب سعودی حکومت نے دی تھی۔
واضح رہے کہ بندر بن سلطان نے بھی روسی صدر سے ہتھیاروں کی درخواست کی تھی جو صدر پیوٹن نے یکسر مسترد کردی ہے۔
توقع کی جاتی ہے کہ نئی فورس شامی افواج کے خلاف سعودی ٹاسک فورس کے طور پر استعمال کی جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس فورس کو مستقبل قریب میں حوثیوں کے خلاف لڑنے کے لئے وہابی تکفیریوں کی امداد کے لئے یمن بھی بھجوادی جائے جہاں سعودی امداد پہلے سے ہی پہنچ رہی ہے اور جولائی 2009 سے جنوری 2010 تک سعودی فورسز براہ راست حوثیوں کے ساتھ لڑتی رہی ہیں جنہیں البتہ اس لڑائی میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور جنگ حوثیوں کی یکطرفہ جنگ بندی کے ساتھ ہی بند ہوگئی تھی اور سعودی افواج کو سات مہینوں سے جاری اس لڑائی میں بھاری جانی اور مالی نقصانات کے علاوہ دو چھاؤنیاں بھی حوثیوں کے حوالے کرنا پڑی تھیں۔ چنانچہ سعودی حکمران بخوبی جانتے ہیں کہ سعودی فوج کسی صورت میں بھی کسی بیرونی ملک میں تو کیا اپنے ملک کے دفاع کے لئے بھی لڑنے کے قابل نہیں ہے۔ جس کی ایک مثال یہ ہے کہ اگر کسی وقت سعودی حکام پاکستانی افواج کو اپنا سہارا سمجھتے تھے تو اب وہ مصری افواج کا سہارا لینے کا فیصلہ کرچکے ہیں اور بہر صورت انہیں ایک بیرونی فوج کے سہارے کی ہر وقت ضرورت ہوتی ہے۔
لندن میں بعض ذرائع نے کہا ہے کہ محمد آرمی ابتدائی طور پر 50 ہزار افراد پر مشتمل ہوگی اور بعد میں اس کی تعداد دو لاکھ پچاس ہزار افراد تک بھی پہنچ سکتی ہے۔
ان ذرائع کا کہنا ہے کہ محمد آرمی کا اصل اڈہ اردن میں رہے گا اور اردن ہی اس کا مستقل اڈا ہوگا اور شام یا دیگر ملکوں پر حملے کے لئے یہ افواج اردن ہی سے روانہ کی جاتی رہیں گی۔
شام کی نام نہاد اپوزیشن الائنس کے سربراہ احمد الجربا نے سب سے پہلے سعودیوں کے اس منصوبے کو فاش کردیا تھا اور آٹھ اگست 2013 کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ سعودی عرب شام کے باہر ایک قومی فوج قائم کررہا ہے۔
سعودیوں کے سابق غیر عرب دوستوں کے لئے یہ بات بھی شاید صدمے کا باعث ہو کہ سعودی عرب کی اس فوج کے تمام افراد عرب ہونگے اور اس کے زیادہ تر افسران اور جوانوں کا تعلق اردن، شام اور یمن سے ہوگا۔ اور یہ فوج مارچ 2016 میں آپریشنل ہوجائے گی۔
کسی رپورٹ میں البتہ یہ نہیں کہا جاسکا ہے کہ کیا سعودیوں کی یہ فورس شام افواج اور حوثی مجاہدین کا مقابلہ کرسکی گي؟ اور کیا کسی ملک کو آج تک کرائے کے فوجیوں کے سہارے کوئی کامیابی مل سکی ہے؟
بہر کیف خواب دیکھنے میں کیا حرج! دیکھنے دو آل سعود کو اچھے دنوں کے خواب۔۔۔
شام: چھ سو سعودی شہری القاعدہ کے ساتھ تعاون کررہے ہیں
ایک رپورٹ کے مطابق القاعدہ سے وابستہ داعش اور جبہۃالنصرہ نامی دہشت گرد تنظیموں میں 600 سعودی دہشت گرد بھی شامل ہیں۔
اطلاعات کے مطابق ایک سعودی اخبار نویس فارس بن حزام نے انکشاف کیا ہے کہ شام میں سرگرم القاعدہ تنظیم کی ذیلی تنظیموں کی اکثریت کا تعلق سعودی شہریوں سے نہیں ہے جبکہ افغانستان اور عراق میں سرگرم القاعدہ کے اکثر اراکین کا تعلق سعودی عرب سے ہے۔
الجزیرۃ العربیۃ نامی ویب سائٹ نے فارس بن حزام کے حوالے سے لکھا کہ شام کے خلاف لڑنے والی القاعدہ کے تیونسی اور لیبیائی اراکین کی تعداد سعودی اراکین سے کہیں زيادہ ہے۔
بن حزام نے سعودی نیوز چینل العربیہ سے بات چیت کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ شام میں مسلح گروپوں کو سعودی عرب کی مالی اور عسکری حمایت حاصل ہے لیکن سعودی انٹیلجنس ایجنسیاں لیبیا اور تیونس کی ایجنسیوں کی نسبت کہیں زيادہ مؤثر انداز سے اپنے شہریوں کو شام جانے سے روک رہی ہیں اور انہیں القاعدہ میں شامل نہيں ہونے دیتیں۔
العربیہ نے اسی دوران خطرناک ترین سعودی مجرم "صالح القرعاوی” کی تصویر دکھائی جس کا نام 85 مطلوبہ مجرموں کی فہرست میں بھی شامل ہے اور وہ ایک آنکھ، دایاں ہاتھ اور دونوں پاؤں کھو چکا ہے۔
فارس بن حزام نے اس تصویر کے بارے میں کہا: القرعاوی کی ایک آنکھ چلی گئی اور اس کا داہنا ہاتھا اور دونوں ٹانگیں بھی کٹ گئیں اور اس کو علاج معالجے کے لئے سعودی عرب منتقل کیا گیا۔ اور یہ ان لوگوں میں سے ہے جن کو القاعدہ نے لبنان اور افغانستان جیسے ممالک میں استعمال کیا ہے۔
فارس بن حزام نے کہا: القاعدہ کے سرغنے سعودی باشندوں کو خودکش حملوں اور میدان جنگ میں مخالف فورسز سے لڑنے کے لئے استعمال کرتی ہے؛ القاعدہ اپنی تشہیری ویڈیوز میں صرف اپنے سعودی اراکین کو منظر عام پر لاتی ہے اور اس رویئے کو شام، پاکستان، یمن اور عراق میں یکسان طور بروئے کار لارہی ہے جس سے اس کے تین مقاصد ہیں:
1۔ زیادہ سے زیادہ سعودی اراکین کو اپنی طرف راغب کرنا؛
2۔ سعودیوں کی طرف سے زيادہ سے زیادہ مالی امداد کو یقینی بنانا؛ اور
3۔ سعودی مفتیوں کو زيادہ سے زیادہ فتوے جاری کرنے پر راغب کرنا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button